بھارتی میڈیا کے مطابق مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث سیکڑوں مسلمانوں نے محفوظ مقامات پر پناہ لے رکھی ہے۔ 19 مئی کو بھٹ پاڑہ اسمبلی حلقے میں ضمنی انتخاب کیلئے پولنگ کے دوران کانگریس اور بی جے پی حامیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اس کے بعد سے ہی مسلم اکثریتی علاقوں پر حملے شروع ہوگئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں مکانات اور دکانوں کو لوٹ لیا گیا تھا۔
4 دن گزرنے کے باوجود کولکتہ کے قریب واقع اس شہر میں فرقہ وارانہ تناؤ برقرار ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مسلمانوں پر حملوں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار بی جے پی امیدوار ارجن سنگھ ہے۔ اب تک سیکڑوں مسلمان گھروں سے دربدر ہوچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے غنڈوں کی جانب سے مسلم علاقوں میں فائرنگ کے علاوہ گرینیڈ بھی پھینکے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں 14 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان شروع ہونے والے تنازع نے فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کر لی، جس کے باعث بھاٹ پاڑہ شہر کے مختلف علاقوں میں نیم فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ تاہم ان کی موجودگی بھی مسلمانوں کا اعتماد بحال نہیں کر سکی ہے۔
ادھر ٹینا گودام کے سیکڑوں مسلمان جان بچانے کیلئے اپنا گھر چھوڑ کر انجمن حمایت الغرباء ہائی اسکول میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ چونکہ ووٹوں کی گنتی کل مکمل ہوگی اس لئے مسلمان خوفزدہ ہیں کہ اگر لوک سبھا میں ارجن سنگھ اور بھاٹ پارہ کے ضمنی انتخاب میں ارجن سنگھ کے بیٹے پوون سنگھ کو شکست ہوگئی تو ایک بار پھر ان پر حملے ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ارجن سنگھ چند ماہ پہلے تک کانگریس میں تھا اور گزشتہ 20 برس سے حلقے کا ممبر اسمبلی تھا۔ تاہم وہ ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی میں شامل ہوگیا، جس کے سبب علاقے میں اس کی حمایت کم ہوگئی ہے۔ خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں اس کی مقبولیت میں واضح کمی آئی، جس پر اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ مسلم علاقوں سے اس مرتبہ ووٹ نہیں ملے گا اور اس نے مسلمانوں کو ڈرانے کیلئےتشدد کا راستہ اپنایا۔