آزادی کشمیر کی حامی تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کئے جانے کے عمل کو بھارت اپنی سفارتی و اخلاقی فتح قرار دے رہا ہے۔ بھارت کا ہمیشہ سے دعویٰ ہے کہ انڈیا میں دہشت گردی کے پیچھے پاکستانی تنظیم کا ہاتھ ہے، مگر جس روز دنیا نے مسعود اظہر کو دہشت گرد مان لیا اسی روز ماؤ باغیوں نے دھماکہ کر کے 15 بھارتی فوج مار ڈالے۔
واضح رہے کہ بھارت 2016 سے مسعود اظہر کو اس فہرست میں شامل کرنے کا خواہاں رہا ہے تاہم چین اِس کی مخالفت کرتا رہا۔ گزشتہ روز اس حوالے سے رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ اقوامِ متحدہ کی سینکشنز کمیٹی 1267 میں مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق پیش رفت ہوئی ہے۔ قبل ازیں چین نے برطانیہ اور فرانس کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو تکنیکی بنیادوں پر روک دیا تھا۔
مسعود اظہر کی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شمولیت پر خود بھارتی ماہرین نے کہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بھارتی سفارت کار شیو شنکر مینن کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کے بعد حافظ محمد سعید کو اسی فہرست میں شامل کیا گیا تھا لیکن حافظ سعید اب بھی پورے پاکستان میں گھوم پھر رہے ہیں اور تقاریر کرتے رہتے ہیں۔
ادھر بعض بھارتی ایکسپرٹس کا خیال ہے کہ مسعود اظہر کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنا بھارت کی سفارتی اور اخلاقی کامیابی ہے۔ تاہم اس سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کو ہوگا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ بھارت کی اس ’’فتح‘‘ پر مودی کو جشن منانے کا موقع بھی نہیں مل سکا ہے۔ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے سے قبل بھارت میں ایک اور بڑا حملہ ہوگیا اور مودی نے 15 پولیس کمانڈوز کی ہلاکت کی مذمت کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی۔
ٹوئٹر پیغام میں نریندر مودی نے ریاست مہاراشتر کے ضلع گڑھ چرولی میں ماؤ باغیوں کے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ مودی نے کہا کہ پُر تشدد واقعے کے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ تاہم سوگ کے باوجود مختلف شہروں میں اپنی انتخابی ریلیوں کو موخر نہیں کیا۔ اس ٹوئٹ کے بعد وہ ’’اخلاقی طور پر‘‘ مسعود اظہر کے حوالے سے بھی ٹوئٹ نہیں کر سکا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ماؤ باغیوں نے گڑھ چرولی میں پولیس کی دو گاڑیوں پر آئی ای ڈی کے ذریعے دھماکہ کیا، جس میں 15 بھارتی پولیس اہلکار اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوا۔ رپورٹ کے مطابق حملے کے وقت دو گاڑیوں میں 25 اہلکار سوار تھے۔ جبکہ واقعہ سے پہلے رات کو بائیں بازو کے باغیوں نے 36 گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارتی میڈیا اس حوالے سے خود متعدد بار رپورٹ کر چکا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں برفانی تودے گرنے سمیت ماؤ باغیوں اور نکسلیوں کے حملوں کے باعث ہوتی ہیں۔