ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ روپے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو دباؤ سے نکالنے، گردشی قرضہ ختم کرنے اور ملک کوقرضوں سے نجات دلانے کے لئے برآمدات بڑھانا واحد ذریعہ ہے جبکہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی کمی کا امکان ہے۔
پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جسکی وجہ ماضی کی بد انتظامی اور موجودہ وباء کے بعد لاک ڈاءون ہے جس نے لاکھوں افراد سے ان کا روزگار چھین لیا ہے جبکہ تخمینہ ہے کہ ایک کروڑ 80لاکھ لوگ بھی بیروزگار ہوسکتے ہیں۔
میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ملکوں اور اداروں کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی ادارے موڈیز نے پاکستان کی معاشی درجہ بندی پر نظر ثانی کے فیصلے کے چند روز بعدملک کے پانچ بڑے بینکوں کی مالی حالت پر بھی نظر رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا نتیجہ درجہ بندی میں تنزلی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے ۔ اس صورتحال کی وجہ حکومت کی جانب سے کمرشل قرضے بروقت ادا کرنے کے فیصلے کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر ہے۔ ریٹنگ ایجنسی نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وہ کتنے عرصہ تک پاکستان کے قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت پر نظر رکھے گا اور ریٹنگ کے بارے میں حتمی فیصلہ کب کیا جائے گا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس واچ لسٹ سے نکلنے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران کی ایک اہم وجہ روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی پالیسی اور برآمدات میں کمی ہے۔ اس وقت حکومت کو قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے اربوں ڈالر درکار ہیں جن کا انتظام کرنا ایک چیلنج ہے تاہم عالمی ادارے عالمی وباء کے پیش نظرپاکستان کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کرنے پر آمادہ ہیں جو ایک اچھی خبر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت کے حجم کے مقابلہ میں برآمدات گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل گرتے ہوئے اب 7.6 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق لکسمبرگ کی برآمدات معیشت کے حجم کے مقابلہ میں 224.8 فیصد، ویتنام کی برآمدات معیشت کے حجم کے مقابلہ میں 95.4 فیصد، ہانگ کانگ188 فیصد ،بحرین 88.1 فیصد، ایران 25 فیصد،بھوٹان 29 فیصد،بھارت 20 فیصداور بنگلہ دیش کی 15 فیصد ہے ۔
پاکستانی برآمدات کی صورتحال مخدوش ہے 2018 کی برآمدات سے صرف 38 فیصد درآمدات کی ادائیگی ممکن ہوئی جو غیر تسلی بخش صورتحال ہے ۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے معیشت کی دستاویز بندی اور اسکا رخ درست کرنے کےلئے قابل قدر اقدامات کئے ہیں تاہم برآمدی شعبہ کے تحفظات کے مد نظر زیرو ریٹنگ کی سہولت دوبارہ دینے پر غور کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات کے فروغ کے لئے افریقہ سمیت تمام غیر روایتی منڈیوں کا جائزہ لیا جائے۔