تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

بلوچستان یونیورسٹی کے مالی بحران نے طلباءکا مستقبل داﺅ پر لگا دیا ہے

Balochistan University k mali bohran ne talba ka mustaqbil dao pr lga dia hai
  • محمد قیصر چوہان
  • جولائی 11, 2023
  • 2:59 شام

جامعہ بلوچستان سمیت صوبے کی تمام جامعات کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے فوری طور پر 10 ارب روپے کے بیل آﺅٹ پیکج دیا جائے

پاکستانی معاشرے میں قلم و کتاب کے کلچر کو فروغ دینے سمیت محنت کش طبقے کے حقوق کا تحفظ ،امن، انصاف، اخوت، رواداری، اعتدال پسندی ،بردباری جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دینے کے مشن پر گامزن شاہ علی بگٹی ایک شفیق، مہربان، نڈر، بے باک ، مخلص، ذہین، محنتی، دوست نواز، منصوبہ ساز، مدد گار، ہمدرد، گہرا مشاہدہ کرنے والے، با عمل، پر عزم، ملنسار، خوش مزاج، اچھے منتظم، مستقل جدو جہد کرنے والے اور خوب سے خوب تر، کے متلاشی جیسے اوصاف کے حامل شخص ہیں۔ وہ آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے صوبائی چیئرمین کے ساتھ ساتھ بلوچستان یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صدر کے عہد ے پر فائزہے ۔وہ اس پلیٹ فارم سے جامعہ کے ایمپلائز سمیت دیگر محنت کشوںکے مفادات اوران کے حقوق کے تحفظ کی جنگ جرا ¿ت، بہادری اور استقامت کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔شاہ علی بگٹی محنت کشوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور محنت کش طبقے کی صحت، پیشہ وارانہ تحفظ و سلامتی کے سلسلے میں قانون سازی کے حوالے سے بھی شعور اُجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ”واضح رہے“نے شاہ علی بگٹی کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ جس میں ہونے والے گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

سوال : جامعہ میں ایمپلا ئز ایسوسی ایشن کا کیا کر دار ہے آپ ایمپلائز ایسوسی ایشن کی تاریخ میں کتنی مر تبہ صدر منتخب ہو ئے اور ٹریڈ یونین میں کب سے وابستہ ہیں؟
شاہ علی بگٹی: جامعہ بلوچستان میں بلوچستان یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن گریڈ ایک تا پندرہ تک کے تمام ملازمین کی واحد ہ نمائند ہ ایسوسی ایشن ہے جو کہ جامعہ ملازمین کے جملہ حقوق کی پاسبان اور مسائل حل کر نے کےلئے سر گرم عمل ہے ۔بلوچستان یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن کی عملی جدوجہد کے نتیجے میں جامعہ ملازمین بہت ساری سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیںاور الحمد اللہ جامعہ ملازمین کی اعتماد کی وجہ سے ایمپلائز ایسوسی ایشن کے تاریخ میں چوتھی مر تبہ صدر منتخب ہو ا ہو ں۔اوراللہ تعالی کے فضل و کرم سے ٹریڈ یونین میں گزشتہ30 سالوں سے محنت کش طبقہ اور ملازمین کی حقوق کی حصول کےلئے خدمات سرانجام دے رہا ہوں جس میں آل پاکستان لیبر فیڈریشن نے لیبر اور ملازمین کے خوشحالی کےلئے کئی تاریخی کارنامے سر انجام دیئے ہیںجس سے محنت کش اورملازمین طبقہ ابتک مستفید ہو رہے ہیں۔

سوال : جامعہ بلوچستان کے ملازمین کافی عرصہ سے سراپا احتجاج ہیں،اس کی کیا وجوہات ہیں؟

شاہ علی بگٹی: جامعہ بلوچستان اس وقت مالی ، انتظامی اور تعلیمی بحرانوں سے دوچار ہیں جس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ جامعہ کے ایمپلائز سمیت آفیسر ز اور اساتدہ کر ام کو درپیش مسائل اور جامعہ کے مستقل مالی بحران کی وجہ سے تنخواہوں کی عدم یا تاخیر سے ادائیگی علاوہ ازیں ایمپلائز کے پروموشن ، ٹائم اسکیل، اور دیگر مسائل کی وجہ سے مایوس ہیںاوربڑی اذیت کا شکار ہیں، اساتذہ کو کلاسوں، آفیسر ز کو اپنے دفاتر میں میں دفتری امورسرانجام دینے اور ایمپلائر کو اپنے فیلڈ ڈیوٹی سرانجام دینے میں بے پناہ مسائل کا سامنا ہے ،جس کے سبب وہ آئے روز سڑکوں پر سرپا احتجاج ہیں اگرجامعہ بلوچستان سمیت صوبے کے تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے تمام مسائل کے جنم لینے کی وجوہا ت کو باریک بینی سے دیکھا جائے تووفاقی ، صوبائی حکومتوں اور ایچ ای سی کی عدم دلچسپی کے باعث صوبے کے تمام جامعات مالی ، انتظامی بحرانوں کا شکار ہیں ،جامعہ کو درپیش مالی اور انتظامی بحران کی وجہ سے طلباءکی تعلیمی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہا ہے ،موجودہ صورتحال میںیونیورسٹی آف بلوچستان کے طلباءکا تعلیمی مستقبل اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔

سوال : جامعہ کووفاق اور صوبائی حکومت کی طرف سے سالانہ کتنابجٹ ملتاہے؟

شاہ علی بگٹی : اٹھارویں ترمیم کے بعد تمام اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل کر دیئے گئے لیکن بد قسمتی سے اب تک صوبائی حکومت اپنی ذمہ دار یوں کو پورا نہیں کر پارہی، جس کی مثال صوبائی ایچ ای سی کا قیام نہ ہو نا ہے اس کے علاوہ صوبے میں قائم 11یونیوسٹیز کےلئے صرف 2.5 ار ب روپے مختص کیے گئے ہیں ،جو انتہا ئی ناکافی ہے صرف جامعہ بلوچستان کے تنخواہ ادر دیگر اخراجات صرف 4 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں، ایچ ای سی یونیورسٹی آف بلوچستان کو سالانہ ایک ارب روپے کا بجٹ فراہم کرتی ہے، بلوچستان حکومت جامعہ کوصرف 50 کروڑ روپے جبکہ جامعہ کی اپنی آمدنی فیس وغیرہ کی مد میں سالانہ 60 کروڑ روپے ہیں جوکہ 2 ارب دس کروڑ روپے بنتے ہیں جبکہ سالانہ خسارہ ایک ارب 90 کروڑ ہے اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جامعہ کے مالی حالات کیا ہے ، مذکورہ بجٹ سے جامعہ کے مالی بحران کا ازالہ ممکن نہیں ،جامعہ کے مالی بحران نے طلباءکا تعلیمی مستقبل داﺅ پر لگا دیا ہے۔

Balochistan University k mali bohran ne talba ka mustaqbil dao pr lga dia hai

سوال: وہ کون سے اقدامات ہیں جن سے یونیورسٹی آف بلوچستان مالی بحران سے نکل سکتی ہے؟

شاہ علی بگٹی: وفاقی اور صوبائی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامعہ بلوچستان سمیت صوبے کی تمام جامعات کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے فوری طور پر 10 ارب روپے کے بیل آﺅٹ پیکج کااجر اءکر یں۔بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرنے ، انتہا پسندی پر مبنی سوچ اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے تعلیم کی شمع روشن کرنا ہوں گی ۔جامعہ بلوچستان کے مالی بحران کے مستقل خاتمے کےلئے بلوچستان یونیورسٹی ایمپلائر ایسوسی ایشن نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے یونیورسٹی آف بلوچستان کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے طویل احتجاجی سلسلہ شروع کیا لیکن بدقسمتی سے بلوچستان حکومت نے صوبائی بجٹ میں جامعات کے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا جس کی وجہ سے امسال جامعات کی مالی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں جامعہ کے زیر انتظام سینٹر ز (پاکستان اسٹیڈی سینٹر، سینٹر آف ایکسیلینس اور ایریا اسٹیڈی سینٹر) بھی بجٹ میں کٹوتی کے وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں اورتنخواہ ادا کر نے سے قاصر ہیں ۔

سوال:آپ کے نزدیک جامعات ایکٹ 2022ءکی افادیت کیا ہے؟

شاہ علی بگٹی:صوبائی اسمبلی نے انتہائی عجلت میں تعلیم کے شعبے کو تبائی کے دھائے پر پہنچانے کیلئے تمام اسئیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے بغیر جامعات ایکٹ 2022ءمیں پالیسی ساز اداروں خصوصاً سنڈیکیٹ، سینیٹ، اکیڈمک کونسل اور فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی سے اساتذہ کرام، آفیسران، ملازمین اور طلبا و طالبات کی منتخب نمائندگی ختم کردی گئی جس سے جامعات میں جمہوری کلچر ختم کر دیا گیا جس سے جامعات کا نظام آمرانہ طرز اختیار کر چکا ہے،جامعہ کے تمام اہم پوزیشنز جس میں رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات،چیف لائبریرین، ڈی جی پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر مستقل تعیناتی قصداً نہیں کرائی جارہی اور درجنوں ریٹائرڈ افراد کو کنٹریکٹ پر تعیناتی کے علاوہ دیگر شعبہ جات میںنئے بھرتیاں کرکے پسندیدہ افراد کو نوازا جارہا ہے جوکہ قابل مذمت فعل ہے، جبکہ جامعہ کے آفیسران و ملازمین کی قانونی پروموشن اور اپ گریڈیشن پر غیر قانونی طور پر قدغن لگائی گئی ہے جو ملازمین سے دشمنی پر مبنی اقدام ہے۔ میں صوبا ئی حکومت اورگورنر بلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑسے مطالبہ کرتا ہوں کہ جامعات ایکٹ 2022ءمیں ترمیم کر کے تمام اسٹتک ہولڈرز (ایمپلائز ایسوسی ایشن سمیت دیگر ایسوسی ایشنز اور طلباءو طالبات کو ان پالیسی ساز اداروں میں شامل کیا جائے جس سے بلوچستان میں تعلیم کو فروغ ملے اور جمہوری کلچر پروان چڑھ سکے۔

سوال:ہائر ایجوکیشن کمیشن 2023 بل پرآپ کیا تبصرہ کریں گے؟

شاہ علی بگٹی:ہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) 2023 کا بل دراصل صوبائی خودمختاری اور اٹھارہویں ترمیم کی مکمل خلاف ورزی اورہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) اور جامعات کی خودمختاری کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اس مجوزہ بل کے پاس ہونے سے کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کی تعیناتی براہ راست وزیراعظم کے اختیار میں دی گئی ہے اورہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) کے ارکان کی تعداد کوکم کردیا گیا ہے،صوبوں کی نمائندگی بھی ختم کردی گئی ہے صوبائی اسمبلیوں اور صوبائی حکومتوں کو بھی نئی جامعات بنانے سے روک دیا گیا۔ اس طرح کی اہم قانون سازی سے پہلے وفاقی حکومت کو صوبوں اور سٹیک ہولڈرز یعنی اساتذہ اور اس کے منتخب نمائندگان کو ہر حال میں اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور خصوصاً آئینی فورمز خاص کر کونسل آف کامن انٹرسٹ میں پیش کرنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ان تمام اہم فورمز کو نظرانداز کیا گیا۔

سوال:آپ کے نزدیک یونیورسٹی آف بلوچستان سمیت دیگر سرکاری محکموں میں تعیناتیاں میرٹ پر ہوئی ہیں؟

شاہ علی بگٹی: بلوچستان کے تمام محکموں میں جاری تعیناتیوں کے عمل میں کرپشن،میرٹ کی پامالی، اقرباءپروری اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں چیک اینڈ بیلنس احتسابی نظام نہ ہونے کی وجہ سے عوام کا سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے،بلوچستان میں کرپشن، اقرباءپروری، لوٹ کھسوٹ اورمیرٹ کی پامالی عام ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان اور بلوچستان ہائی کورٹ کے درجنوں ایسے فیصلے موجود ہیں جنہوں نے سرکاری محکموں میں سیاسی اقرباءپروری سے پاک میرٹ کو یقینی بنانے کیلئے احکامات صادر فرمائے لیکن صوبائی حکومت اور بیوروکریسی کی ہٹ دھرمی عروج پر ہے، پڑھا لکھا نوجوان، عوام،وکلائ،سول سوسائٹی کو موجودہ صورتحال پر تشویش ہے خالی اسامیوں پر ہزاروں نوجوان ٹیسٹ وانٹرویوز دیتے ہیں لیکن آج تک کوئی بھی ادارہ میرٹ پر ملازمت دینے سے قاصر ہے۔ بلوچستان میں چیک اینڈ بیلنس احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو خاطر میں نہیں لایا جارہا ہے حکومت اور بیوروکریسی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے عوام کا عدلیہ پر بھی اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ صوبہ بھر کے تمام محکمہ جات میں ہونے والے ٹیسٹ انٹرویوز کو منسوخ کرکے گریڈ پانچ سے اوپر کی تمام اسامیوں کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پر کیا جائے۔ کرپشن، اقرباءپروری میرٹ کی پامالی میں ملوث بیوروکریسی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور بلوچستان میں احتساب اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔

سوال:بلوچستان میں محنت کش طبقہ کس حال میں زندگی بسر کر رہا ہے؟

شاہ علی بگٹی:حکمرانوں کی مزدور دُشمن پالیسیوں، توانائی بحران، بے روزگاری اور دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب بلوچستان کا محنت کش طبقہ ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔بلوچستان میں صنعتیں پہلے ہی ناپید تھیں، جو تھوڑی بہت فیکٹریاں اور کارخانے چل رہے ہیں وہ توانائی بحران کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں اُوپر سے ان پر اس قدر زیادہ ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں کہ فیکٹری اور کارخانہ مالکان اپنے یونٹس بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔یہاں جو بھی حکومت آئی ہے وہ محنت کشوں کے ہی ووٹوں سے برسر اقتدار آئی،لیکن اقتدار میں آکر مزدور طبقے کو بھول گئی۔ ہمارے ہاں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے مزدور دشمن پالیسیاں مرتب کیں جن کی وجہ سے محنت کش دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ بلوچستان کا محنت کش طبقہ لیبر قوانین اور سماجی بہبود کے قوانین سے مکمل محروم ہے۔کام کرنے والی جگہ پرمزدوروں کیلئے صحت و سلامتی کا انتظام نہ ہونے اور حفاظتی آلات کی عدم فراہمی کی وجہ سے آئے روز کوئلے کی کانوں، بجلی کے کھمبوں، گٹروں کے اندر اور دوسرے خطرناک کاموں میں انسانی جانوں کاضیاع ہورہا ہے۔پیٹی ٹھیکیداری نظام نے محنت کش طبقے کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، محکمہ لیبر سمیت دیگر ادارے مالکان کے ساتھ مل کر محنت کش طبقے کا استحصال کر نے میں مصروف ہیں۔

سوال:بلوچستان حکومت کی جانب سے محنت کش طبقے کیلئے اعلان کردہ کم از کم تنخواہ پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟

شاہ علی بگٹی:پورے صوبے میں محنت کش طبقے کی کم از کم تنخواہ پر عمل نہیں ہو رہا۔یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر عمل در آمد کرائے،بلوچستان میں ایک مزدور کی کم سے کم تنخواہ 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، جو مہنگائی کے تناسب سے اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے، یہ مزدوروں کے ساتھ سنگین مذاق ہے مہنگائی کے دور میں پچیس ہزار تنخواہ مزدور کی توہین ہے۔ میاں بیوی اور دوو بچوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی فیملی بھی مہنگائی کے اس دور میں اس تنخواہ پر گزارا نہیں کر سکتی۔

سوال:محنت کش طبقے کی حالت کس طرح بہتر بنائی جا سکتی ہے؟

شاہ علی بگٹی:جب تک 75 سال سے مسلط حکمرانوں کو مسترد نہیں کیا جاتا اور سرمایہ داری، جاگیرداری اور افسر شاہی کے اس ٹرائیکا سے نجات حاصل کرکے ایماندار، دیانتدار، مخلص اور خدمتگار قیادت کا انتخاب نہیں کیا جاتا،اس وقت تک مزدوروں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی محنت کش طبقے کی خوشحالی ممکن ہے،پاکستان کے آئین کے مطابق مزدوروںاور کسانوں کو بنیادی حقوق دیئے جائیں۔

سوال:بطور ایک ٹریڈ یونین لیڈر آپ محنت کش طبقے کی بھلائی کیلئے حکومت سے کیا مطالبہ کریں گے؟

شاہ علی بگٹی: پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے مہنگائی، بے روزگاری کو ختم کر کے مزدور دُشمنی پر مبنی قوانین ختم کیے جائیں۔ محنت کش طبقہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے جبرو استحصال کاسب سے زیادہ شکار ہے لہٰذابلا امتیاز تمام غیر ہنر مند محنت کشوں کارکنوں کی کم از کم تنخواہ چالیس ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے۔ محنت کشوں کے اوقات کار میں کمی کی جائے اور ان کیلئے رہائشی کالونیاں تعمیر کی جائیں، 60سال سے زائد عمر کے شہریوں کو کم از کم20ہزار روپے ماہانہ بڑھاپا الاﺅنس دیا جائے
۔حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے ساٹھ فیصد صنعتی ادارے بند ہو چکے ہیںان کو فوری طور پرفعال کیا جائے، صنعتی اداروں کو سستی بجلی اور گیس مسلسل فراہم کی جائے۔

سوال:اس وقت بلوچستان میں ٹریڈ یونینز کی کیا صورتحال ہے؟

شاہ علی بگٹی: انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او)کے کنونشن اور پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت کسی بھی ادارے میںیونین سازی کا حق حاصل ہے لیکن بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میںبلوچستان کے محکمہ لیبر نے ٹریڈ یونینز حکومت بلوچستان سرونٹ (کنڈکٹ) رولز 1979کے تحت 62 سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں کی ٹریڈ یونینز کی رجسٹریشن منسوخ کی ہوئی ہے یہ اقدام عالمی اور ملکی قوانین کے برعکس اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے لہٰذا میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے بلوچستان میں ٹریڈ یونین پر عائد کی جانے والی پابندی پر از خود نوٹس لیں اور اس غیر آئینی ا ور غیرقانونی پابندی کو فوری طور پر ختم کرائیں۔ بلوچستان میں ٹریڈ یونینز پر پابندی سے ملازمین اپنے حقوق سے محروم ہیں، معاشرہ غلامانہ دور کی طرف جا چکا ہے،افسر شاہی کا راج قائم ہو چکا ہے جو کسی بھی صورت میں معاشرے کیلئے سود مند نہیں،کسی بھی معامشرے کے فلاح و بہبود کیلئے ٹریڈ یونینز کا قیام ضروری ہے تاکہ چھوٹے ملازمین اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرسکیں۔

سوال:آپ ورکرز ویلفیئر بورڈ،ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

شاہ علی بگٹی:ورکرز ویلفیئر بورڈ،ای او بی آئی اورسوشل سیکورٹی کی کارکردگی کسی بھی حوالے سے تسلی بخش نہیں ہے ان ادروں میں کرپشن کا راج ہے۔ لیبر انسپکٹر اداروں میں انسپکشن کر کے ملازمین کی رجسٹریشن کرنے کے بجائے اپنی جیبیں بھر تے ہیں جس کے سبب ای او بی آئی میں مزدوروں کی رجسٹریشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک بھر کے فلاحی اداروں میں بھی مزدوروں کی رجسٹریشن آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ ان اداروں کے سربراہان ماہانہ رشوت کے عوض کارخانوں اور فیکٹری کے مالکان کے ساتھ ملکر رجسٹریشن کے عمل کو انتہائی پیچیدہ بنا کر مزدوروں کا استحصال کرتے ہیںاور یوں مزدوروں کی اکثریت بغیر کسی سوشل پروٹیکشن کے ملازمت کرنے پر مجبور ہے۔یہی حال ورکرز ویلفیئر بورڈ کا ہے کہ محنت کش میرج گرانٹ، بچوں کی اسکالرشپ اور ان کے لواحقین ڈیتھ گرانٹ کیلئے مارے مارے پھرتے ہیںان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، انہیں اپنے چیک لینے کیلئے کئی کئی سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔جو رشوت دے اس کاکام جلدی ہو جاتا ہے۔ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم سرکاری محکمے فیکٹری مالکان کے ساتھ ساز باز کرکے مزدوروں کا استحصال کررہے ہیں، لیبر ڈپارٹمنٹ مزدوروں کے حقوق کیلئے ان فیکٹریوں کا محاسبہ نہیں کرتا،اکثر مزدور تنظیمیں بھی صرف اپنے مفاد کو مدنظر رکھتی ہیں اور وہ مزدوروں کو حقوق کی آگاہی نہیں دیتیں، سرکاری سطح پر بھی اکثر مزدور تنظیمیں کاغذی ہوتی ہیں اور غیر ملکی این جی اوز کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں اور مزدورکی فلاح و بہبود کے نام پر حکومتی اداروں سے ملی بھگت کرکے فنڈز خوردبرد کرتی ہیں۔

سوال:لیبر کورٹس کی کارکردگی پر کیا تبصرہ کریں گے؟

شاہ علی بگٹی: لیبر کورٹس محنت کش طبقوں کے حق میں اس لیے فیصلے نہیں کرتیں کہ پاکستان میں انسان صرف چند ہزار افراد پر مشتمل اشرافیہ کو سمجھا جاتا ہے۔ مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کو ملکی نظام انسان ہی نہیں سمجھتا۔ لیبر کورٹس سے عدالت عظمیٰ تک غریب عوام کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (این آئی آر سی) جوکہ ملک گیر یونینز کے صنعتی تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک اہم ادارہ ہے۔اس ادارے کی عدم توجہی کے سبب بے شمار مقدمات التوا کا شکار رہتے ہیں۔ عام طور پر بینچ کی تعداد ہی پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے سنگل بینچ کے فیصلوں کے خلاف فل بینچ میں کئی اہم مقدمات کی اپیلیں پینڈنگ رہتی ہیں۔ این آئی آر سی میں ممبران کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں قائم کمیشن کے دفاتر میں اسلام آباد سے ہی ممبر جاکر مقدمات کی سماعت کرتا ہے۔ ان تمام مشکلات کی روشنی میں حکومت سے یہ استدعا ہے کہ این آئی آر سی اور دوسری لیبر کورٹس میں ججوں کی خالی نشستوں پرعملے کی تعداد فوری طور پر مکمل کی جائے۔

سوال: آپ کے نزدیک کن اقدامات سے پاکستان کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے؟

شاہ علی بگٹی:پاکستان میں موجود سات کروڑ سے زائد مزدور اپنے ووٹ کی طاقت سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے، محنت کش طبقہ بغیر کسی دباﺅمیں آئے، اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق مخلص، ایمانداراور دیانت دار قیادت اور نمائندوں کا انتخاب یقینی بنائے تو پاکستانی قوم جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ ووٹ کا صحیح استعمال ہر پاکستانی مرد و عورت پر فرض ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں اور خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا نوجوان نسل اور خواتین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتااگر پاکستان کی سول سوسائٹی کے نمائندے ملک کی نوجوان نسل اورخواتین سمیت محنت کش طبقے میں ووٹ کے صحیح استعمال کا شعور اُجاگر کرکے انہیں اپنی طاقت کا احساس دلائے تو ووٹ کی طاقت سے روایتی سیاستدانوں،جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔

سوال:گوادر پورٹ کو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا دروازہ قرار دیا جا رہا ہے،آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

شاہ علی بگٹی:بلوچستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ نعمتوں سے مالامال کیا ہے۔ بلوچستان کی خوبصورت اور دلکشی میں 750 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی مزید اضافہ کرتی ہے۔بلا شبہ گوادر پاکستان کی ترقی وخوشحالی کا گیٹ وے ہے ۔بلوچستان کی ساحلی پٹی گڈانی سے لے کر جیونی کے آخری کونے ایرانی بارڈر تک غریب ماہی گیرآباد ہیں۔ یہاں 90 فی صد افراد براہِ راست ماہی گیری سے منسلک ہیں۔بلوچستان کے ماہی گیروں کی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہو ئے ہیں جس سے سینکڑوں مزدور شہید ہو چکے ہیں اورفیڈریش اس بابت میں حکومت سے یہ مطالبہ کر تاآرہا ہے کہ جہاز کو تھوڑتے وقت مزدوروں کی جان کو حفاظت کی خاطر چھوٹے کشتیاں آس پاس میں رکھے جائیں تاکہ حادثے کی صورت میں ہنگامی بینادوں پر مزدوروں کو ان کشتوں کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکے ۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان