عام طور پر شہر یروشلم کو بھی بیت المقدس ہی کہا جاتا ہے۔ یہ ان شہروں میں سے ایک ہے جنہیں نوع انسانی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جس کا ذرہ ذرہ مقدس شہر ہے۔ اکثر انبیاء اسی شہر میں معبوث ہوئے۔ یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں متبرک ہے۔
آنحضرتؐ ہجرت کے بعد صحابہ کرام کو ساتھ لے کر 17 ماہ تک اسی کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ جب آپؐ معراج کیلئے گئے تو یہی مقام آپؐ کی پہلی منزل تھا۔ اسی مقام پر آنحضرتؐ نے سابق انبیاء علیہ السلام کی امامت کرائی۔ یہاں حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمانؑ اور کئی دوسرے انبیاء کے مقابر ہیں۔
حضرت داؤدؑ نے شہر مقدس پر 22 برس حکومت کی۔ اس تمام عرصے میں اسرائیلی فوجوں کو سکون بہت کم ملا۔ البتہ ان جنگوں کا نتیجہ بنی اسرائیل کے حق میں اس لئے بہت زیادہ مفید رہا کہ بنی اسرائیلی جو قبائلی عصبیت کا شکار تھے اور مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے، وہ ایک قوم بن گئے۔
حضرت داؤدؑ کی دلی خواہش تھی کہ وہ ایک معبد (ہیکل) بنائیں لیکن اسرائیلی روایت کے مطابق انہیں خواب میں بتایا گیا کہ اللہ کا مستقل گھر ان کے بیٹے کے عہد میں تعمیر ہوگا۔ چنانچہ حضرت سلیمانؑ نے تخت نشین ہونے کے بعد ۱۰۱۲ قبل مسیح میں اس معبد کی تعمیر شروع کرائی۔
یہ عمارت اس جگہ تعمیر ہوئی جسے حضرت داؤدؑ نے منتخب کیا تھا۔ اس عمارت کی تعمیر 7 برس تک مسلسل جاری رہی اور دو لاکھ افراد اس کی تعمیر میں مصروف رہے۔ بعد میں یہ عمارت ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور ہوئی۔
بائیبل یعنی انجیل کی تصریح کے مطابق ہیکل سلیمانی فن تعمیر کا ایک شاہکار تھا۔ جس کی لمبائی 90 فٹ، چوڑائی 30 اور اونچائی 45 فٹ تھی۔ اس کے اندر پاک ترین جگہ بنائی گئی، جہاں تابوت سکینہ رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پاک گھر کہلاتا ہے۔
حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی ریاست دو حصوں میں بٹ گئی۔ اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیلی فواحش، حرام کاری اور عیاشی میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے ایک اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا شروع کردی۔
رحبعام بن سلیمانؑ کو تخت پر بیٹھے 5 سال ہی ہوئے تھے کہ شاہ مصرسی شاق نے یروشلم کی طرف پیشقدمی کی اور بغیر مزاحمت کے شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ ہیکل سلیمانی اور عبادت گاہ کی تمام قیمتی چیزیں شاہی خزانوں کے ساتھ لوٹ کر لے گیا۔
حمز قیاہ نے (740 قبل میسح سے 700 قبل مسیح) کے اپنے دور میں ہیکل سلیمانی کی عظمت کو بحال کیا۔ یہود کی پہلی قومی تباہی و بربادی بخت نصر کے ہاتھوں 598 قبل مسیح میں ہوئی۔ اس تباہی میں نہ صرف ہیکل سلیمانی کا نام و نشان مٹ گیا بلکہ دیگر صحائف کے ساتھ ساتھ تورات بھی غائب ہوگئی۔ بخت نصر کے اس حملے کے بعد تابوت سکینہ ایسا غائب ہوا کہ آج تک اس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔
535ئ میں جب ایران کے پہلے کسیٰ نے بابل کو فتح کیا تو اس نے یہودیوں کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ جب یہودی یروشلم واپس آئے تو انہوں نے یشوع بن یوصدق اور زرد بابل بن سالتی ایل کی قیادت میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر دوبارہ شروع کردی۔ 516 قبل مسیح میں یہ تعمیر مکمل ہوئی۔
63 قبل مسیح میں رومی جنرل پومپیائی نے شہر کا محاصرہ کرکے ہیکل کو دوبارہ تباہ کردیا۔ لیکن ہیرود اعظم کے دور میں، جو رومی نادشاہ کے جاگزار کی حیثیت سے یہاں کا بادشاہ بنا۔ بیت المقدس نے دوبارہ سلیمانؑ کے عہد کی عظمت حاصل کرلی۔
اس بادشاہ نے ہیکل سلیمانی کو از سر نو عظمت بخشی۔ بقول کیپٹن وارن ہیرود کو وسیع کردہ ہیکل کا رقبہ تقریباً ایک ہزار مربع فٹ تھا اور شان و شوکت میں سلیمانؑ کے تعمیر کردہ ہیکل سے کسی طرح کم نہ تھا۔
71ء میں جب رومی بادشاہ طیطس شہر میں داخل ہوا اور رومی سپاہی یہودیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہیکل کے اندرونی صحن میں داخل ہوئے تو ایک یہودی نے جلتی ہوئی مشعل ہیکل کے اندر پھینک دی جس سے ہیکل میں آگ بھڑک اٹھی اور یہ جل کر راکھ ہوگیا۔ اس مرتبہ ہیکل کی تباہی خود یہودیوں کے ہاتھوں ہوئی۔
135ء میں جب دوبارہ معبد تیار ہوا تو رومیوں نے اسے گرا کر اس کی جگہ ہل چلا دیئے۔ 136ء میں رومی بادشاہ ہیڈرین نے اسے دوبارہ آباد کیا۔ اور شہر کا نام پہلے ایلیا اور پھر کیپی ٹولینا قرار دیا۔
اس بات کو فرنگی موّرخین اور ماہرین آثار قدیمہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہیرود کے تعمیر کردہ ہیکل تباہ ہوجانے کے بعد صدیوں تک اس جگہ پر ملبے اور غلاظت کے کے ڈھیر پڑے رہے۔ یہودیوں سے نفرت کی بنا پر تمام کوڑا کرکٹ اسی جگہ پھینکا جاتا ہے۔ (جاری ہے)