کراچی: بحریہ ٹائون کی انتظامیہ نے الگ ریاست قائم کرنے اور غیر قانونی تعمیرات میں تیز ی آگئی ہے۔ اپنا لے آؤٹ پلان، غیر قانونی الاٹمنٹ، غیر قانونی منصوبہ بندی، اپنا نقشہ جات کی تشکیل، خرید و فروخت کا اپنا قانون رائج کرلیا ہے۔
ہفتہ کے شام بحریہ ٹاؤن کے غیر قانونی آفس کے نزدیک ایک رہائشی و تجارتی منصوبہ کا بحریہ کے چیف ایگزیکٹو شاہد قریشی نے باقاعدہ افتتاح ان کے ہاتھوں سے کیا گیا۔ بحریہ ٹاؤن میں غیر قانونی رہائشی وتجارتی کا سرکاری رکاوٹ کے بغیر کراچی کے اکثریت بلڈرز اینڈ ڈیولپرز تعمیرات کا منصوبہ لارہے ہیں، جہاں نہ کسی ادارے نے لے آؤٹ پلان منظور کیا، نہ کسی ادارے نے نقشہ جات کی منظوری اور نہ کسی ادارے نے خریدو فروخت کی اجازت نامہ جاری کیا۔
اس ضمن میں بحریہ ٹاون کی انتظامیہ نے براہ راست زمینوں کی فروخت کے بجائے 70سے زائد پراپرٹی ڈیلرز کے ذریعہ خرید و فروخت بڑے پیمانے پر شروع کی ہوئی ہے۔ زمینوں کے الاٹمنٹ، لیز، سب لیز نہ ہونے کی وجہ اربوں روپے کا سرکار خزانہ کو نقصان پہنچایا جارہا ہے تو دوسری جانب الاٹیز کو دھوکہ دہی کے ذریعہ تمام نامکمل کاغذات دیکر لاکھوں اور کروڑوں روپے بٹورنے کا عمل بھی جاری ہے۔
بحریہ ٹاؤن نے زمین کا تنازعہ حل کئے بغیر غیر قانونی رہائشی و تجارتی منصوبہ کی تعمیرات اور پانچ مرلے کی زمین پر آٹھ دس منزلہ اور بیس منزلہ کے علاوہ بلند و بالا عمارتیں کی تعمیرات تیز ہوگیا ہے چھوٹے بڑے منصوبے منصوبہ کا اعلان کے بجائے اب پراپرٹی ڈیلرز کے ذریعہ عوام سے کروڑ روپے وصول کا عمل جاری ہے۔ دھوکہ فراڈ کے اس منصوبہ ایک طرف عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے، تو دوسری جانب بورڈ آف ریونیو، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ڈپٹی کمشنر ملیر سمیت دیگر اداروں نے بحریہ ٹاون کی غیر قانونی تعمیرات پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کسی ادارے کو جوابدہ نہیں اور تمام ادارے بھاری نذرانہ وصول کرکے کارروائی سے گریزاں ہیں۔ سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن میں سابق صد ر آصف زرداری کے شریک پارنٹر کی وجہ غیر قانونی بحریہ ٹاؤن کی اسکیم پر تمام ادارے خاموشی اور زبان گینگ ہوگئی اور عوام سے سرمایہ کاری کے نام پر لوٹ مار جاری ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نئے ڈائریکٹر جنرل شمس الدین سومرو کی تعیناتی کے باوجود سابق ڈائریکٹر جنرل منظور کاکاکی کرپشن کا سٹسم بدستور چل رہا ہے۔ تمام متعلقہ افسران کو بحریہ ٹاون کے خلاف کسی بھی کاروائی کرنے سے روک دیا گیا ہے کینیڈا سے منظور کاکا کا سٹسم اب بھی ادارے کو کنٹرول کررہے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے تما م ادارے نے قانون کے مطابق کاروائی کرنے سے اجتناب اور مجرمانہ سرگرمیاں میں ملوث قراردیا جارہا ہے اس بارے میں سپریم کورٹ نے غیرقانونی کاموں کی اجازت نہیں دی اور نہ کسی غیر قانونی عمل کا حصہ بننے کی اجازت دیا تھا۔
مصدق ذرایع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاون کی زمین کو ریگورلرائزیشن کا عمل نہ ہوسکا،سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018ء اور 16 اکتوبر 2018ء کے فیصلے پر بحریہ ٹاون کی زمین غیرقانونی آلاٹمنٹ منسوخ ، بحریہ ٹاون لے آوٹ پلان خارج، دیگر غیر قانونی کام منسوخ کردی گئی،اور 24 جنوری 2014ء کے آلاٹمنٹ ہونے والی زمین14,617 ایکٹر منسوخ اوراس حوالے ہونے والے حکمنامہ واپس لے لیا گیا تھا۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر ڈئزاین ندیم رشیدکا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاون کے کسی بھی منصوبہ کی ادارے سے این او سی نہیں لیا، نہ ہی درخواست جمع کرائی ہے نہ چالان، نہ بلڈنگ پلان کے نقشہ جات جمع کرائی ہے۔ اس بارے میں اتھارٹی کو آگاہ کردیا گیا ہے جیسے ہی حکم ملے گا۔
ایک دوسرے افسر کا نام ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے متعدد منصوبے کے سرمایہ کاری کی ان کا بھی این او سی نہیں لیا نہ ہی کوئی ہمارے پاس کوئی ان کا منصوبے زیر التواء ہے ، بحریہ ٹاون کے ساتھ سابق صدر آصٖف زرداری نام جوڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے افسران کارروائی سے گریز کررہے ہیں پہلے کارروائی کرنے والے افسران طویل عرصے عتاب میں رہے چکے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کیس بحریہ ٹاون منصوبوں کے آغاز سے پہلے اور بعد کے فیصلے کے بھی ایس بی سی اے نے اپنے ادارے کی جانب سے کھبی بھی زحمت گورا نہیں کیا، اس سلسلے میں بحریہ ٹاون کی طرف سے خلاف ورزی کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا بحریہ ٹاون کے ذریعہ خریدی کی گئی نجی اراضی جو 5 دیہہ یعنی پولہاری، لونگ جی، کنجرا، کلہار اور کھاکھرو کی حدود میں آتی اور 16,896 ایکڑ حصے پر مشتمل ہے۔ بورڈ آف ریوینو کے افسران کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے باوجود بحریہ ٹاون کی زمین ریگولرائزیشن نہ ہوسکا چونکہ بحریہ ٹاون کے خلاف فیصلے کے خلاف اپیل زیر التواء ہے جیسے اپیل کا فیصلے ہوگا زمین کی ریگولرائزیشن ہوگی۔
14 لاکھ سے ذائد بحریہ ٹاون کے الاٹیز ہیں بحریہ ٹاون کراچی میں خود لیز پر کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں سیلز ڈیڈ، سیل گفٹ ڈیڈ، اور جنرل پاور آف اٹاونی کے طریقہ کار سے چھوٹ اور کچھ وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں کی وصولی بھی نہیں کیا جارہا ہے جس میں کیپیٹلویلیو ٹیکس، گین ٹیکس ،عام سیلز ٹیکس شامل ہے انکم ٹیکس ایکٹ، پراپرٹی ایکٹ، رجسٹریشن ایکٹ اور ڈاج ٹکٹ ایکٹ کے تحت اسٹامپ ڈیوٹی وغیرو کا اطلاق ہوتا ہے۔