بھّیا نے غصے سے مجھے 'گاکی' کہا (غصے میں میرا نام، کیوں کہ میں اکثر ٹافی لینے کے لئے دکان پر گاہک بنا رہتا) اور ٹائر چھت کے اوپر پھینک دیا۔
گرمیوں کا موسم تھا، چھت پے پڑے ٹی آر کے اوپر ٹائر براجمان ہو گیا ۔ نقصان کیا ہونا تھا بس دو جگہ سے ٹائر کی کمر لچک گئی ۔ سو کوششیں کی پر ٹائر تھا کہ دو قدم بھی با مشکل چلتا اور معافی طلب کر لیتا ۔ پھر کیا! ُممتی نے اپنی دھاڑوں کے زور سے اتنا رولا ڈالا کہ چاچو کو مذاکرات کرنے پڑے ۔۔۔
طے یہ ہوا کہ چاچو چند مہینے بعد اپنے یاماہا موٹر سائیکل(اس وقت بستی میں بس اک ہی موٹر سائیکل تھا) کے ٹائر تبدیل کریں گے تو ایک ٹائر مجھے دیں گے ۔ ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ ،چاہے چاچو ڈیرے پے فیصلہ ہی کیوں نا کر رہے ہوں، مجھے اثتثنیٰ حاصل تھا کہ میں اتنے سارے لوگوں کے بیچ بھی اپنا قرض مانگنے سے گریز نہ کروں۔
خیر مہینوں انتظار کے بعد آخر خدا خدا کر کے وہ دن آ ہی گیا ۔ چاچو نے اپنے وعدے کے مطابق یا میری وقتاً فوقتاً گستاخیوں کے باعث مجھے ٹائر دے دیا ۔اتنی عمر پانے کے بعد بھی وہ خوشی نہیں مل پائی۔۔
گاؤں کی اولمپکس میں جو کہ اکثر و بیشتر منعقد ہوتی رہتی تھیں زیادہ تر بائی سائیکل کے ٹائر ہوتے تھے۔لولے لنگڑ ے یہ ٹائر ریس میں اکثر پیچھے رہ جاتے تھے ۔ کبھی کبھی تو کوئی بچہ ٹریکٹر کا اگلا ٹائر بھی لے آتا تھا۔اس کی دھونس تو خوب ہوتی تھی پر بھاگنے میں بہت نکما ثابت ھوتا تھا۔موٹر سائیکل کا ٹائر ان دنوں بس میرے پاس ہی تھا۔ رفتار اور معیار دونوں میں بہتر ۔میں سب سے امیر تھا ۔
ٹائروں کی ریس میں نے بس ایک دفع ہاری ۔غلطی یہ ہوئی کہ اس دن شلوار پہن کے ریس میں ُکود پڑا اور اپنی پوری رفتار سے نہ دوڑ پایا ۔
سردی کا موسم آن پہنچا ۔ ویڑاٹھی (کپاس کے پودے کی لکڑی) اکٹھی کر کے آگ کا الاؤ جلایا ہوا تھا۔بچوں کی پوری پارلیمان جمع تھی ۔ ُجگّی(اصل نام ریاض،میرا ہمسایہ) بھی اپنے ٹائر کے ہمراہ وہاں موجود تھا۔اس کا ٹائر ُکڑّھی (اکیلے آدمی کے مچھلیاں پکڑنے کیلیے گول شیپ کے جالے کا نام) سے نکالا گیا گول سریا تھا۔ اس نے جھٹ سے اپنا ٹائر آگ کے الاؤ میں سے گزار کر مجھے چیلنج کیا ۔ربّڑ سے بنا ٹائر میں کیوں بھلا آگ میں دھکیلتا؟ گاؤں کے بچوں نے میرے اوپر بہت ُهوت ہات کی، میں نے ُجگّی سے بدلہ لینے کی تو ٹھان لی ۔
اگلے ھی دن میں نے ُجگّی کو ٹائروں کے مقابلہ کیلئے چیلنج کر دیا ۔ عقّل (میرے مرحوم بھائی،اصل نام اختر) اور انکا دوست اٙگری (ہمسایہ،اصل نام اصغر) منصف ٹھہرے۔ ٹبّے پے موجود گھر کے پیچھے بہت بڑی ڈھلوان تھی۔ ڈھلوان کے آخر میں سڑک کے کنارے کھوہ تھا (کھوہ سے کبھی ماضی میں پانی بھی نکالا جاتا ہوگا)۔ ٹائروں کو ڈھلوان پر سے منصفین نے دھکیلنا تھا۔جو ٹائر جتنا دور جاتا وہ جیت جاتا۔میچ فکس تھا۔ ُجگّی کا ٹائر اٙگری کے پاس تھا ۔ایک دو تین کر کے ایک ساتھ دونوں ٹائر دھکیلے گئے۔پر ُجگّی کے ٹائر کا رخ جان بوجھ کر کھوہ کی طرف کر دیا گیا ۔ میرا ٹائر تو دور سڑک پے جا گرا ۔ ُجگّی کے ٹائر نے اپنی موت سے پہلے کھو ہ میں ہلکی سی چھپا ک کی آواز پیدا کی اور ہمیشہ کیلیے سو گیا ۔اس کے بعد کئی عرصہ تک میری بادشاہت قائم و دائم رہی ۔۔۔۔
(ممتاز سعید)