برطانیہ میں مسلمان والدین پرائمری اور سیکنڈی کلاسوں میں جنسی تعلیم کو لازم قرار دیئے جانے پر شدید فکر مند ہیں۔ برطانوی حکومت نے گزشتہ برس اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن لاگو کرنے کیلئے قانون سازی کی تھی، جس کے تحت ستمبر 2020 تک تمام برطانوی تعلیمی ادارے 4 سے 16 برس کے بچوں کو جنسی تعلیم دینا شروع کر دیں گے۔
برطانوی حکومت کے اس اقدام کے بعد پرائمری اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن اور سیکنڈی اسکولوں میں رلیشن شپ اینڈ سیکس ایجوکیشن (RSE) کی تعلیم دی جائے گی، جس کیخلاف مسلم والدین نے بھرپور انداز میں آواز اٹھائی ہے۔ ’’واضح رہے‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حال ہی میں برمنگھم میں مسلمان والدین نے جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ شرکا کا کہنا تھا کہ اس طرح کے موضوعات اسکول میں نہیں پڑھانے چاہئیں۔
مظاہرے میں شریک والدین نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ آر ایس ای میں کس نوعیت کے ایشوز کور کئے جائیں گے اور ان میں طلبا کو کیا سکھایا جائے گا۔ اپنے بچوں کے حوالے سے فکر مند والدین کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے دین کی رو سے بچوں کی تربیت کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے ایک پٹیشن کو بھی بڑی پذیرائی ملی ہے کہ وہ برطانوی درس گاہیں جہاں سیکس ایجوکیشن دی جائے گی، وہاں سے والدین اپنے بچوں کو اٹھالیں۔ اس پٹیشن پر اب تک سوا لاکھ کے قریب والدین نے دستخط کئے ہیں۔
واضح رہے کہ والدین کے پاس یہ حق محفوظ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جنسی موضوع کی کلاسوں میں بیٹھنے کی اجازت نہ دیں، لیکن والدین اس بات پر بھی راضی نہیں ہیں کہ ان کے بچوں اُن بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں جنہیں سیکس ایجوکیشن دی جا رہی ہوگی اور اس طرح ان کے بچوں پر برے اثرات پڑیں گے۔
دوسری جانب خدشہ ہے کہ برطانیہ میں سیکس ایجوکیشن کا ناسور پاکستان کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے، کیونکہ ملک میں کئی بڑے اسکول اور کیمپسز مغربی ممالک کے ساتھ الحاق شدہ ہیں اور یہ کہ وہ اسی طرز کے نصاب تعلیم کی پیروی کرتے ہیں۔