تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

آزادی کے 76سال ہم نے کیا کھویا کیا پایا

azadi ke 76 saal humne kya khoya kya paya
  • محمد قیصر چوہان
  • اگست 13, 2023
  • 10:52 صبح

دو قومی نظریے کے تحت 1947ءمیں قائم ہونے والا ملک اپنے مقصد حیات کے تقدس کو بھی پامال ہونے سے نہ بچا سکا اور یہی وہ کشمکش ہے جو آج ہماری قومی سلامتی کا سنگین مسئلہ ہے۔

قائداعظمؒ محمد علی جناح کی قیادت میں لاکھوں افراد کی قربانیوں، برصغیر کی بڑی ہجرت اور عصمتیں لٹنے کے ہوش رباخونیں واقعات کے بعد بالآخر 14اگست 1947 کے دن پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور یہ آزاد خودمختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے دیا جس کا مقصد ایک ایسا وطن قائم کرنا تھا جو آزاد ہو اور جہاں پر اسلامی قدروں کے مطابق مسلمان اپنی زندگی گزار سکیں۔۔ پاکستان کو حاصل کرنے کے بعد اسے اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔ جب اس وطن کو اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پاک وطن اور پاک سرزمین ہے بالکل اس طرح جس طرح مسجد کا صحن ہو، جہاں پر لڑائی جھگڑا نہیں ہو سکتا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا ”اسلام اور اس کی بلند نظری نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اسلام نے ہمیں مساوات اور ہر شخص سے انصاف اور رواداری کا حکم دیا “مگر ہم نے قائداعظمؒ کے فرمان پر توجہ نہ دی اور آئین شکنی کی راہ اختیار کئے رکھی۔ تعلیمی نظام کو غارت گری سے نہیں بچا سکے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی روایت ہمارا وتیراہ بن گئی، ہماری سماجی و معاشرتی اور معاشی ناہمواریاں طبقاتی تقسیم کے ساتھ موجود ہیں۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی نے امن عامہ کو تباہ کر دیا ہے۔ 1956 تک ملک کو بے آئین رکھا گیا اور 1956 میں بننے والا آئین 1958 میں ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے ہاتھوں ختم ہوا۔ ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان کے دور میں ملک دولخت ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کا آئین دیا جس میں جنرل ضیاءالحق نے ترامیم کا آغاز کیا۔جنرل ضیاءالحق کی پالیسیوں کے باعث ملک آج دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کے ہاتھوں اس دارفانی سے رخصت ہوچکی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے 10 سالہ اقتدار میں بھی آئینی ترامیم کی گئی انہوں نے بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے آئین شکنی کا ارتکاب کیا۔ ملک کی اس مختصر تاریخ میں حکمرانوں نے ملکی معیشت اور اقتصادی ترقی کے ضمن میں ایسے اقدامات نہیں کیے جن کے دور نتائج برآمد ہوتے اور آج جن بحرانوں کا سامنا ہے ان کی نوبت نہ آتی ،قائداعظم نے جس جمہوری ملک کا خواب دیکھا تھا وہ آج بھی ادھورا ہے آمریت نے وطن عزیز کو جمہوریت کی منزل سے دور کیا۔ ملک کی سیاسی جماعتیں بھی وہ کردار ادا نہ کر سکیں جس کی ہدایت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے دی تھی قائداعظم نے جاگیرداری نظام کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا تھا مگر کسی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

دو قومی نظریے کے تحت 1947ءمیں قائم ہونے والا ملک اپنے مقصد حیات کے تقدس کو بھی پامال ہونے سے نہ بچا سکا اور یہی وہ کشمکش ہے جو آج ہماری قومی سلامتی کا سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے ۔ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ایک خطرناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کااختیاردیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصول ہیں۔یہی ہمارا نظریہ حیات ہے جس کی تشریخ 1973کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے۔”پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا جس کی بنیادقرآن و سنہ کے اصولوں پرقائم ہو گی“۔لیکن بدقسمتی سے ہم نے قرآن و سنہ کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔نہ ماضی کی کسی حکومت کونہ موجودہ حکومت کو اور نہ ہی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے کسی کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتا۔ہم اپنے بچوں کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنت کے اصولوں سے یکسر عاری ہے ،ہماری سیاسی و نظریاتی تفریق کاسبب ہمارا برسر اقتدار طبقہ ہے ،جس نے ہمارے معاشرے کولبرل ،سیکولر،روشن خیال اور قوم پرست گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مذہبی طبقات نظراندازا ہونے کے سبب نمایاں سیاسی مقام نہیں رکھتےاور نہ ہی حکمرانی سے متعلق معاملات یا پالیسی سازی کے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل ہے وہ تو بذات خود زیادتی کا شکار ہیں اور ہمارے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے۔

ہماری دینی جماعتیں اپنی ظاہری اور باطنی کاوشوں کے باوجود جن کا پرچار میڈیا پر دن رات ہوتا ہے ،پاکستانی قوم کے رخ کودرست سمت میں رکھنے میں ناکام ہیں۔ہمارے قومی نظریہ حیات کے دونوں عناصر کے مابین توازن پیدا کرنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ یعنی جمہوریت ہمارا نظام حکمرانی ہوگا اور قرآن و سنت اس نظام کو نظریاتی تحفظ فراہم کرے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار’ جنہوں نے” اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی قسم کے مطابق آئین کے تحفظ اوردفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے “وہ قومی نظریہ حیات کے تقدس کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیںلہٰذاموجودہ ابتر صورت حال کے تدارک کی ذمہ داری جہاں ارباب اختیار پر عائد ہوتی ہے وہاں سیاسی اور دینی جماعتوں کی بھی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ لبرل اور سیکولر عناصر ملکی معاملات سے مذہب کو الگ کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی دانست میں” انسانی بقا کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات کی بجائے ترقی پسندانہ نظام ہے جو شخصی خودمختاری کا قائل ہے اولیت اللہ تعالی کی ذات کونہیںبلکہ انسان کو حاصل ہے“۔نعوذ باللہ۔ آج ہم اس مقام پر ہیںکہ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اپنی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارا نظریہ حیات کمزور ہو چکا ہے اور جب نظریہ حیات کمزور ہو جائے تو قوم باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔آج جو سیاسی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے وہ ہم سب کے لیے اور خصوصا ہمارے قائدین کے لیے لمحہ فکریہ ہے ،ایک جانب عدلیہ اور ملکی سلامتی کے محافظ اداروں پر تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب انسانیت و اخلاقیات کے تمام تر تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی بھونڈے طریقوں سے ایک دوسرے کی کردار کشی کی جارہی ہے ۔عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہے اور یہی اس کے ثمرات ہیں؟۔

چودہ اگست 2023ءاسلامی جمہوریہ پاکستان کا 76 واں یوم آزادی ہے۔پاکستان کا معرض وجود میں آنا کوئی اچانک یا اتفاقی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے اسباب و علل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔14 اگست کا دن دو قومی نظریے کا حاصل ہے کہ برصغیر میں رہنے والے مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں تھیں اور ہیں، یہ تقسیم کل بھی تھی اور آج ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک دیکھ کر قائد اعظم ؒکی دور اندیشی پر یقین اور بڑھ جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی حب الوطنی ثابت کرتے کرتے تھک گئے لیکن انہیں انتہا پسند ہندو ریاست قبول کرنے کو تیار نہیں، ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 20فی صد سے زائد اور تقریباً 25 کروڑ کے قریب ہے۔ لیکن وہ تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے سب سے پیچھے ہیں اور ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے عنوان سے حاصل ہونے والی مقدس سرزمین کی بد قسمتی اور بدنصیبی یہ رہی کہ یہاں سے انگریز تو چلے گئے لیکن کالے انگریز بڑی تعدداد میں بنا کر چھوڑ گئے اور ان کی نسل آج بھی اسی طرح ان کی وفادار ہے جس طرح ان کے غلام آباواجداد تھے، یہ طبقہ آج بھی انگریز کی ذہنی اور عملی غلامی سے نہیں نکل سکا ہے، ان میں سے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو قوم سے غداری اور انگریز سے وفاداری کے عوض لی گئیں جاگیریں اور انعامات کا حق ادا کررہی ہیں اور ان ہی کی بڑی تعداد ہماری سیاست، صحافت اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج بھی یہ بحث چھیڑتے رہتے ہیں کہ پاکستان دو قومی نظریہ اور اسلام کی بنیاد پر بنا تھا یا معاشی وسماجی بنیادوں پر بنا تھا، یہ باتیں صرف اور صرف نئی نسل اور قوم کوگمراہ کرنے، اپنی منزل سے دور کرنے اور قیام پاکستان کے بلند مقاصد کو پس پش ڈالنے کے کھیل کا حصہ ہیں ہماری بد قسمتی یہ بھی ہے کہ یہی طبقہ 76سال سے برسر اقتدار ہے، جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم قیام پاکستان کے مقصد کے حوالے سے بالکل صاف اور کھرا موقف رکھتے تھے.

اسی لیے مارچ 1940ءمیں لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ: ”ہندو اور مسلم دو الگ مذہبی فلسفوں، سماجی روایات اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں، یہ دونوں دو مختلف تہذیبوں کے نمائندے ہیں اور ان کے خیالات اور رسوم ہمیشہ متصادم ہی رہیں گی“۔ اس طرح آپ نے فرمایا تھا کہ ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے۔ نہ وطن ہے‘ نہ نسل ہے۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ قائد اعظم کیا کمال کے قائد اور دور تک دیکھنے والے رہنماءتھے وہ اس وقت کے بدلتے سیاسی حالات اور جبر میں اپنے اصولی موقف پر شروع دن سے کوئی دو رائے نہیں رکھتے تھے، آپ کے الفاظ تھے ”ہم کوئی ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس کی رو سے ایک غیر مسلم اکثریت محض تعداد کی بناءپر ہم مسلمانوں پر حکومت کرے اور ہمیں اپنا مال بردار بنا لے“۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال پہلے قرآن مجید نے وضا حت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔ (جالندھر میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب‘ 12جون 1947ء) یہ باتیں قائد اعظم نے تحریک پاکستان کی جدوجہد کے دوران کوئی جذباتی طور پر نہیں کہہ دی تھیں بلکہ پاکستان کی بنیاد اور خیال اسلامی نظریہ حیات کے تصور کے ساتھ تاریخی طور پر موجود تھا ۔

پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل تھا۔ دو قومی نظریہ اسلام ہے، اور اسلام کلمہ طیبہ پہ کھڑا ہے۔ کلمہ طیبہ اسلام کا اجمال ہے، اور باقی جو کچھ ہے اس اجمال کی تفصیل ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ انسانیت کی تاریخ میں کلمہ طیبہ سے زیادہ انقلابی اور آزادی بخش کلمے کا تصور محال ہے۔ کلمہ طیبہ کا پہلا جزو لا الٰہ ہے۔ اس کے ذریعے اسلام نے دنیا کے تمام جھوٹے خداﺅں کا انکار کردیا ہے۔ انسان طاقت کے بت کو پوجتا ہے، دولت کے بت کی پرستش کرتا ہے، اَنا کے بت کے آگے سر جھکاتا ہے، زمین اور جغرافیے کے بت کو پوجتا ہے، رنگ اور نسل کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے، خواہشات کے بتوں کے آگے سرنگوں ہوتا ہے۔ لاالٰہ ان تمام بتوں کو ایک ہلّے میں منہدم کردیتا ہے۔جب انسان تمام جھوٹے خداﺅں کا انکار کرچکتا ہے تو وہ پھر الا اللہ کہنے کا حق ادا کرتا ہے۔ لا الٰہ کا حق ادا کیے بغیر الا اللہ کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ لیکن کلمہ طیبہ کا دوسرا جزو محمدالرسول اللہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سچے خدا پر ایمان لانے کے بعد انسان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرنی ہوگی۔ اس اعتبار سے کلمہ طیبہ خدا مرکز اور رسول مرکز زندگی کا اعلان ہے۔ ان باتوں کا زیر بحث موضوع سے یہ تعلق ہے کہ پاکستان ایک انقلاب آفریں قوت کا پیدا کردہ ملک تھا اور اسے دنیا میں انسانی آزادی کا حقیقی مظہر بن کر ابھرنا تھا۔بہت سے لوگ پاکستان کو سیاسی آزادی کی علامت سمجھتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ پاکستان روحانی آزادی کا مظہر ہے، اخلاقی آزادی کا مظہر ہے، تہذیبی آزادی کا مظہر ہے، تاریخی آزادی کا مظہر ہے، سیاسی آزادی کا مظہر ہے، معاشی آزادی کا مظہر ہے۔ اسلامی تناظر میں آزادی اتنا اہم تصور ہے کہ جو فرد آزاد نہیں وہ گویا موجود ہی نہیں۔ یہ بات فرد کے بارے میں درست ہے تو ریاست کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ درست ہوگی۔ اقبالؒ کو ”مصورِ پاکستان“ کہا جاتا ہے، اور اقبالؒ نے آزادی کی شان میں جو ترانے لکھے ہیں اور غلامی کی جو مذمت کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

قائداعظمؒ اسلام اور آزادی کے باہمی تعلق کو بہ خوبی سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں پاکستان صرف ”سیاسی وجود“ نہیں تھا، بلکہ وہ ابتدا ہی سے اس کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھ اور بیان کررہے تھے۔ قائداعظمؒ کے افکار اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔ قائداعظمؒ نے ایک بار فرمایا تھا:”وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ا ±ن کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب، ایک امت۔“ (اجلاس مسلم لیگ۔ کراچی 1943ئ)۔ایک اور مقام پر قائداعظم نے فرمایا: ”قومیت کی تعریف چاہے جیسے کی جائے، مسلمان اس تعریف کی ر ±و سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی اپنی مملکت اور اپنی جداگانہ خودمختار ریاست ہو۔ ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، تمدنی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشوونما بخشے، اور اس کام کے لیے وہ طریقِ عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو۔“ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور 23 مارچ 1940ئ)۔ قائداعظم کے ان افکار سے ظاہر ہے کہ وہ پاکستان کے ذریعے مسلمانوں کو صرف سیاسی طور پر آزاد نہیں دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ وہ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی آزادی کے بھی خواہاں تھے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی آزادی کے 76 سال بعد کتنا آزاد ہے؟بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بہت افسوس ناک اور المناک ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان میں اسلام کو کبھی غالب نہ ہونے دیا۔1973ءمیں ملک کو ایک اسلامی آئین فراہم ہوگیا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ اسلام کو آئین سے نکلنے ہی نہیں دیتے۔ چنانچہ نہ ہماری سیاست اسلامی ہے، نہ ہماری حکومت اسلامی ہے، نہ ہماری معیشت اسلامی ہے، نہ ہمارا عدالتی نظام اسلامی ہے، نہ ہمارا تعلیمی نظام اسلامی ہے، نہ ہماری معیشت اسلامی خطوط پر استوار ہے۔ کہنے کو ہم ایک اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ ہیں مگر معاشرے اور ریاست پر ”نفسِ امارّہ“ کا غلبہ ہے۔ نفسِ مطمئنہ کا دیدار کہیں اور کیا مذہبی طبقات تک میں نہیں ہوتا۔ معاشرے میں 99 فیصد لوگ نہ ”خدا مرکز“ زندگی بسر کررہے ہیں، نہ ”رسول مرکز“ حیات بسر کررہے ہیں۔

قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور سلطنت برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر پاکستان حاصل کیا تھا، مگر قائداعظم کے انتقال کے چند برس بعد ہی پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو امریکہ کا غلام بناکر کھڑا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔پاکستانی معیشت پر امریکہ کی گرفت کا یہ عالم ہے کہ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے، ہمارے محصولات کا پورا نظام آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں ہے، یہاں تک کہ پیٹرول کے نرخ بھی آئی ایم ایف کی ہدایت پر بڑھائے جاتے ہیں۔ یہ منظر نامہ مکمل طور پر امریکہ کی غلامی کا منظرنامہ ہے۔پاکستان بنانے میں جرنیلوں کا کوئی کردار ہی نہیں تھا، نہ ہی پاکستان جرنیلوں کی بیویوں کو جہیز میں ملا تھا، مگر جرنیل طاقت کے بل پر پاکستان کے مالک بن کر بیٹھ گئے۔ چنانچہ پاکستان صرف امریکہ کا غلام نہیں ہے بلکہ پاکستانی جرنیلوں کا بھی غلام ہے۔جرنیل ہماری سیاست کو کنٹرول کررہے ہیں، جرنیل ہمارے انتخابات کو کنٹرول کرتے ہیں، جرنیل سیاسی جماعتوں کو قابو میں کیے ہوئے ہیں، جرنیلوں کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جرنیل پاکستان کا مقامی استعمار بنے ہوئے ہیں۔ سیاست دان جرنیلوں کی فیکٹری میں ڈھالے جاتے ہیں، صحافی جرنیلوں کے پروردہ ہیں۔دیکھا جائے تو یہ ہماری داخلی غلامی کا ایک شرم ناک منظر ہے۔ داخلی غلامی کا یہ منظر 1971ءمیں آدھا ملک نگل گیا۔عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو ہم مغربی تہذیب کے غلام بنے ہوئے ہیں، ہمارا سیاسی نظام مغربی ہے، ہمارا معاشی ماڈل مغربی ہے، ہمارا تعلیمی بندوبست مغربی ہے، ہمارا عدالتی نظام مغرب کی نقل ہے، ہم مغرب کی تفریح پر گزارا کر رہے ہیں، ہم مغرب کی غذائیںاستعمال کر رہے ہیں، مغرب کا لباس بروئے کار لا رہے ہیں، یہاں تک کہ ہماری خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں اور ہمارے خواب بھی مغرب سے آرہے ہیں۔ مغرب دولت کی پرستش میں مبتلا ہے، اور کون ہے جو ہمارے معاشرے میں دولت کو نہیں پوج رہا؟ اسلام کہتا ہے: فضیلت صرف ا ±س کی ہے جس کے پاس تقویٰ یا علم ہو۔ لیکن ہمارے معاشرے میں تقویٰ اور علم کی کوئی حیثیت، کوئی اوقات اور بساط ہی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں محترم اور عزت والا صرف وہ ہے جس کے پاس یا تو دولت ہے یا طاقت۔ پاکستان کے نظریے اور نصب العین کے اعتبار سے پاکستان کو دنیا کا آزاد ترین ملک اور ہمارے معاشرے کو دنیا کا آزاد ترین معاشرہ ہونا چاہیے تھا، مگر ہم بحیثیت ایک ریاست اور بحیثیت ایک معاشرے کے، سیکڑوں قسم کی غلامیوں میں مبتلا ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے یہاں آزادی ایک نعرے اور ایک خواب کے سوا کچھ نہیں۔

آزادی یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا احساس قدرت نے انسانوں ہی نہیں حیوانوں میں بھی ودیعت کیا ہے چنانچہ آزادی کی اس نعمت کا شکر پاکستان میں بسنے والے ہم 24کروڑ انسانوں پر واجب ہے، یوم آزادی پر جشن منانا بھی زندہ دل پاکستانیوں کا حق ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہو گئے ہیں، جن مقاصد کے حصول کی خاطر ہم نے تحریک آزادی برپا کی تھی، لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی۔اپنی، ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں اور عصمتوں کو پامال ہوتے دیکھا تھا۔اپنا سب کچھ، گھر بار، مال و متاع اور عزیز و اقارب چھوڑ کر اس پاک خطے کی جانب ہمارے آباءو اجداد نے ہجرت کی تھی کہ ہم اس خطے کو مکمل آزاد فضا میں اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے اور قرآن و سنت کی رہنمائی میں اسے دنیا بھر کے سامنے ایک مثالی اسلامی اور فلاحی ریاست کے نمونہ کی حیثیت سے پیش کریں گے، کیا ہم یہ مقاصد حاصل کر سکے ہیں؟ کیا یہ مملکت واقعی اسلامی و فلاحی مملکت کا نمونہ بن سکی ہے؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔گزشتہ 76 برس میں ہم نے اس مملکت خداداد میں سرمایہ دارانہ جمہوریت، سوشلزم اور سول و فوجی آمریت سمیت ہر طرح کے تجربات کئے ہیں لیکن اسلام، قرآن و سنت یا شریعت کو نظام حکومت کے قریب نہیں پھٹکنے دیا یہاں کے سلیم الفطرت اور نیک نہاد لوگوں کی انتھک اور ہمہ پہلو جدوجہد کے نتیجے میں ہماری مجالس قانون ساز نے ”قرار داد مقاصد“ تو منظور کر لی اور پھر نفاذ اسلام کے تقاضوں سے بڑی حد تک ہم آہنگ آئین بھی قوم کو نصیب ہو گیا مگر یہاں عملاً اقتدار پر قابض سرمایا دار و جاگیردار سیاست دانوں اور با اختیار سول و فوجی بیورو کریسی کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں نہ تو کبھی عوام کے حقیقی اور مخلص خدمت گاروں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے دیا گیا اور نہ ہی شریعت کی روشنی میں قانون سازی کے تقاضوں پر توجہ دی گئی۔نتیجہ یہ ہے کہ آج76 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں انگریز کے مسلط کردہ قوانین رائج ہیں، یہاں کی معاشی اور معاشرتی پالیسیاں عالمی سامراج کے تابع فرمان بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور عالمی بنک تیار کرتے اور جبراً ان پر عمل کرواتے ہیں کیونکہ ہم سر سے پاﺅں تک ان کے سودی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں جن کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام بھی ہمارے بیرونی آقاﺅں ہی کا تیار کردہ ہے یہاں تک کہ اب یکساں نصاب تعلیم کے نام پر جو کچھ ہماری آئندہ نسلوں کو پڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا ہمارے قومی اور ملی تقاضوں اور دین و شریعت سے دور کا بھی تعلق نہیں، نصاب اور نظام تعلیم کے ذریعے ہمیں انگریز کے بعد انگریزی کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے حالانکہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے فوری بعد دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کی قومی اور دفتری زبان اردو ہو گی مگر ان کا ارشاد ہنوز تشنئہ تکمیل ہے آج سے تقریباً آٹھ برس قبل ملک کی اعلیٰ ترین فاضل عدالت نے بھی واضح فیصلہ سنایا تھا کہ پاکستان کے آئین کی رو سے یہاں کی قومی و دفتری زبان اردو ہے عدالت عظمیٰ نے تمام سرکاری اداروں کو پابند کیا تھا کہ تین ماہ کے اندر ہر طرح کی خط و کتابت اور سرکاری مراسلت میں لازماً اردو کو رائج کیا جائے مگر اس فیصلے کو چھ برس گزر چکے ہیں لیکن پاکستانی قوم سرکاری اور نیم سرکاری بلکہ نجی زندگی تک میں انگریزی کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکی بانی پاکستان کے واضح حکم اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کی مسلسل خلاف ورزی جاری ہے اور تمام چھوٹے بڑے ادارے ”توہین عدالت“ کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر انگریزی کی غلامی کی زنجیریں توڑنے پر آمادہ نہیں، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ خود عدالت عظمیٰ اور اس کی ذیلی عدالتیں بھی تاحال اپنی کارروائی اور فیصلے انگریزی میں تحریر کر رہی ہیں۔ اس صورت حال میں توہین عدالت کی کارروائی کس کے خلاف اور کون کرے گا؟

ذرا آگے بڑھئے تو یہ منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہماری مسلح افواج کا نصب العین تو تحریک نظام مصطفی کے دباﺅ اور جنرل محمد ضیاءالحق شہید کی مہربانی سے ”جہاد فی سبیل اللہ“ قرار پا گیا تھا مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے ارباب اختیار کی کوتاہ فہمی کے سبب آج بھی ہماری مسلح افواج کی تعلیم و تربیت کے لیے رائج نظام ماضی کے غاصب حکمران انگریز بہادر کا مسلط کردہ ہے اور ہم ابھی تک انہیں کی روایات کو ایک مقدس امانت کے طور پر سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ آج بھی ہماری فوج کی ہر رجمنٹ اپنی نسبت اور تعلق خالد بن ولید، محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان یا دیگر مسلمان سپہ سالاروں اور مجاہدوں سے استوار کرنے کی بجائے اپنی اپنی رجمنٹ کے بانی انگریز کمانڈروں سے جوڑتی ہیں، انہی کی تاریخ، روایات اور کارنامے ہمارے مسلمان سپاہیوں اور افسروں کو پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں اور انہی سے تعلق پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ”جذبہ جہاد“ ان میں پروان چڑھتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا، مشکل نہیں۔ پورے ملک میں جس طرح شراب، سود اور جوا جیسے حرام کاموں کا ارتکاب کھلے بندوں جاری ہے اور ہمارے ورقی و برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ صبح شام جس جانب قوم کی نئی نسل کو دھکیل رہے ہیں، اور جو کچھ اپنے قارئین، ناظرین اور سامعین کو دکھا، سکھا اور پڑھا رہے ہیں اس کے بعد معاشرے میں اگر بدکاری، چوری چکاری، ڈاکے، قتل و غارت جھوٹ، فریب، بدعنوانی، رشوت ستانی، عریانی اور بے حیائی کا دور دورہ ہے۔

ہم اپنی آزادی کے 76تاریخ کا جائزہ لیں تو جو سب سے بڑی اور ٹھوس حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے یہ ہے کہ ہم پاکستان کو ان خوابوں کی تعبیر نہیں بنا سکے جو برصغیر میں مسلمانان ہند نے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کرتے ہوئے اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔ ہمارے آباﺅ اجداد نے آزاد وطن کے قیام کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں اور پھر قیام پاکستان کے بعد ہجرت کے عذاب ناک لمحات سے بھی انہیں گزرنا پڑا اور وہ اس امتحان پر پورے اترے۔ ہمارے آباﺅ اجداد نے لاکھوں لازوال قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کر لیا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بعد کسی نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی یا شاید ہم غفلت کی نیند سو گئے کیونکہ ہم اپنے پاکستان کو ترقی کی اس معراج اور اقوام عالم میں اس حد تک سر بلند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کا ہمارے بڑوں نے ہدف مقرر کیا تھا۔ ہم میں بہت سی خرابیاں در آئیں ہم نے اجتماعی پر انفرادی مفادات کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ رشوت، کرپشن اور اقرباءپروری نے میرٹ اور عدل کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور غلط پالیسیاں کی وجہ سے ہم نہ صرف اپنے ایک بازو سے محروم ہو گئے بلکہ اپنی آزادی کے نصف سے زیادہ عرصہ ہم نے آمریت کے سائے میں گزارا جب آئین کا حلیہ بگاڑا جاتا رہا اور لوگوں کے حقوق غضب کئے جاتے رہے ہم نے روکھی سوکھی کھا کر آزادی سے جینے کی بجائے غیر ملکی قرضوں پر تکیہ کئے رکھا جس کی وجہ سے نہ صرف ہمارے ملک کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی بلکہ ہمارا بال بال قرضے میں جکڑا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہم ان قرضوں پر بھاری سود ادا کر رہے ہیں اور قرض دہندگان کے بہت سے احکامات ماننے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ان قرضوں کے بل پر ہم نے خاطر خواہ ترقی کر لی ہوتی تو کوئی بات نہیںتھی لیکن اس کے برعکس ہم اس وقت بھی اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ اور عالمی اقتصادی اداروں سے قرضے حاصل کر کے گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ سماجی سطح پر بات کی جائے تو لوگوں کو ضروریات زندگی تک میسر نہیں ہیں مراعات اور ریلیف تو بڑی دور کی بات، مہنگائی محض اس وجہ سے بڑھ رہی ہے کہ حکومت اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور صرف اپنے سیاسی کھیل میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب بے روزگاری اور غربت کا لیول مسلسل اونچا ہو رہا ہے۔ اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونے والوں کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے حالات کو مناسب انداز میں نہ سنبھالنے اور مناسب پالیسیاں اختیار نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک دہشت گردی، انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کے نرغے میں آچکا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس خے آخری رسول حضرت محمد کے پیغام کو بھلادیا، قائد کے فرمودات کو پس پشت ڈال دیا اور اب یہ صورتحال ہے کہ دشمن ہمارا گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ فرقہ پرستی و قوم پرستی کو ابھار رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہیں، ہماری شہہ رگ کشمیر ابھی تک دشمن کے پنجہ استبداد میں ہے اور ہمارا حکمران طبقہ عیاشیوں میں مست ہیں، ہمارا نوجوان انڈین گانوں اور فلموں کے سحر میں مبتلا ہے اور سوشل مےڈےامیں الجھا ہوا ہے۔ ارباب اختیار محض اپنے اقتدار کو طول دینے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔بے گناہ انسانوں کاخون بہایا جارہا ہے لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں ہے ۔خوف و ہراس ہے اور ہر طرف ایک مایوسی کا عالم ہے۔ اس کی بنےادی وجہ قائداعظم کی وفات کے بعد ہم مجموعی طور پر قول و فعل کے تضاد کا شکار ہوگئے ہیں، آزادی کی روح کو فراموش کربیٹھے ہیں جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے مگر ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یوم آزادی کا سبق اور پیغام یہ ہے کہ نوجوان قائداعظم کی اساسی تعلیمات اور آزادی کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کی جدوجہد کا آغاز کریں اور سیرت رسول کے خلاف چلنے والوں اور قائداعظم کے ذہنی اور فکری مخالف عناصر کا بے دریغ اور بلاامتیاز کا قلع قمع کرکے آزادی کی روح کو بازیاب کرائیں۔ انقلابی عوامی جدوجہد کے بغیر پاکستان کو غاصبوں اور ظالموں کے قبضے سے نجات دلانہ ممکن نہ ہوگا۔جب تک آزادی کی روح بحال نہ ہوجائے ہم اپنے مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

تم جسم کے خوش رنگ لباسوں پہ ہو نازاں
میں روح کو محتاج کفن دیکھ رہا ہوں

ملک کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھ کر غور کیا جائے تو یہی حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اگر ہم نے اقوام عالم میں سر بلند ہو کر زندگی بسر کرنی ہے اگر ہم نے ترقی کے میدان میں دیگر اقوام عالم کے شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہے اگر ہم نے دوسروں کا پیروں کار بننے کے بجائے عالمی برادری کا لیڈر اور رہنما بننا ہے تو ہمیں اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پانا ہو گا، امریکا اور آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق اتار پھینکنے کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ اور انتھک محنت اور ایمانداری کو بنیاد بنا کر ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جو ماضی کے تمام داغ دھو ڈالے اور ہم پاکستان کو اس کا اصل مقام دلانے میں کامیاب ہو جائیں۔ جس کی 24کروڑ سے زائدعوام توقع کر رہے ہیں۔ پوری قوم کو یوم آزادی والے دن یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور محنت، لگن، دیانت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ 76ویں یوم آزادی کے موقع پر اس امر کا عہد کرنا ہو گا کہ ہم نئی نسل کو حب الوطنی کے مستحکم جذبے کے ساتھ امن، تعلیم اور معاشی ترقی سے ہمکنار کرنا ہے ایسے نظام کو لاگو کرنا ہے جس میں حکمرانوں کا کڑا احتساب ہو سکے۔ حکمرانوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کا آغاز کریںاور ملک میں چھائے اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھانا ہوں گے جس کی نئی نسل نظریہ پاکستان، استحکام پاکستان اور ملکی ترقی کے ہر پہلو سے آگاہ ہو سکے اور وہ آزادی کا جشن مناتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بجائے وطن عزیز کے روشن مستقبل کے سویروں میں آگے بڑھ سکیں۔ آج ہم اگر بحیثیت قوم اپنی فکری و عملی لغزشوں، چھوٹے بڑے گناہوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کا کھلے دل و دماغ سے اعتراف کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کی طرف رجوع کریں، تجدید عہد کرتے ہوئے مخلص، محنتی، باصلاحیت، دیانت دار و دین دار قیادت کی رہنمائی میں عزم صمیم کے ساتھ آگے بڑھیں تو ایک اسلامی ترقی یافتہ، خوشحال، خوددار اور خود کفیل پاکستان کی منزل کا حصول ممکن ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں نئی نسل کو یہ معلوم ہو کہ پاکستان کس طرح بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا، انگریزوں کے بعد ہندووں کے کتنے ظلم برداشت کیے ہیں، وہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرواتے ہوئے قیام پاکستان کے اصل مقاصد سے ہم آہنگ کریں۔ اور مملکت خداد کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی سعی کریں۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان