ایٹمی پاکستان511 کھرب روپے کا مقروض ہے اورہر پاکستانی 2 لاکھ 16 ہزار 709 روپے کا قر ض دار ہے ،وزارت خزانہ کی طرف سے ملکی وغیرملکی قرض کی پیش کردہ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے قرض میں جون 2021ءسے ستمبر 2022ءکے دوران 28 فیصد یا 113 کھرب روپے کا اضافہ ہوگیا اور مجموعی قرض 511 کھرب روپے ہوگیا ۔ وزارت خزانہ کے مطابق جون 2022تک ہرپاکستانی 2لاکھ 16ہزار709 روپے کا مقروض ہوگیاہے۔قرض میں اضافے کی وجہ شرح سود میں اضافہ، افراط زر اور معاشی نمو کے لیے اضافی قرضوں کا حصول ہے۔ جون 2021ءکے اختتام پر مجموعی قرض 398کھرب روپے تھا جو جون 2022ءکے اختتام تک بڑھ کر 491 کھرب روپے ہوگیا اور اس دوران 93 کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔ مذکورہ اعداد و شمار کا انکشاف 31 مارچ کو پارلیمنٹ میں جمع کرائی گئی قرض پالیسی بیان میں ہوا ہے جو ایف آر ڈی ایل اے کی قانونی ضرورت ہے۔ مالی سال 2022ءکے دوران جی ڈی پی سے قرض کی شرح میں2 فیصد اضافہ ہوا اور جون 2022ءکے اختتام پر یہ 73.5 فیصد پر آگئی جو اس سے قبل سال کے شروع میں 71.5 فیصد تھی، اس پر ایکسچینج ریٹ کی رفتار میں بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی تنزلی کی وجہ سے الٹ اثر پڑا جو جی ڈی پی کا 5 فیصد تھی۔ پالیسی بیان میں بتایا گیا کہ مقامی قرض جون2021ءکے اختتام پر 262 کھرب روپے تھا جو 30 جون 2022ءتک بڑھ کر 310 کھرب روپے ہوگیا اور ستمبر 2022ءکے اختتام تک مزید بڑھ کر 314 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔اسی طرح بیرونی قرضہ جون 2021ءمیں 136 کھرب روپے تھا جو جون 2022ءمیں181 کھرب روپے ہوگیا اور ستمبر 2022ءتک 197 کھرب روپے ہوگیا تھا ۔ قرض میں تیزی سے اضافی کی بنیادی وجہ ایکسچینج ریٹ کی مد میں 37 کھرب روپے کا نقصان ہے جو شرح سود میں اضافے کی وجہ سے مزید 31 کھرب روپے ہوگیا اور تقریباً 24 کھرب روپے کے بنیادی خسارے کا اثر تھا۔ پاکستان یورو بانڈز کے 5، 10 اور 30 کی مختلف قسطوں کے ساتھ ایک ارب روپے حاصل کیے جبکہ 30 کروڑ ڈالر کے کمرشل لونز جبکہ 70 کروڑ ڈالر قرض میں کمی ہوئی، گورنمٹ سیکورٹیز، نیا پاکستان سرٹیفکیٹس اور پاکستان بناﺅسرٹیفکیٹس میں غیررہائشی سرمایہ کاری سے ہوئی۔ مالی سال 22-2021ءکے دوران سب سے بڑی بیرونی ادائیگی 16.2 ارب ڈالر تھی جو 11 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی مد میں تھی۔
پاکستان کو وجود میں آئے 75 برس مکمل ہو چکے ہیں ،گزشتہ 75 برس سے صدرمملکت، وزیراعظم، آرمی چیف، نگراں وزرائے اعظم اور تمام وزرائے خزانہ، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز سمیت تمام سیاستدان کہتے آرہے ہیں کہ”ہم نے پاکستان کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے“۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ،نااہل اور مفاد پرست حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے سبب پاکستان ترقی وخوشحالی کی بجائے بربادی کی تصویر بن گیا ہے۔ 1947 ءسے 2008 ءتک پاکستان چھ ہزار ارب روپے کا بیرونی قرضوں کا مقروض تھا۔ 2008 ءمیں پاکستان کا ہر شخص پانچ سو روپے کا مقروض تھا اور آج 2023 ءمیںہر پاکستانی 2 لاکھ 16 ہزار 709 روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔2008 ءمیں بیرونی قرضوں کا حجم 36 ہزار ارب روپے تھا جو 2013 ءمیں 88 ہزار ارب روپے ہوگیا۔ 2018 ءتک بیرونی قرضے ایک لاکھ چو تالیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے۔2021 ءتک بیرونی قرضے تشویشناک حد تک پہنچ چکے ہیں اور دو لاکھ ستائیس ہزار ارب تک بڑھ چکے ہیں۔پی پی پی کے دور میں 161 بلین ماہانہ مسلم لیگ (ن )کے دور میں 235 بلین ماہانہ اور پی ٹی آئی کے دور میں 540 بلین ماہانہ کے حساب سے قرضے لیے گئے،اگر ہم 2008 ءسے 2022 ءتک کا ہر سال لیے گئے قرضوں کا ریکارڈ دیکھیں تو دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ 2008ءمیں 45 بلین ڈالر 2009 ءمیں 56 بلین ڈالر 2010ءمیں 62 بلین ڈالر 2011ءمیں 64 بلین ڈالر 2012 ءمیں 62 بلین ڈالر 2013 میں 56 بلین ڈالر 2014 ءمیں 62 بلین ڈالر 2015 ءمیں 66 بلین ڈالر 2016ءمیں73 بلین ڈالر 2017 ءمیں 86 بلین ڈالر 2018ءمیں 90 بلین ڈالر 2019 ءمیں 95 بلین ڈالر 2020 ءمیں 113 بلین ڈالر کے قرضے لیے گئے۔حیران کن طور پر پی پی پی کے دو سالوں 2012ءاور 2013ءمیں قرضوں کی شرح میں کمی آئی۔ 2022 ءمیں پاکستان کے کل قرضے 127 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور مقتدر اشرافیہ اقتدار اور عیش و عشرت کے نشے میں مست ہے اسے کوئی فکر نہیں کہ پاکستان کے قرضے کون اتارے گا۔
قرضوں میں ڈوبے ایٹمی پاکستان کی معیشت آج دیوالیہ پن کی سرحد کھڑی ہے۔ اس صورتحال میں اشرافیہ کی تمام مراعات ملک پر ناقابل برداشت بوجھ بنی ہوئی ہیں۔ اشرافیہ سے مراد وہ جرنیل، جج اور بیوروکریٹس ہیں جن کی تنخواہیں بھی لاکھوں میں ہیں اور حکومت انہیں زندگی کی تمام سہولتیں بھی مفت فراہم کررہی ہے ۔گاڑی، پٹرول، ڈرائیور، مکان، بجلی ، گیس ، پانی ، مالی ، خانساماں سمیت دیگر سہولیات مفت ملتی ہیں۔ اگر تیس ہزار روپے ماہوار کا سرکاری ملازم اسی آمدنی میں اپنے تمام گھریلو اخراجات پورے کرتا ہے تو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے اپنی تنخواہ میں تمام اخراجات کیوں نہیں کرسکتے ،یہ لوگ قومی خزانے پر بوجھ کیوں بنے ہوئے ہیں۔ بھوک اور افلاس کے سائے میں رہنے والے کروڑوں پاکستانی، اشرافیہ کی مفاد پرستی اور بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ قدرت کی بے پناہ مہربانیوں اور تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود وطن عزیز کی معاشی حالت ایک فقیر کی سی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد صرف یہ رہ گیا کہ کہیں سے امداد یا قرض حاصل کیا جا سکے،قرض حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، بہت سے ملکوں نے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد اور تعاون سے ترقی کی منزل حاصل کی ہے، پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرض حاصل کیے ، انھیں ایمانداری سے خرچ کرنے کے بجائے اس قرض سے مخصوص اشرافیہ کو فوائد دیے جائیں۔ ملک میں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر سے امیر تر ہوا ہے ، جبکہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نان جویں سے محروم ہے۔
مڈل کلاس کو کسی بھی ملک میں ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ٹیکسز، سوشل پریشر اور مسائل مڈل کلاس کو دیکھنا پڑتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ درمیانے طبقے کو پاکستان میں مستحکم ہونے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ 2008 تک پاکستان کا ہر شہری 500 روپے کا مقروض تھا، آج 2023 میں ہر پاکستانی 2 لاکھ 16 ہزار 709 روپے کا قر ض دار ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پارہی ہے۔ قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں۔ حکمران طبقات ان پر سوار ہو کر حکومت کرتے ہیں اور قرض لیتے ہیں۔ پاکستان کے مجموعی قرضے قومی پیداوار کے 87 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مالی سال 2021-22 میں وفاقی بجٹ خسارہ ریکارڈ 55 کھرب ( 5.5 ٹریلین ) روپے رہا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بجٹ خسارہ مقررہ ہدف سے 37 فیصد زائد رہا۔ گزشتہ مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا ہدف تقریباً 44کھرب روپے رکھا گیا تھا۔گزشتہ مالی سال میں اپریل کے پہلے ہفتے تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ سابقہ حکومت بھاری واجبات چھوڑ کر گئی ہے جن کی وجہ سے بجٹ خسارہ 56کھرب روپے سے بھی بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت ابھی بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔قرض لے کر اگر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جن سے ملکی صنعت، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی ہو تو ملک آگے بڑھتا ہے۔ جی ڈی پی کی گروتھ سے قرض کا حجم خود بخود کم ہو جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کا 90 فیصد قرض غیر ترقیاتی کاموں میں لگایا گیا۔ پاکستان قرضوں کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے اور صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قرضوں پر سود کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں،اگر کسی ملک کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینے پڑیں تو اس ملک کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے ،قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری سے ہی محروم ہو چکا ہے اور انگریزوں کا بنایا ہوا نوآبادیاتی نظام بھی بدلنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتا،ایف اے ٹی ایف کی تلوار پاکستان پر مسلسل لٹک رہی ہے اگر پاکستان کے قرضے اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو پاکستان کو خدانخواستہ ایٹمی اثاثوں سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے ،ایک جانب قرضے بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے-قرضے لے کر وی آئی پی کلچر کو جاری رکھا جا رہا ہے۔
غیر معمولی قرضوں کا تقاضا یہ کہ حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی کی جائے ۔قرضوں کی منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے، ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا جائے جو مکمل اور شفاف تحقیقات کرے کہ قرضے کیوں لیے گئے اور ان کو کہاں خرچ کیا گیا اور پاکستان قرضوں کی معیشت سے کیسے نجات حاصل کر سکتا ہے-جب تک پاکستان قرضوں کی دلدل سے باہر نہیں نکلے گا کسی صورت معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکے گا-پاکستان میں قرضوں کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے حکمران اشرافیہ ٹیکس بھی نہیں دیتی اور غریبوں کے ٹیکس اور قرضوں پر عیش و عشرت کرتی ہے-پاکستان میں اگر آئین اور قانون کی حکمرانی نافذ کر دی جائے تو پاکستان کے تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں،عوام کو گڈ گورننس حاصل ہو سکتی ہے اور قانون کے خوف سے امیر طبقات ٹیکس دینے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔پاکستان کی المناک کہانی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک جانب قرضے بڑھتے جارہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات بھی بڑھتے جا رہے ہیں،وی آئی پی کلچر آج تک ختم نہیں ہو سکا۔
ملک معاشی اور معاشرتی و اخلاقی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان پر حکومت کرنے والے طبقوں نے زراعت اور کسانوں کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بیرون ملک سے زرعی اجناس درآمد کرنے کی پالیسی اختیار کر کے پاکستان کی زراعت کو تباہی کا شکار کر دیا جبکہ امپورٹرز کا مراعات یافتہ طبقہ پیدا کر دیا۔اب ارب پتی امپورٹرز اتنے با اثر ہو چکے ہیں کہ زراعت اور کسان ان کا یرغمال بن چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران حقائق کو سمجھتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات ذاتی ،خاندانی اور گروہی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کی ترجیحات میں پاکستان کے عام لوگوں کی ترقی کا کوئی پہلو شامل نہیں ہے۔ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ شوگر ملز موجود ہیں ،گنے کی پیداوار وافر ہے ،لیکن اس کے باوجود پرچون کی سطح پر چینی کی قیمت مہنگی ہے ،یہی نہیں بلکہ چینی درآمد بھی کی جاتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی چینی وافر ہونے کی بنیاد پر ایکسپورٹ کر دی جاتی ہے یہ سب کچھ حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔چینی برآمد کرنی ہو یا درآمد کرنی ہو ‘اس کی منظوری حکومت ہی دیتی ہے۔پاکستان کی گندم ،پاکستانی آٹا ،چینی پورے افغانستان کے بازاروں میں عام فروخت ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں گندم اور آٹے کی نہ صرف قلت رہتی ہے بلکہ اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے اس حق کو کون کھا رہا ہے اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری ہے تاکہ خیبرپختونخوا کے عام آدمی کو بھی معلوم ہو سکے کہ افغانستان کی طرف اسمگل ہونے والی گندم ،دراصل پورے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے۔ افغانستان میں پاکستانی گندم کیسے اسمگل ہوتی ہے اس کے بارے میں کسٹمز حکام ،بارڈرز سیکیورٹی حکام اور محکمہ خوراک اور پاسکو کے حکام یقیناً جانتے ہوں گے۔
پاکستان میں دیگر معاملات کو دیکھا جائے تو ریاست نے اپنے آپ کو بتدریج اپنے ذمے عائد فرائض اور ڈیوٹیز سے الگ کرنا شروع کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ریاست پر اپنے عوام کے حوالے سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اس سے تقریباً آزاد ہو چکی ہے۔ آج ریاست صرف اپنے حق اور استحقاق کے نظام پر کھڑی ہے۔ شعبہ تعلیم کو دیکھ لیں ۔اسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی تعداد کو فلاحی تنظیموں اور ٹرسٹ وغیرہ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور حکومت خود اپنی ذمے داری سے آزاد ہو چکی ہے۔ بہت کم اسکول ایسے ہیں جو حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے اپنی مرضی کا یونیفارم اختیار کرتے ہیں ،مرضی کا سلیبس پڑھاتے ہیں اور اپنی مرضی سے فیسوں کا تعین کرتے ہیں۔ صحت کی طرف دیکھیں تو یہاں بھی ریاست و حکومت نے اپنی ذمے داریوں کو بہت محدود کر لیا ہے جبکہ نجی اداروں میں بڑے بڑے اسپتال قائم ہو گئے ہیں ،سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،حکومت جتنے مرضی دعوے کرتی رہے لیکن زمینی حقیقت کا جائزہ لینا ہو تو سرکاری اسپتالوں کا وزٹ کر لیا جائے۔اسی طرح ٹیسٹ لیبارٹریز کے حوالے سے بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بہت سے ٹیسٹ کیے ہی نہیں جاتے ‘ جن کے کیے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مشینیں خراب رہتی ہیں ‘ اس لیے عوام کی 90فیصد تعداد میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے لیے نجی لیبارٹریز اور مختلف فلاحی و خیراتی اداروں کی قائم کردہ لیبارٹریز کا رخ کرتی ہے۔ فلاحی اور خیراتی اداروں کے نام پر قائم لیبارٹریز میں بھی طبقاتی تقسیم ہے۔ کچھ لیبارٹریز کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں ،اس کے بارے میں بھی حکومت مکمل خاموش ہے۔ حکومت نے آج تک میڈیکل ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کے ریٹ مقرر نہیں کیے۔
دنیا کی کوئی قوم بھی اس وقت تک حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی معیشت کے معاملے میںخود کفیل نہ ہو۔ بلاشبہ آزادی کی حفاظت کیلئے دفاعی خود کفالت ضروری ہے لیکن معاشی خود مختاری کے بغیر اس کا حصول بھی ممکن نہیں۔ پچھلے عشروں میں وقت کی ایک سپر پاور اقتصادی ابتری ہی کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ پاکستان بھی دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے لیکن پچھلے کئی برسوں سے معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ آج مالی محتاجی ہماری قومی شناخت بن گئی ہے جس کا ہمارے بزرگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔لہٰذا ملک کی موجودہ صورتحال میں قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے کہ میثاق معیشت پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے، تاکہ معاشی خود مختاری کی منزل جلد از جلد حاصل کرکے قومی آزادی کے مستقل تحفظ اور ملک کی پائیدار ترقی و خوش حالی کو یقینی بنایا جاسکے۔