معظم شاہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد مرہٹوں، راجپوتوں اور سکھوں نے دوبارہ اپنی تخریبی سرگرمیوں کو تیز کر دیا اور یوں سلطنت مغلیہ کے زوال کے ابتدائی آثار اس کی زندگی میں ہی نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔
سکھوں نے ۱۷۱۰ء میں پنجاب میں سر اٹھالیا۔ انہوں نے بندہ کی قیادت میں زور پکڑ لیا اور شورش بپا کی۔ حتیٰ کہ سرہند شریف کے پورے علاقے کو تباہ کردیا۔ اس کے بعد سکھ سانگ پور اور لاہور کے گرد و نواح میں شورش بپا کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (تیرہواں حصہ)
بہرحال معظم شاہ عالم اول بہاد شاہ اول کی تخت نشینی (۱۷۰۷ء) سے لے کر اس کی وفات (۱۷۱۲ء) تک کسی نہ کسی طرح بادشاہ کی حیثیت برقرار رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دربار میں جو عالمی مرتبت امرا تھے وہ یا تو شہزادگی کے زمانے میں اس کے ساتھی، ہمدرد یا اس کے احسان مند تھے۔ یا پھر وہ امرا تھے، جنہیں اس نے معاف کردیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ اس عہد میں تمام تر سیاسی جوڑ توڑ کے باوجود ان امرا نے بادشاہ کے ساتھ غداری نہیں کی اور اس کے وفادار رہے اور سلطنت کو زوال پذیری سے کوئی واسطہ نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (گیارہواں حصہ)
مغل سلطنت اندر سے کھوکھلی تو ہو رہی تھی۔ پھر بھی معظم شاہ کے بعد بھی ایک درجن سے زائد بادشاہوں نے ہندوستان پر حکومت کی اور ماسوائے بہادر شاہ ظفر سب کا اقتدار ان کی وفات پر ہی ختم ہوا۔
عالمگیر کے بعد ان کے صاحبزادے معظم شاہ نے ۵ برس، جہاندار شاہ نے ایک برس، فرخ سیر نے ۶ برس، رفیع الدرجات اور شاہ جہاں دوم نے ۱۰۰ دن، محمد شاہ نے ساڑے ۲۸ برس، احمد شاہ بہادر نے ۶ برس، عزیز الدین نے ساڑھے ۵ برس، شاہ جہاں سوم نے لگ بھگ ۴۷ برس، بیدار بخت نے ۶۰ دن، اکبر شاہ دوم نے ۳۱ برس اور بہادر شاہ ظفر نے ۲۰ برس حکومت کی۔
یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (نواں حصہ)
بہادر شاہ ظفر مغل سلطنت کے آخری حاکم تھے، جن کی حکومت کا خاتمہ انگریزوں نے انہیں رنگون (برما) بھیج کر کیا۔ ۱۸۵۷ء میں انگریز فوج نے انہیں دھوکے سے قتل کرنے کیلئے بلوایا اور گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ ۲۳ ستمبر ۱۸۵۷ء ہندوستان کی تاریخ میں مغلوں کی حکومت کا آخری دن ثابت ہوا۔
برما میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے بہادر شاہ ظفر ۶ نومبر ۱۸۶۲ء کو ۸۷ برس کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ قبل ازیں انگریزوں نے ان کے چاروں صاحبزادوں کو بھی انتہائی سفاکانہ انداز میں قتل کردیا تھا اور ان کے قلم کئے گئے سر اُس وقت کے ایک لاچار بادشاہ کے سامنے رکھے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (ساتواں حصہ)
تاریخ انتہائی تلخ ہے۔ مگر اس میں کئی مثبت پہلو بھی ہیں۔ ’’اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ‘‘ سلسلے کو سمیٹتے ہوئے ہم آخری کچھ قسطوں میں مغل دور خصوصاً عالمگیر دور کے کچھ اہم کارناموں اور کامیابیوں کا سطحی تذکرہ کریں گے۔
اس دور کی سیاسی زندگی جس کا ہم تجزیہ کر چکے ہیں، کے علاوہ اقتصادی، انتظامی اور سماجی زندگی پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تو اس امر کا یقین خود بخود ہو جاتا ہے کہ مغل سلطنت کا زوال کسی بھی طرح عہد عالمگیری میں شروع ہی نہیں ہوا اور نہ ہی مغلوں کے زوال کے ذمہ دار تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)
عالمگیر کے عہد میں اقتصادی حالات
مختلف کتب اور ذرائع سے عالمگیر کے عہد کے حالات کا پتا چلا ہے کہ مالیہ کی جو آمدنی عالمگیر کے زمانے میں تھی وہ اکبر کے زمانے کی آمدنی سے دوگنی سے بھی زیادہ تھی۔ مثلاً یہی کہ اکبر کے عہد کے آخری دور میں مالیہ سے جو رقم حاصل ہوئی تھی وہ ۲۴ کروڑ ۷۰ لاکھ روپے کے قریب تھی۔ عالمگیر کے زمانے میں یہ رقم ۴۰ کروڑ پونڈ یعنی ۵ ارب ۲۰ کروڑ روپیہ تک پہنچ گئی تھی۔
اورنگزیب عالمگیر کو مالیہ سے جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم میں انتظامیہ اور فوج پر خرچ شدہ رقم اور منصب داروں کو بڑی بڑی تنخواہیں دینے کے بعد بھی تقریباً تمام مالیہ کے میزان کا پانچواں اور چھٹا حصہ خزانے کیلئے بچ جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (تیسرا حصہ)
برطانوی ماہرِ علوم شرقیہ اسٹینلے لین پول نے اپنی کتاب’’ AURANGZIB and the decay of the Mughal Empire‘‘ میں اس حوالے سے ایک فہرست بھی مرتب کی ہے، جس سے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ اکبر سے لے کر عالمگیر کے زمانے تک کی آمدنی میں کتنا فرق آگیا تھا اور یہ فرق اس وجہ سے اور بھی تھا کہ جہاں مغلیہ سلطنت کی وسعت مسلسل ہو رہی تھی۔
وہاں آمدنی بھی بڑھتی جا رہی تھی اور اسی طرح سے اخراجات بھی بڑھ رہے تھے۔ لیکن ان بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے کوئی پریشانی نہ تھی بلکہ مالی فراوانی کے سبب سلطنت کے معاملات احسن طریقہ سے عمل پذیر ہو رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پہلا حصہ)
اسی طرح بادشاہ کو صرف سورت کی بندرگاہ سے ۳۰ لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔ اس شہر سے ۱۱ لاکھ روپے کا ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ ۱۷ویں صدی کے مشہور اطالوی سیاح گیملی کاریری جس نے عالمگیر کو ۱۶۹۵ء میں دیکھا تھا، کو بتایا گیا کہ بادشاہ کو صرف اپنی موروثی جاگیر سے ۸۰ کروڑ روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔
دوسری جانب اسٹینلے لین پول نے جس آمدنی کا اندازہ لگایا ہے کہ اس تخمینے کے مطابق ۱۶۹۴ء میں سلطنت مغلیہ کی آمدنی تین کروڑ سات لاکھ پونڈ سے بڑھ کر ۹ کروڑ پونڈ ہوگئی تھی۔ اس آمدنی کا سبب زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی پذیری بھی تھی۔ (جاری ہے)