تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (تیرہواں حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 13
  • واضح رہے
  • مئی 27, 2021
  • 11:43 شام

عالمگیر نے مغل تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے شہزادوں کے درمیان اختلافات پیدا نہ ہونے دینے کی کوششیں تو کیں، مگر یہ کوششیں خرابیٔ نظام کی وجہ سے کارگر ثابت نہ ہوسکیں

مغل دور میں ہر بادشاہ کی وفات کے بعد ہر شہزادہ یہ سمجھتا تھا کہ اس کیلئے دو ہی راستے ہیں کہ یا تو وہ خود کو بھائیوں کے حوالے کرکے بقیہ زندگی قید و بند میں گزار دے۔ یا پھر حصول تخت کیلئے کوشش کرے۔ اور عموماً ہر شہزادہ موخر الذکر طریقہ اختیار کرتا تھا اور یہ کوشش اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک کہ خود ان کی قسمت ان کی تقدیر کا فیصلہ نہ کردے۔

بادشاہی امراء کا کردار بالکل نٹوں کے مانند ہوتا تھا اور شکست خوردہ شہزادوں کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر کامیاب شہزادے کے ساتھ مل جاتے تھے۔ وفاداری ان لوگوں کے نزدیک کوئی معنیٰ نہیں رکھتی تھی بلکہ لالچ، خود غرضی اور مستقبل میں زندگی کے بچاؤ کی خاطر وہ سب کچھ کر گزرنے کیلئے مستعد رہتے تھے۔

چونکہ یہ امراء ان تمام باتوں کے باوجود ایک تجربہ کار افسر، اچھے جنرل کے ساتھ اچھے منتظم بھی ہوتے تھے، اس واسطے ہر بادشاہ ہی کچھ پس و پیش کے بعد انہیں معاف کردیتا تھا اور پھر امرائ اس کامیاب شہزادہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرتے تھے اور بعد میں اس شہزادے کی حصول تخت کی کامیابی انہیں بھی ان کے سابقہ عہدوں پر بحال کردیا جاتا تھا۔ اور اگر شہزادہ ان سے زیادہ خوش ہوتا تو اعلیٰ ترین مناصب اور عہدوں پر فائز کر دیتا تھا۔

عالمگیر کو اپنے بعد شہزادوں کے درمیان خانہ جنگ کا مکمل علم تھا۔ اپنی زندگی میں اس اختلاف کی خیلج کو پاٹنے کیلئے اس نے اپنی حکومت کو بھی تقسیم کردیا تھا اور یہ تقسیم تینوں شہزادوں (اپنے حیات بیٹوں) کے مابین عمل میں لائی گئی تھی، جس میں مرکزی حیثیت شاہ عالم اول معظم شاہ کو حاصل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دسواں حصہ)

اور اسے اقتدار کا حامل قرار دیا گیا تھا اور اس طرح منگول روایت کے بموجب ایک وفاقی حکومت کو قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ لیکن اس میں فرق صرف اتنا تھا کہ چنگیز خاں کے زمانے کور لتائی کے مانند کوئی ادارہ موجود نہ تھا، جو شہزادوں کو بادشاہ کے مرنے کے بعد بادشاہ کی وسیعت پر یا اس کے مطابق عمل پیرا کرانے پر مجبور کرتا۔ چنانچہ عالمگیر کی وفات کے ساتھ ہی شہزادے خانہ جنگی کی خوفناک روایت پر عمل پیرا ہوگئے۔

عالمگیر کی موت کے وقت معظم شاہ کابل میں تھا، اعظم شاہ خود عالمگیر کے ساتھ دکن میں موجود تھا۔ اور کام بخش برار کی گورنری کے ساتھ ساتھ جنوبی دکن کے علاقوں میں فوجی مہمات پر مرہٹوں سے برسر پیکار تھا۔

عالمگیر کی موت کی خبر سنتے ہی جو امیر جس شہزادے کے ساتھ تھے انہوں نے بظاہر اپنی وفاداری کا بھرم رکھنے کیلئے اُس وقت تک اسی شہزادے کے ساتھ رہے۔ اور شہزادے کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کیا یا پھر اسے یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ انہی کے ساتھ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (ساتواں حصہ)

قصہ مختصر۔ بھائیوں میں حصول اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ اس رسہ کشی کے نتیجے میں خونریزی ہوئی اور جنگیں لڑی گئیں، جن میں دو حیدرآباد اور آگرہ کے قریب لڑی گئیں۔ معظم شاہ، اعظم شاہ اور کام بخش نے مہم جوئی کے دوران خود کو اپنے اپنے علاقوں میں ہی بادشاہ کے خطاب سے نواز دیا تھا اور زیر کنٹرول علاقوں میں وزیر اعظم بھی لگا دیئے تھے۔ ساتھ ساتھ اپنی فوجی قوت میں اضافہ کیا اور دیگر علاقوں کو فتح کرنے کیلئے ان کی طرف لشکر روانہ کئے۔

اعظم شاہ اپنے لشکر کو لے کر آگرہ کی جانب بڑھا جہاں آگرے سے چند میل کے فاصلے پر ہی خونیں جنگ لڑی گئی۔ اس میں اعظم شاہ کا لشکر بالکل تباہ ہوگیا۔ وہ خود اور اس کے دو لڑکے بیدار بخت اور والا جاہ اس جنگ میں مارے گئے۔ معظم شاہ کے فوجی سپہ سالار رستم خاں نے اعظم شاہ کا سر کاٹ کر معظم شاہ کے پاس روانہ کیا۔

اسی طرح ۱۷۰۸ء میں حیدرآباد کے قریب کام بخش کی فوجوں کو شکست ہوئی اور کام بخش سخت زخمی ہوا۔ انہی زخموں کی تاب نہ لاکر وہ بعد ازاں انتقال کر گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چوتھا حصہ)

یوں کام بخش کی موت کے بعد معظم شاہ بلا شرکت غیرے ہندوستان کا بادشاہ ہوگیا اور شاہ عالم معظم شاہ بہادر شاہ (اول) کے لقب سے تاج و تخت سنبھالا۔ اس وقت اس کی عمر لگ بھگ ۶۵ برس تھی، عمر کے لحاظ سے وہ کہولت سے نکل کر بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہو چکا تھا۔ بہرحال اس نے اتنی عمر میں اتنی بڑی سلطنت کی سربراہی کی جو عالمگیر جیسے عظیم مدبر کی کوششوں کا ثمر تھی۔

جیسا کہ گزشتہ قسط میں تحریر کیا جاچکا ہے کہ مزاج کے لحاظ سے معظم شاہ بے حد نرم طبعیت کا مالک تھا اور عالمگیر کی برعکس تصویر تھا۔ اس نے اپنی نرم مزاجی کا اول دن سے ثبوت دیتے ہوئے اعظم شاہ اور کام بخش کے امرا کو معاف کردیا اور اپنے دربار میں انہیں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کرنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دربار جلد ہی اندرونی سازشوں اور جوڑ توڑ کا مرکز بن گیا۔

انہوں نے آہستہ آہستہ نہ صرف اپنی ذہنی کج روی کا مظاہرہ کیا اور اختلافات کو ہوا دینا شروع کردی بلکہ ایرانی اور تورانی نظریات کی ایک بار پھر ترویج شروع کردی، جو کہ عالمگیر کے دور میں بالکل ختم ہوگئی تھی۔ اس سازشی اکھاڑ پچھاڑ میں اندرونی طور سے ایرانی امراء کا پلا بھاری رہنے لگا۔ چنانچہ اس درباری رسہ کشی کے دور رس نتائج سلطنت کی بقا کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے