کراچی: ڈلیو کراچی فورم (ڈی کے ایف) نامی تنظیم نے ڈی ایچ اے میں اے آر وائی لگونا پروجیکٹ اور اس کی مارکیٹنگ کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
۱۔ پروجیکٹ کا ماسٹر پلان کسی اخباری یا ٹی وی اشتہار میں کیوں نہیں دکھایا جا رہا ہے؟
۲۔ جیسا کہ سلمان اقبال کہہ رہے ہیں کہ لگونا کیلئے پانی سمندر سے لے کر آئیں گے تو کیا یہ پانی زمین میں جذب نہیں ہوگا؟ اگر K-4 منصوبے سے حاصل کرتے ہیں تو کراچی کے غریب عوام جو بوند بوند پانی کو ترستے ہیں، اس کے حصے میں کیا آئے گا؟
۳۔ اگر سمندر کا پانی لایا جاتا ہے تو کیا یہ زیر زمین پانی کو خراب نہیں کر دے گا؟
۴۔ رجسٹریشن کیلئے 16,500 کی رقم وصول کی جا رہی ہے، جبکہ مقرر کئے گئے اسٹیٹ ایجنٹ کے مطابق قرعہ اندازی میں نام نہ آنے کی صورت میں 10,000 کی رقم واپس کی جائے گی؟ پروسیسنگ جارج کی مد میں پیسے کاٹنے کے متعلق اشتہار میں کیوں نہیں بتایا جا رہا؟
۵۔ لگون بنانے کے حوالے سے ماحولیاتی اثرات کی جائزہ رپورٹ EIA کو عوام میں مشتہر کر دیا گیا ہے؟
۶۔ کیا یہ لگونا ڈی ایچ اے کی ایڈمنسٹریشن میں ہوگا یا اے آر وائی کی؟
۷۔ یہ بات کیوں نہیں بتائی جا رہی ہے کہ لگونا ویو کی جانب اپارٹمنٹس کے اضافی چارجز کیا ہوں گے؟
۸۔ نمائندہ ایجنٹ کی جانب سے یہ کہنا کہ 10 فارم بھرنے پر ایک نامزدگی کنفرم ہے۔ کیا یہ قرعہ اندازی کی شفافیت پر سوالیہ نشان نہیں؟
۹۔ پورے پروجیکٹ کا کُل رقبہ کتنا ہے؟ اسے ڈی ایچ اے کے سیکٹر میں دکھایا جائے تاکہ عوام کو اس کی صحیح لوکیشن بروقت معلوم ہوسکے؟
۱۰۔ ایک شناختی کارڈ پر 50 فارمز کا اجرا۔ کس طرح سے ’’لگونا سب کیلئے‘‘ کے پیغام کے تحت ہو سکتا ہے؟
۱۱۔ کیا اس پروجیکٹ کا مقصد بھی کراچی کے سِسکتے بِلکتے عوام سے پیسے بٹورنا تو نہیں؟
کراچی فورم کے ممبر ایچ۔ زئی کے مطابق یہ عبارت عوام کی جانب سے کئے جانے والے سوالات کے پس منظر میں ہے۔