اب اقلیتی کمیشن میں ایک قادیانی رکن کی شمولیت کے فیصلے نے ایک بار پھر ملک بھر میں بے چینی پھیلا دی ہے۔علماء کرام، عوام اور سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ اپوزیشن اراکین ہی نہیں بلکہ حکومتی اتحادی اور وزرا ٗ بھی وزیراعظم و وفاقی کا بینہ پر کڑی تنقید کررہے ہیں۔جمیعت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے 18ویں ترمیم میں ردوبدل کی کوشش پر جہاں حکومت پر سخت تنقید کی ہے وہیں قادیانی رکن کی شمولیت کو بھی ریاست مدینہ کے دعوے پر سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا اس غیر منطقی اقدام سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوجائیگا اس لئے کہ اس کمیشن میں مسلمان اراکین بھی شامل ہیں کل کو قادیانی یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی مسلمان اراکین کی حیثیت سے ہی کمیشن کا حصہ ہیں ۔اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے بھی حکومت کے اس اقدام کو سراسر غلط کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قادیانیوں کی پزیرائی آ ئین پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہے۔مسلم لیگ ق کے صدر اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین ،وفاقی وزیر ہاوسنگ طارق بشیر چیمہ اور صوبائی وزیر معدنیات عمار یاسر نے بھی قادیانیوں کو قومی کمیشن برائے اقلیت میں شامل کرنے پر گہری تشویش اور انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نازک ملکی صورتحال میں قادیانیوں کو نوازنے کے اقدامات ناقابل فہم ہیں ، انکا کہنا تھا کہ جو دستور پاکستان کو مانتے ہی نہیں نہ وہ آئین کو مانتے ہیں ایسے میں انہیں نوازنا آ ئین کے ساتھ کھلواڑ ہے۔چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ حکومت نے ایسے حساس معاملے پر اپوزیشن اور علماٗ کرام تو کجا اپنے اتحادیوں سے بھی مشاورت کرنا مناسب نہیں سمجھا جو کہ کئی سوال جنم دےرہا ہے۔ لیگی رہنماوں کا کہنا تھا کہ حکومت فی الفور یہ فیصلہ واپس لے ۔
ہمار ی جماعت ایسے کسی فیصلے کی کسی طور حمایت نہیں کرے گی۔وفاقی المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماؤں مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر،مولانا انوار الحق، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی ، مولانا محمد حنیف جالندھری اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مولانا اللہ وسایا نے کہا کہ قادیانیوں کی اقلیتی کمیشن میں شمولیت کی تجویز کومسترد کرتے ہیں۔قادیانی جب تک آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے اس وقت تک انہیں کوئی سرکاری پلیٹ فارم مہیا کرنا افسوس ناک ہے،حکمران موجودہ نازک حالات میں قادیانیت کے گڑے مردے اکھاڑنے سے گریز کرے۔قادیانیوں کی آئینی،مذہبی،سماجی اور معاشرتی حیثیت کے تعین کے لیے طویل جدوجہد کی گئی ہے۔آئین پاکستان میں قادیانیوں کی حیثیت کا تعین راتوں رات نہیں ہوا جسے اچانک بدل دیا جائے گا بلکہ جس طرح آئینی ترمیم کے پیچھے برسوں ہوم ورک کیا گیا اسی طرح قادیانیوں کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مطلوبہ ہوم ورک اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔علمائے کرام نے متنبہ کیا کہ آئے روز قادیانیوں کے بارے میں نت نئے شوشے چھوڑنے کا سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے ورنہ اس کے ہر اعتبار سے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ملک کی مشہور سماجی و مذہبی شخصیت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی نے وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خود کو قادری بھی لکھتے ہیں اور ریاست مدینہ کے اہم وزیر ہیں مگر کہاں سوئے ہوئے ہیں۔قادیانی جو ملک و ملت کے غدار اور کئی بار ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکےان پر یہ نوازشیں کیوں کی جارہی ہیں۔یاد رہے گزشتہ دو روز سے سندھ حکومت کیخلاف سوشل میڈیا پر مذہب مخالف اقدامات پر ہزاروں کی تعداد میں ٹویٹ ٹرینڈ کررہے ہیں۔ایسے میں تحریک انصاف نے تمام سیاسی،عوامی اور مذہبی حلقوں کی تنقید کا رخ اپنی جانب کرلیا ہےاور وفاقی حکومت کیخلاف ہزاروں کی تعداد میں ٌقادیانی ۔اقلیت ۔ نہیں ۔ غدارٌ ۔ ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ کررہا ہے اور بڑی تعداد میں صارفین گہرے غم و غصّے کا اظہارکررہےہیں۔