امریکا نے سعودی عرب سے پیٹریاٹ میزائل سمیت اپنی عسکری تنصیبات ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔عرب خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کے بعد سعودی عرب میں آئل فیلڈز کی حفاظت کیلیے عسکری تنصیبات میں اضافہ کیا تھا جسے اب ختم کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں امریکا سعودی سرزمین سے پیٹریاٹ اینٹی میزائل سسٹم اور دیگر عسکری تنصیبات ختم کررہا ہے۔
عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق پیٹریاٹ میزائل کی 4 بیٹریوں کو آئل فیلڈز سے ہٹادیا جائے گا جب کہ بیٹریوں پر تعینات درجنوں فوجیوں کو بھی وہاں سے ہٹاکر دوسری جگہ تعینات کیا جائے گا۔عرب میڈیا کا کہنا ہےکہ پیٹریاٹ سسٹم کو ہٹانے کا عمل جاری ہے اور اس بات کو اسے پہلے کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔رپورٹ کے مطابق اس سے قبل امریکی لڑاکا طیاروں کے دو اسکوارڈنز پہلے ہی خطے سے نکل چکے ہیں اور اب امریکی حکام خلیج سے امریکی بحریہ کی تعداد میں بھی کمی پر غور کررہے ہیں جب کہ بحریہ کی تعداد میں کمی امریکی حکام کے اس اندازے کی بنیاد پر کی جارہی ہے کہ امریکا کے اسٹریٹیجک مفادات کو ایران سے فوری طور کوئی خطرہ نہیں۔عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سعودی عرب کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں دیا گیا ہے۔تاہم امریکی حکام کا کہنا ہےکہ جنوری میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور اب اس کے ساتھ کورونا کی موجودہ صورتحال نے ایران کو کمزور کردیا ہے جس سے خطے میں تہران کی صلاحیتوں میں کمی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب پر آئے دن ایرانی حمایت یافتہ حیوثی باغیوں کے یمن سے میزائل حملے ہوتے رہتے ہیں جن کی پہنچ سعودی دارالخلافہ ریاض تک ہے وہیں شام اور یمن میں ایران کی جانب سے اپنے فوجی اڈے بنانے کے بعد سے خلیجی ممالک خصوصا سعودی عرب کے ایران کے ساتھ شدید خراب ہیں جبکہ دونوں ممالک شام میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار بھی ہیں ۔امریکہ سعودی عرب کو اپنا دوست کہتا ہے تاہم موجودہ حالات میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کافی خراب چل رہے ہیں دوسری جانب امریکہ اور ایران کے باہمی تعلقات بظاہر تو بہت خراب ہیں مگر ایران کیخلاف انتہائی قدم کبھی اٹھایا نہیں گیا۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے دفاعی تنصیبات ہٹانے کا فیصلہ اندرون خانہ ایران اور حوثیوں کو سعودی عرب پر وار کرنے کیلئے گرین سگنل دینا بھی ہوسکتا ہے جس سے سعودی عرب امریکہ کے جائز و ناجائز مطالبات ماننے پر مجبور ہوسکتا ہے اور سعودی ولی عہد جو اسوقت کافی مشکلات کا شکا رہیں ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ غرض کے ایسے حالات میں امریکہ کا مذکورہ فیصلہ کافی معنی خیز ہے۔