تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

امریکا کا دوبارہ ایٹمی تجربہ کرنے پر غور

  • Abdullah Khadim
  • مئی 27, 2020
  • 1:47 صبح

امریکا نے 28 سال بعد دوبارہ ایٹمی تجربہ کرنے کے بارے میں غور کرنا شروع کردیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے نیا جوہری تجربہ کرنے یا نہ کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ یہ مشاورت 28 سال پر امریکی انتظامیہ کے زیر غور پھر آئی ہے۔ اس سے قبل امریکا نے اپنا آخری جوہری تجربہ 1992 میں کیا تھا۔

دوسری جناب واشنگٹن پوسٹ نے امریکی سفارتی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ چین اور روس کی طرف سے ہلکی نوعیت کے جوہری ٹیسٹ کرنے کے بعد امریکی سیاستدانوں نے بھی جوہری تجربہ کرنے پر سوچ بچار شروع کردی ہے۔ تاہم اس کا فی الحال حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ امریکی اخبار نے لکھا کہ 15 مئی کو ہونے والی ٹرمپ انتظامیہ کی ایک میٹنگ میں ممکنہ جوہری تجربے کا منصوبہ زیر بحث آیا۔ تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ امریکا کوئی نیا تجربہ کرے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے سینیر اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس کے متعدد اعلیٰ اہلکاروں نے ایسے دعوے کیے ہیں کہ روس اور چین ہلکی نوعیت کے جوہری تجربے کر رہے ہیں، جس کے بعد یہ بات زیر بحث آئی کہ اس صورت حال میں امریکا کو کیا کرنا چاہیے؟ مگر روس اور چین کے حکام نے ایسے تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کوئی جوہری تجربات نہیں کر رہے ہیں۔ الزام لگانے والے امریکی اہلکاروں نے بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔

امریکا کی جانب سے جوہری تجربے کی خواہش پر جوہری ہتھیاروں کے مخالف گروپوں اور اداروں نے فوری طور پر اس بحث کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

واشنگٹن پوسٹ نے یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں شائع کی ہے، جب چند روز قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاسلحے کی دوڑ سے دور رہنے کیلئے ایک اور عسکری ڈیل سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یہ تیسرا دفاعی معاہدہ ہے، جس سے امریکا الگ ہوا ہے۔

وپن اسکائیز ٹریٹی‘ نامی ایک عسکری معاہدے کا مقصد امریکا اور روس کے مابین اعتماد سازی کو یقینی بنانا تھا۔ اس پیشرفت پر نیٹو اتحادی ممالک نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس ڈیل کے رکن چونتیس ممالک ایک دوسرے کی فضائی حدود میں نگرانی کے لیے فوجی پرواز کر سکتے تھے۔ تاہم اب امریکا نے اس ڈیل کے تحت روس کے ساتھ تعاون کو ختم کرنے کا کہہ دیا ہے۔

اس ممکنہ فیصلے کے باعث امریکا کے اتحادیوں کو بھی تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ یورپی ممالک اور مغربی عسکری اتحاد نیٹو نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ سال 2002 میں اس ڈیل پر عملدرآمد شروع ہوا تھا۔ روس نے البتہ کہا ہے کہ وہ اس 18 سالہ پرانے عسکریمعاہدے پر عمل پیرا رہے گا۔

Abdullah Khadim

تخم حکمت سے صحافت تک کا مسافر

Abdullah Khadim