افواج پاکستان کی ناقابل فراموش خدمات

afwaj e pakistan ki naqabil e faramosh khidmaat
  • rahilarehman
  • اگست 17, 2024
  • 2:06 شام

پاکستانی قوم کے ماتھے کا جھومر اور شہادت کے جذبے سے سرشار افواج پاکستان کے آفیسرز اور جوان دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیواربنے ہوئے ہی ہیں

پاکستان کے حصول اور بقاءکی تاریخ بے مثال قربانیوں کی داستان سے عبارت ہے۔وطن عزیز نے جب بھی قربانیوں کا تقاضا کیا، اس پاک مٹی کے فرزندوں نے تن من دھن قربان کرنے کیلئے لمحہ بھرکی بھی تاخیر نہ کی۔سر پر کفن باندھ کر رزمگاہ حق و باطل کا رخ کیا اور اپنی لہو سے قوم و ملت کو ایک نئی زندگی سے نوازا۔جذبہ اےمانی سے لےس ا فواج پاکستان کا شمار اپنی مہارت، کارکردگی اور صلاحیت کی بنےاد پر دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ پاک فوج کے جوان اور آفےسرز اپنی بہادری اور خدا داد صلاحےتوں کی وجہ سے دُنےا بھر مےں مشہور ہےں۔ےہ جذبہ شہادت ہی ہے جو پاک فوج کو دُنےا کی دیگر افواج سے ممتاز بناتا ہے ۔ےہ بہادر سپوت ملکی بقاءاور سلامتیکے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پوری قوم کو زندگی دیتے ہیں۔کسی شاعر نے بل لکل ٹھیک کہا ہے ،شہید کی جو موت ہے ،وہ قوم کی حےات ہے۔ ہماری بہادر، جفاکش،نڈر ا فواج نے پاکستان کی سلامتی اور دہشت گردی کے خاتمے کےلئے جو گراں قدر قربانےاں دی ہےں ان کو پوری دُنےا سراہتی ہے ،پاک فوج نہ صرف ملکی سرحدوں کی پاسبان ہے بلکہ اندرون ملک بھی امن و امان کو یقینی بنانے، سیلاب، زلزلہ سمیت مصیبت کی ہرگھڑی میں وہ سب سے آگے رہی ہے۔ بیرونی اور اندرونی محاذوں پر اس نے اپنے فرائض بہترین انداز میں سرانجام دیئے ہیں۔ یہ پاک فوج کے جوان ہی ہیں جو سیاچن جیسے کٹھن محاذ پر جہاں ہر قدم پر موت منہ کھولے کھڑی ہے اپنی جانوں پر کھیل کر ملک و قوم کی حفاظت کر رہے ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں کی جگ رتوں کے باعث ہی قوم میٹھی نیند سوتی ہے۔”پاک فوج کا نصب العین“ ایمان، تقویٰ اورجہاد فی سبیل اللہ“ ہے۔ یہ دنیا کی واحد اسلامی فوج ہے جو ایٹمی قوت سے مسلح ہے۔ پاک فوج کا قیام 14 اگست 1947 کوپاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی عمل میں آگیا تھا۔

پاک فوج کی 77 برس کی تاریخ اس حقیقت کو بھی اُجاگر کرتی ہے کہ اس نے وطن عزیز کی سلامتی، خود مختاری اور آزادی کو یقینی بنانے کیلئے دفاعی اعتبار سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ صرف یہی نہیں پاک فوج نے دنیا کے مختلف علاقوں میں امن قائم کرنے کی خاطر اقوام متحدہ کے امن دستوں میں شامل ہو کر قابل تحسین کردار ادا کیا۔ اسی طرح جب 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا طبل بجایا گیا تو پاک فوج اس کے سرخیل دستے میں شامل ہوئی چنانچہ نائن الیون کے بعد پاک فوج نے جان و مال کی ناقابل تلافی قربانیاں دے کر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اسی باعث نہایت وثوق سے کہا جاتا ہے کہ پاک فوج کا مستقبل نہایت تابناک ہے۔ اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق برطانوی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف نکولس پیٹرک نے پاک فوج کے کیڈٹ شہروز شاہد کوبہترین ٹریننگ، تعلیم، جسمانی فٹنس پر برطانیہ کی جانب سے اوورسیز انٹرنیشنل میڈل دیا۔ پاک فوج کے مستقبل کےلئے ایک ایسی علامت ہے جو ایک طرف تو امن اور بقاءکی ضمانت کا درجہ رکھتی ہے اور دوسری طرف یہ دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر سمیت پاک سرزمین کے دشمنوں کےلئے ایک للکار بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو خوب احساس بلکہ یقین ہے کہ پاکستان نا صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر میں قیام امن کی خاطر نتیجہ خیز کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت میں مکمل ذہنی ہم آہنگی موجود ہے اور عوام اپنی فوج کے پرجوش حامی ہیں۔ 77 سالہ تاریخ کی جھولی میں واحد ادارہ فوج ہی تو ہے جس پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ اس فخر کے کئی ایک پہلو ہیں ان پہلوﺅں میں خدمات بھی ہیں ، ترقی بھی، انسانی خدمات بھی، قومی جذبہ بھی، فوجی مہارت بھی، قربانیوں کی لازوال داستانیں بھی۔ میری نظر میں اس ستر سالہ تاریخ کو تین حصوں میں بانٹ لینا چاہیے۔ ہمیں پاک فوج کو ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔

اگر ماضی کی بات کی جائے تو یہ سفر چودہ اگست 1947 سے شروع ہو گا جب انگریز سرکار نے انڈین آرمی کے زیادہ وسائل بھارت کی نذر کر دیئے تھے یاد رہے کہ اس وقت مشرقی پاکستان بھی موجودہ پاکستان کے ساتھ تھا مگر افواج کی تقسیم 64 اور 36 فیصد کے تناسب سے ہوئی 64 فیصد حصہ بھارت کو دے دیا گیا اور ہمارے حصے میں 36 فیصد آیا۔ آپ نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہو گا کہ پاک و ہند کی تقسیم کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تھی مسلمان قافلوں پر ہندو اور سکھ حملہ آور ہوئے تھے۔ نہتے مسافروں کو قتل کر دیا جاتا تھا جو فوج اس وقت ہمارے حصے میں آئی اس نے کئی ٹرینوں کو محفوظ بنایا مگر بہت سے دوسرے ذرائع سے آنے والوں کو راستے میں ہی موت کی وادی میں اتار دیا گیا اس دوران وہ قتل و غارت ہوئی کہ دریاﺅں کے پانی سرخ ہو گئے۔ جن لوگوں نے اس زمانے میں راوی ، چناب، ستلج اور بیاس کو دیکھا تھا وہ بوڑھے، بزرگ آج بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ جیسے تیسے پہنچے، بہت سے لوگ پاکستان آگئے، یہاں کیمپ قائم کر دیئے گئے ان کیمپوں کو دیکھنا اور مہاجرین کی آباد کاری ایک بڑا کام تھا فوج نے ان کاموں میں بھرپور حصہ لیا نیا ملک تھا ادارے بن رہے تھے ہمارے پاس ایک ہی ڈسپلنڈ فورس تھی سو اسے بہت کام کرنا پڑا، فوج نے ابتدائی ایام میں پاکستان کو بہت سنبھالا، محدود وسائل میں یہ مشکل کام تھا مگر پاک فوج نے یہ مرحلہ شاندار طریقے سے سر کر لیا۔

afwaj e pakistan ki naqabil e faramosh khidmaat

پاکستانی فوج نئے ملک کی ابتدائی مشکلات کو حل کرنے میں مصروف تھی کہ تقسیم کے فوراً بعد بھارت نے اپنی فوجوں کو کشمیر میں داخل کر دیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جس میں بھارت کو انگریز سرکار کی پوری حمایت اور ہمدردی حاصل تھی جب پاک فوج اور قبائلیوں نے کچھ علاقے خالی کروا لئے تو بھارت گھبرا گیا کیونکہ پاک فوج کی پیش قدمی جاری تھی اسی گھبراہٹ میں بھارت اقوام متحدہ چلا گیا کہ کشمیر کا تنازعہ حل کیا جائے وہاں جنگ بندی کروا دی جائے کشمیری ووٹ کے ذریعے جس ملک میں شامل ہونا چاہیں ہو جائیں۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں قرار داد منظور کی، جنگ بندی ہو گئی اور کنٹرول لائن بن گئی یعنی سیز فائر لائن ہی کو کنٹرول لائن قرار دیا گیا۔ مگر آج 77 برس ہو گئے ہیں بھارت اقوام متحدہ کی منظو ر کردہ قرارداد پر عمل نہیں کر رہا۔ ہم ہر سال اقوام متحدہ کو یادداشت بھی پیش کرتے ہیں، بھارت تمام باتوں کو نظر انداز کر کے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کر رہا ہے لیکن قربان جائیے کشمیر کے نوجوانوں پر، جو ظلم کی فضا میں پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں، انہیں بارود کی بو پاکستان کے حق میں نعرہ لگانے سے نہیں روک سکی۔

پاکستان کے ابتدائی سالوں میں فوج کے پاس تو ساز و سامان نہ رہے۔ بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کی وفات ایک سال بعد ہو گئی۔ پھر لیاقت علی خان قتل ہو گئے۔ اس کے بعد ہمارے ہاں حکومتوں کا آنا جانا مذاق بن کے رہ گیا۔ فوج اس دوران اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرتی رہی۔برس گزرتے رہے پاکستان کی ترقی کا سفر جاری رہا۔ہمارے دشمن سے یہ ترقی دیکھی نہ گئی تو وہ ستمبر 1965 کو حملہ آور ہو گیا اس حملے سے پہلے اسے انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا دشمن کا ارادہ تھا کہ لاہور فتح کر لیا جائے اور لاہور کے جم خانہ میں جشن منایا جائے مگر ہمارے بہادر سپوتوں نے دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے۔ ہمارے افسر اور جوان بہادری کے جوہر دکھاتے رہے۔ میجر عزیز بھٹی شہید نے جان قربان کر دی، لاہور کو بچانے والے غازی کرنل شفقت عباس بلوچ دشمن سے اتنا لڑے کہ بھارتی فوج کو وہاں سے اپنے ٹینک، توپیں چھوڑ کے بھاگنا پڑا۔ لاہور سے ناکام ہونے والی فوج نے اپنا اگلا ٹارگٹ سیالکوٹ کو بنایا، بھارتی فوج نے سینکڑوں ٹینکوں کے ذریعے حملہ کیا مگر پاک فوج کے بہادر سپوتوں نے چونڈہ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ ہمارے جوان سینوں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے نیچے جاتے اور ان ٹینکوں کو اڑا کر رکھ دیتے۔ دنیا پاک فوج کا یہ جذبہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس جذبے کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بعد میں کئی ملکوں میں فلمیں بھی بنائی گئیں۔

1965 کی جنگ کے دوران ہماری فوج اور قوم کا جذبہ ایک ساتھ لڑا ہمارے شاعروں نے یادگار جنگی ترانے لکھے، لمحوں میں دھنیں بنیں اور گلوکاروں نے اپنی آوازوں کا ایسا جادو جگایا کہ ان ترانوں نے پورا عہد یادگار بنا دیا، خاص طور پر ملکہ ترنم نور جہاں نے تو کمال ہی کر دیا ہماری قوم اپنی جوانوں کی محبت میں جاگتی، ان کا حوصلہ بڑھاتی، پیارے وطن کی محبت میں پاک فوج اتنا لڑی کہ دشمن دھول چاٹنے پر مجبور ہو گیا۔ 1965 کی جنگ میں ہمارے ہوا بازوں نے بھی ایسے جوہر دکھائے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ کیا ایم ایم عالم اور کیا نور خان، بمباری کو یادگار بنا دیا اتنے ماہر جہاز اڑانے والے جنگی تاریخ میں کم کم ملتے ہیں۔ اس جنگ میں انڈیا کے پاس روسی اسلحہ تھا جبکہ ہمارے پاس 1951 میں قائم ہونے والی پاکستان آرڈننس فیکٹری واہ کا اسلحہ تھا جس نے جدید ترین جنگی ساز و سامان تیار کر رکھا تھا ہمارے پاس ٹینک ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا کے تیار کردہ تھے۔ آج ہماری یہ فیکٹریاں ماڈرن ترین جنگی اسلحہ تیار کر رہی ہیں جو مشرق اور مغرب کا حسین امتزاج ہے۔

1965 کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت کو ہر وقت اس بات کی پڑی رہتی تھی کہ بدلہ کیسے لیا جائے۔ چنانچہ اس نے پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے کی ٹھان لی، سازشیں ہوتی رہیں بھارت نے بنگالیوں کو محرومیوں کے نام پر اشتعال دلانے کیلئے شیخ مجیب کو استعمال کیا۔ بھارت بنگال میں مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے ٹریننگ کیمپ قائم کئے، بنگالیوں کو اسلحہ دیا، مکتی باہنی کے ذریعے سارا کھیل کھیلا گیا، اس کا اعتراف بھارتی وزیراعظم مہندر داس اور نریندر مودی نے کھلے عام میڈیا کے سامنے کیا مگر افسوس عالمی برادری اس کھلے اعتراف پر چپ رہی۔ اس سلسلے میں کئی باتوں کا اعتراف بنگلہ دیش میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر مسٹرڈ کشٹ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اگرچہ مشرقی پاکستان بعض اندرونی سازشوں اور بھارتی فوج کے حملے کے سبب ہم سے جدا ہو گیا مگر اپنی اسی غلطی کا اندازہ بہت جلد بنگلہ دیش کے لوگوں کو ہو گیا تھا اس کا اعتراف بھی ڈکشٹ کی کتاب میں موجود ہے۔ غلطی کا اعتراف تو بھارتی سکھ بھی کرتے ہیں۔اس سانحے نے پاکستانےوں کادل ضرور توڑا مگر ہمارے حوصلے پست نہ ہوئے۔

اس سانحے کے بعد پاک فوج نے ایک نئے ولولے سے کام شروع کیا اپنی صلاحیتوں کو وقت کی رفتار سے بڑھایا۔ جنگی جہاز بنائے، جدید ٹینک بنائے، سب میرین شپ اور آرمڈ پرسنل کیریئر سمیت جدید ترین ہتھیاروں پر توجہ دی، ڈیفنس انڈسٹری قائم کی۔ ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن بنائی گئی تاکہ پاکستانی اسلحہ پرموٹ ہو۔ اب ہر سال کراچی کے ایکسپو سنٹر میں سالانہ نمائش ہوتی ہے۔ پاکستان نے جدید اسلحے کی تیاری میں اور کیا کچھ کیا وہ آگے چل کر بیان کرتا ہوں۔ پہلے ذرا سیاچن کی بات ہو جائے جہاں اپریل 1984 میں بھارتی فوج کو بھی اس بلند ترین مقام پر دشمن کے مقابلے کیلئے آنا پڑا۔ اس بلند ترین جنگی محاذ پر دس ہزار زندگیاں اپنی بازی ہار چکی ہیں۔ ان میں ایک ہزار پاکستانی سپوت شہید ہو چکے ہیں جبکہ نو ہزار بھارتی فوج ہلاک ہو چکے ہیں۔ سیاچن میں انسان زندگیاں موسم کی شدت کے ہچکولوں میں کھیلتی ہیں یہاں لینڈ سلائیڈنگ بہت ہوتی ہے ہوا میں آکسیجن کی کمی ہے اٹھارہ ہزار فٹ کی بلند پر موسم، دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

بھارتی فوج لائن آف کنٹرول کا احترام بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتی بھارتی فوج اکثر لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں اس کوشش میں منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1999 میں کشمیری مجاہدین نے کارگل پر قبضہ کر لیا تھا بھارت اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے وہاں چار ڈویژن فوج لایا مجاہدین کے بعد اسے پاک فوج کا سامنا تھا اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے بھارتی وزیراعظم نے اپنے آرمی چیف کے کہنے پر امریکا سے جنگ بندی کی استدعا کی ، کارگل آپریشن پاک فوج کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا، ہماری قوم اپنی فوج کی فائیو بٹالین کے سپوتوں، کمانڈروں پر فخر کر سکتی ہے کہ انہوں نے دشمن کو زیر کیا۔ پاک فوج بھارت سے نہیں لڑی بلکہ اس نے ایک سپر طاقت کو بھی شکست سے دو چار کیا۔ 1979 میں روسی فوج نے افغانستان میں مداخلت کر کے ڈیورنڈ لائن کراس کرنے کی کوشش کی۔ بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی اس کی خواہش تھی۔ اس کی خواہش خاک میں ملانے میں پاک فوج کا کردار تاریخی تھا۔ امریکا اور چند مسلمان ریاستوں کی مدد سے افغان مجاہدین روس کے سامنے دیوار بن گئے، روس کے ٹکڑے ہو گئے۔ روس چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔

اس کے بعد 9/11 آجاتا ہے۔ جب دہشت گردوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملہ کیا۔ القائدہ اور طالبان کا تذکرہ سامنے آیا۔ پاک فوج نے دنیا کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کی ٹھان لی۔ امریکی سربراہی میںدہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی پاکستان اس جنگ کا حصہ بنا۔ دنیا کو محفوظ بنانے کی آرزو میں پاکستان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے لگا۔ مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ دہشت گرد اپنی کارروائیوں کو ہمارے دروازوں پر لے آئے۔ پاکستان کے کچھ علاقوں خصوصاً سوات اور وزیرستان پر طالبان دہشت گردوں نے اجارہ داریاں قائم کر لیں ،وہ اسلام آباد کو دھمکیاں دینے لگے اس دوران خود کش بمباروں نے پاکستان میں کئی ایک دھماکے کئے۔ ہزاروں پاکستانی ان دھماکوں کے باعث شہید ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں پاک فوج کے سپوت اور ہمارے سویلین دونوں شامل ہیں۔ جب دہشت گردوں کی کارروائیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو پاک فوج نے وادی سوات اور جنوبی وزیرستان کو خالی کروا کر آپریشن براہ راست اور پھر آپر یشن راہ نجات شروع کیا۔ ان علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا۔ پاک فوج نے اپنی سویلین آبادی کو ان علاقوں میں پھر سے آباد کیا۔

afwaj e pakistan ki naqabil e faramosh khidmaat

دہشت گردوں نے ان علاقوں میں سکول، کالج، گھر، ہسپتال، سڑکیں، پل سب کچھ تباہ کر دیا ہوا تھا۔ پاک فوج نے اس وقت کی حکومت کی مدد سے یہ سب کچھ پھر سے بنایا پاک فوج کی انجینئرنگ کور کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ جس نے برق رفتاری سے سب کچھ ازسر نو تعمیر کر ڈالا۔ جولائی 2009 میں زندگی ان علاقوں کی پھر سے رونق بن گئی۔

9/11 کے بعد جو عالمی صورتحال پیدا ہوئی۔ اس میں بھارت نے فائدہ اٹھانے کی آرزو میں اپنی فوجیں سرحدوں پر لگائیں۔ مگر اس کے دس مہینوں کی کاوشیں بے سود ثابت ہوئیں۔اگر پاک فوج کو مہارت کے آئینے میں دیکھا جائے تو سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے عالمی مشقوں کے ذریعے جو مقابلے ہوئے۔ پاک فوج پہلے نمبر پر نظر آئی۔ صرف یہی نہیں ہمارا ادارہ آئی ایس آئی بھی دنیا میں پہلے نمبر پر نظر آیا۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں کارکردگی میں آئی ایس آئی سے مات کھا گئیں۔ واضح رہے کہ یہ نمبرنگ عالمی اداروں نے کی۔ پاک فوج کی اس بے مثال پوزیشن کی وجہ شاندار ملٹری ٹریننگ کا نظام ہے۔ ملٹری اکیڈمی کا کول کامیابیوں کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ پروفیشنل ٹریننگ کے لیے سٹاف کالج کوئٹہ اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے این ڈی یو (نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی) مثالی درسگاہ ہے۔ جہاں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی قومی ترقی میں شامل ہیں۔

پاکستان کا میزائل پروگرام شاندار ہی نہیں قابل فخر بھی ہے۔ ہمارے پاس شارٹ رینج حتف، درمیانی رینج کیلئے ابدالی، غزنوی اور شاہین جبکہ لانگ رینج کے لیے غوری اور شاہین ٹو ہیں۔ بابر ہمارا ایسا شاندار میزائل ہے جسے گراﺅنڈ فضا اور سمندر سے فائر کیا جا سکتا ہے۔مئی 1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے وہ اس سے پہلے 1974میں پوکھران میں ٹیسٹ کر چکا تھا جواباً مئی 1998 میں پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے دشمن کو بتایا کہ ہمارے پاس تم سے بہتر صلاحیت موجود ہے۔ آج پاکستان دنیا کی پہلی ایٹمی سلامی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو پورا عالم خوش ہوا تھا۔ ہمارے ٹیکنیکل ویپنز نے دنیا کو حیران کر دیا۔پاک فوج نے پاکستان کے اندر اور ملک سے باہر بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔ ان خدمات کو خاصہ رہا ہے کہ یہ انسانیت کی بہتری کی خواہش میں انجام دی گئیں۔ 1960 سے پاک فوج اقوام متحدہ کے ثقافتی، سیاسی استحکام کے پروگراموں،امن مشنوں اور زندگی کی آبادکاری کے پروگرامو ں میں شامل رہی ہے۔

پاک فوج کی ان خدمات کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کانگو، صومالیہ، کمبوڈیا، ہیٹی، بوسینا ، سرالیون اور لائبریا سمیت کئی ملکوں میں پاک فوج نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ قدرتی آفات میں دکھی انسانیت کی خدمت پاک فوج کا مشن ہے۔ اندرون ملک بھی آفات میں فوج سب سے آگے ہوتی ہے۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد پاک فوج نے شاندار خدمات انجام دیں۔ حالانکہ اس زلزلے کے باعث پاک فوج کا اپنا بھی بہت نقصان ہوا تھا۔ دو سال کی مختصر مدت میں سب کچھ بنا کے زندگی کی رونقوںؒ کو بحال کر دینے کا کریڈٹ پاک فوج کے حصے میں آتا ہے۔ اگرچہ اس میں ہمارے سویلین سیکٹر کا بھی کردار ہے۔ 2010 کا سیلاب ہو یا پھر 2013 میں آواران زلزلہ، پاک فوج کی خدمات مثالی ہیں۔ 2015 میں جب چترال، گلگت بلتستان، جنوبی پنجاب اور سندھ میں سیلاب نے تباہی مچائی تو بحالی کا کام پاک فوج نے کیا۔2020 میں کراچی میں جب بارش نے تباہی مچائی تب بھی پا ک فوج نے ہی شہریوں کو ریلیف فراہم کیا تھا۔

قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہماری مثال پاک فوج ہر مشکل گھڑی میں مصیبت کے ہر لمحے میں اپنے لوگوں کے ساتھ نظر آئی۔ الیکشن میں سکیورٹی کا مسئلہ ہو یا پھر محرم میں امن و امان کا مسئلہ ہو۔ پاک فوج اپنے فرائض جانشانی سے انجام دیتی ہے۔ کئی تہوار ایسے آتے ہیں کہ امن و امان مسئلہ بنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر بھی پاک فوج کام آتی ہے۔ آرمی ہمیشہ سول حکومت کی مدد کرتی ہے۔ خواہ وہ مردم شماری کا مرحلہ ہو خواہ وہ واپڈا کے مسائل ہوں یا پھر پنجاب میں گھوسٹ سکولوں کی تلاش ہو۔ یہ خدمات جذبہ حب الوطنی کے تحت پاک فوج انجام دیتی ہے۔پاک فوج ملک کے اندر اور باہر ریلیف کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ بنگلہ دیش میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد پاک فوج نے بہت کام کیا۔ انڈونیشیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں سونامی کی تباہ کاریوں کے بعد زندگی کی بحالی میں پاک فوج کا کردار بے مثال رہا۔ جب چین میں زلزلہ آیا تو ہمارے فوجی دستے پیارے چینیوں کی مدد کیلئے پہنچ گئے۔ نیپال میں زلزلہ کے بعد پاکستان کی بہادر افواج نے اتنا کام کیا کہ خدمت کو یادگار بنا دیا ۔ نیپال اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس دوران پیدا ہونے والے کئی بچوں کا نام پاکستان رکھ دیا۔

ملک کے اندر اپنے پسماندہ صوبے بلوچستان کی ترقی کیلئے پاک فوج ناقابل فراموش کردار کر رہی ہے۔ پاکستان کا 44 فیصد رقبہ بلوچستان پر مشتمل ہے۔ وہاں آبادی بہت کم ہے۔ قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں۔ زمین بنجر ہے۔ 750 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے۔ مگر صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ روزگار کے ذرائع محدود ہیں۔ اب وہاں ایف ڈبلیو او سڑکوں کا جال بچھا رہی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں دہشت گردی نے خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک کو متاثر کیا۔ اس سے بلوچستان کی ترقی بھی متاثر ہوئی۔ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ مل کر فوج وہاں بہت کام کر رہی ہے۔ وہاں تعلیم، صحت پرخاص توجہ دے کر اور روزگار کے نئے مواقع بنا کر غربت کو دور کیا جا رہا ہے۔ پاک چےن اقتصادی راہداری یعنی سی پیک ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ کاشغر سے لے کر گوادر تک پاک فوج نے اس کی حفاظت کو یقینی بنایا ہوا ہے۔ اب بلوچستان ترقی کے راستے پر ہے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے قمع قمع کے پیش قیمت خدمات انجام دی ہیں۔ اس سلسلے میں آپریشن ضرب عضب کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہتی ہے۔ اس آپریشن کا آغاز پندرہ جون 2014 کو کیا گیا۔

کیونکہ 8 جون کو کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ ہوا تھا۔ ضرب عضب میں تیس ہزار فوجیوں نے حصہ لیا۔ اس آپریشن کے طفیل ٹی ٹی پی، اسلامک موومنٹ ازبکستان، ایسٹ ترکمانستان اسلام موومنٹ، لشکری جھنگوی، القائدہ، جنداللہ حقانی نیٹ ورک کی کمر توڑ دی گئی۔ کئی ملکوں اور غیر ملکی دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا۔ یہ آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا۔ اس آپریشن میں سینکڑوں نہیں ہزاروں دہشت گرد مارے گئے۔ ہمارے کئی افسران اور جوان شہید ہوئے۔ ہمارے سپوتوں نے مادر وطن کیلئے جانیں قربان کیں مگر دہشت گردوں کے سر کچل دیئے۔ ہمارے مختلف فورسز کے جوانوں نے قربانیاں دیں۔ یہ آپریشن دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے میں ہمیشہ یادگار ہے گا۔ اس آپریشن کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ عام لوگ بھی اس آپریشن کے حاملی تھی۔اب ملک میں آپریشن رد الفساد جاری ہے۔ اس کا مقصد بھی ملک سے دہشت گردی،ان کے سہولت کاروں اور معاشی دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ اپنی کارروائیاں کر رہی ہے اور قوم اپنی بہادر فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ قوم نے ہمیشہ اپنی عظیم فوج کے کارناموں کو سراہا ہے۔

پاک فوج کی تاریخ کو چند لفظوں میں بیان تو نہیں کیا جا سکتا میں نے 77 سالہ تاریخ کے آئینے میں چند باتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اب اندازہ لگائےے کہ آغاز سفر میں جس فوج کے پاس انتہائی محدود وسائل تھے اس نے ستر سالوں میں کامیابیوں کا سفر کچھ اس انداز میں طے کیا کہ آج پاک فوج کا شمار بہترین با صلاحیت فوج کے طور پر ہوتا ہے۔ جو مشکل ترین حالات میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ہمارے جوانون نے پاک سر زمےن کی عظیم مٹی کو اپنے خون سے سینچا ہے اور اپنی دھرتی کو ناقابل شکست بنایا ہے۔ یہ حقیقت بھی آشکار ہو چکی ہے کہ جنگیں عددی اور ہتھیاروں کی برتری پرہرگز نہیں لڑی جاتیں بلکہ میدان جنگ میں سب سے زیادہ اہمیت انسانی جذبوں کوحاصل ہوتی ہے۔ آزمائش کی ہر گھڑی میں پاک فوج کے افسروں اورجوانوں نے اپنے لہو سے ایسی عظیم داستانیں رقم کی ہیں جوہمیشہ زندہ و تابند رہیں گی۔ دنیا کے بلندترین محاذ جنگ سیاچن میں انتہائی نامساعد حالات کے باوجود پاک فوج کے افسروں اورجوانوں نے اپنے خون سے جو عظمت وبہادری کی داستانیں لکھی اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ کارگل کی بلندترین اور برف پوش پہاڑیاں بھی ہمارے سرفروشوں کاراستہ نہیں روک سکتیں، میدان جنگ میں تعداد اور اسلحہ برتری کارگر ثابت نہیں ہوتی بلکہ جذبہ جہاد اوروطن پرقربان ہونے کاعزم ہی کام آتاہے۔
اب ہائبرڈ وار کا دور ہے پروپیگنڈے کا ہتھیار انتہائی خطرناک ہوگیا ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ڈس انفرمیشن کو بھی جنم دیا ہے۔

آج دہشت گرد گروہوں، فرقہ پرست گروہوں، جرائم پیشہ گروہوں نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ریاستی نظام تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ان دہشت گرد، فرقہ پرست، جرائم پیشہ تنظیموں، گروہوں اور گروپوں نے انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے پروپیگنڈا گروپ بنا رکھے ہیں، غیرقانونی سرمائے کی نقل و حرکت بھی انہی ذرائع سے کی جاتی ہے، یوں دہشت گردی ایک کاروباری بن گئی ہے ، مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی آپسی رابطہ کاری بہت آسان ہوگئی ہے۔جرائم پیشہ مافیاز کے ساتھ بھی ایسے گروہ ہم آہنگ ہوگئے کیونکہ دونوں کے مالی مفادات ایک ہیں، دونوں کی معیشت غیرقانونی ہے جسے بلیک اکانومی کہا جاتا ہے۔ یہ ٹریلینز آف ٹریلینز سرمائے پر مشتمل معیشت ہے۔اس بلیک اکانومی نے ریاست کے اندر سیاسی جماعتوںاوراداروں کی سرکردہ شخصیات پرسرمایہ کرکے پورے ریاستی سسٹم کو کرپٹ کردیا ہے۔پاکستان میں سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز کے صارفین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ بلیک معیشت نے ان سوشل میڈیا ٹولز کو اپنے حق میں استعمال کرنے لیے بے پناہ سرمایہ کاری کررکھی ہے۔

وطن عزیز میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر کئی لابیز اس مشن پر لگا دی گئی ہیں ، ملک کی فوج کی وحدت، ڈسپلن اور انٹیگریٹی کو نقصان پہنچانا، فوج میں تقسیم پیدا کرنا ملک دشمن کا ایجنڈا ہے۔پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے بارے میں مبہم یا متنازعہ پروپیگنڈا کرنا ، وفاقی اکائیوں کی تاریخ، ثقافت کے بارے میں غلط بیانی کرنا اور دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں افواہیں پھیلانا کسی طرح قابل معافی نہیں ہے۔یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ پاک فوج کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔پاک فوج کی قربانیوں کے باوجود سوشل میڈیا پر ایک بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ریاستیں اور ممالک اس وقت تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں، جب تک اس کی فوج موجود ہوتی ہے، کسی بیرونی دشمن کا حملہ ہو یا کوئی ریاست دشمن اندرونی گروہ ، ان کا مقابلہ اورخاتمہ فوج ہی کرتی ہے۔اس لیے کسی ریاست اور ملک کو توڑنے کے لیے ، اس کی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ جب فوج کمزور ہوجائے یا اس میں تقسیم پیدا کردی جائے تو ریاست اپنا اقتدار اعلیٰ اوراپنی خود مختاری کھو دیتی ہے، بس لوگوں کا ایک بے سمت ہجوم باقی رہ جاتا ہے، وار لارڈزریاست کو آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں ادارے ختم ہوجاتے ہیں، انفرااسٹرکچر تباہ ہوجاتا ہے اور عوام وارلارڈز کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار میں دشمن کے سامنے آئے بغیر کسی ملک کی سالمیت اور خود مختاری کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ اب تک کی سب سے خطر ناک جنریشن آف وار ہے کیونکہ جدید دور میں روایتی محاذ کے بجائے دیگر بہت سے محاذوں پر لڑائیاں لڑی جارہی ہیں جن میں سفارتی، معاشی، نظریاتی اور سائبر محاذ بھی شامل ہیں جن کا مقصد کسی بھی ملک کے کونے کونے تک رسائی ہے۔ففتھ جنریشن وار سچ اور وہم، حقیقت اور مبالغے کے درمیان کھیلی جانے والی جنگ ہے۔ یہ کلچرل اور اخلاقی پہلوو ¿ں پر کھیلی جانے والی وہ خطرناک جنگ ہے جو کسی ملک کی فضا میں بگاڑ پیدا کرکے اس ملک کوبین الاقوامی سطح پر بد نام کرتی ہے جس سے ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہو جاتی ہے جس سے ملک معاشی بدحالی کا اس قدر شکار ہو جاتا ہے کہ وہ ایک روایتی جنگ لڑنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن اپنا زہر نوجوان نسل کے دل و دماغ میں کافی حد تک اتار چکی ہے ،ملک کے مختلف فورمز پر نہایت ہوشیاری اور مکاری سے تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے ، ریاست کے محافظ ادارے اور اس کے افسروں کے بارے میں بلاثبوت متنازعہ گفتگو کی جارہی ہے۔

ہمارے ہیروز کو ولن بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ تاریخ اور ذوقِ مطالعہ سے نابلد نوجوان ان کے پروپیگنڈا کے زیر اثر آجاتے ہیں۔ وقت آگیا ہے ، ایسے اندرونی گروہوں اور جماعتوں کے ساتھ سختی سے نبٹا جائے ، ان کے ہینڈلرز، فنانسر اور سہولت کاروں کو ریاستی سسٹم سے باہر نکال کر کے، ان سے پورا حساب لیا جائے۔افواج پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفادات ایک ہیں۔ جب بھی اس پاک دھرتی پر کوئی مشکل آیا تو قوم نہ صرف افواج پاکستان پر اعتماد کرتی ہے بلکہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی ہے۔ قوم کا فوج پر یہی اعتماد اور محبت فوج کا مورال بلند کرتی ہے۔ دنیا میں جدید اور بہترین اسلحے سے لیس کئی افواج موجود ہیں لیکن پاکستانی فوج وسائل کی کمی کے باوجود دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے اور اس کی وجہ یہی عوامی طاقت ہے۔لہٰذا دشمن نے اس طاقت کو توڑنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھی سہارا لے لیا ہے۔ اینٹی ملٹری لابی ہزاروں کی تعداد میں اکاو ¿نٹس بناکر، چند وطن فروشوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہر وقت، ہر موقع پر افواج پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتی ہے۔ جھوٹی افواہیں پھیلا کر قوم کو ورغلانا چاہتی ہیں تاکہ فوج کا مورال ڈاو ¿ن کر سکیں لیکن پاکستان کے دشمن اپنے ایجنڈے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔

خطے کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں پر خطرات بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب اندرونی دشمن ملک کو اندر سے ضربیں لگا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گرد پاکستان کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔پاک چےن اقتصادی راہداری جےسے گےم چےنج منصوبے کی تعمےر شروع ہوتے ہی بلوچستان میں بھارتی خفےہ اےجنسی (را) نے دہشت گردی کو ہوا دے کر امن و امان کا مسئلہ پیدا کےا ہوا ہے، تو پاک فوج ان کے خلاف کارروائی کر کے صوبے کی سلامتی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاک فوج ملک کی یکجہتی، اتحاد، سلامتی، خود مختاری اور دفاع کی علامت ہے۔ آج جب ٹیکنالوجی کا دور ہے اور روز نئی سے نئی ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ سامنے آرہا ہے، ایسے میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ افواج پاکستان کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنے اور کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کےلئے مزےد جدید دفاعی ٹیکنالوجی سے لیس کرے۔ فوجی کامیابی کا دارومدار مکمل تیاری ، دیگر اداروں کی مدد اور عوامی حمایت پر ہوتا ہے۔ عوامی حمایت کے بغیر دنیا کی کوئی بھی فوج کسی بھی محاذ پر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی قوم نے ہر مشکل مرحلے میںافواج پاکستان کی مکمل حمایت کی ہے۔ آج پوری قوم کوپاک فوج پر فخر ہے جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنے فرائض احسن طریقے انجام دے رہی ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت مسلح افواج کی تمام تر ضروریات پوری کرے کیونکہ پاک فوج پاکستان کی سرحدوں کی محافظ ہے اگر یہ کمزور ہو گی تو ملک کمزور ہو گا۔ لہٰذا پاک فوج کو وہ تمام وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں جو اس کی ضرورت ہےں اور اس مقصد کیلئے پوری قوم ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے کےونکہ پاک فوج پاکستان کے تحفظ کی ضامن ہے۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن