اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے دائر درخواست پروزارت خارجہ کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری کی سطح کے افسرکو طلب کرلیا، جسٹس عامر فاروق نے درخواست کی سماعت کی، ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالدمحمودنے وزارت خارجہ کی جانب سے تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔
عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ فوزیہ صدیقی کے وکیل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرے، ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا، ابھی تک کوئی اپ ڈیٹ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے کہا کہ امریکا میں ہمارا قونصل خانہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے کو دیکھتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس عامر فاروق نے عافیہ صدیقی سے متعلق وضاحت غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حکومت پاکستان نے اب تک عافیہ صدیقی کے لئے ہمیں کیا دستاویزی ثبوت دکھائے، بغیر دستاویزات کے رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ نے رپورٹ باقاعدہ طریقے سے فائل کی بھی نہیں ہے، محض آپ کے بیان پر ہم اس کیس کو نہیں نمٹائیں گے، 4 سال بعد یہ کیس سماعت کے لئے مقرر ہوا اور آج بھی کوئی رپورٹ موجود نہیں، دفتر خارجہ اس معاملے پر اتنا غیر سنجیدہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ہرشہری کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمے داری ہے جس سے وہ مبرا نہیں ہوسکتی، جوائنٹ سیکرٹری یا سیکرٹری خارجہ لیول کا افسر پیش ہوکر عدالت کو آگاہ کرے کہ اس معاملے میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی؟۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ عام پاکستانی دفتر خارجہ کے لئے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے، حکومت عوام کو ٹشو پیپر سمجھتی ہے، حکومتی وکیل عدالت میں کہتے ہیں عافیہ واشنگٹن ڈی سی میں ہے، انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ عافیہ صدیقی ٹیکساس میں قید ہیں.
انہوں نے کہا ڈاکٹر عافیہ قوم کی بیٹی ہے، جس جیل میں عافیہ کو رکھا ہے اس میں کورونا پھیلا ہوا ہے، ہمیں عافیہ صدیقی کے زندہ ہونے کا ثبوت چاہیے، آج عدالت نے بھی معاملے کی سنگینی کی بات کی ہے، فاضل جج صاحب نے معاملے کی سنگینی کو سمجھا اور نوٹس بھی لیا۔