افغان امن عمل کو معطل کرنے کے امریکی اقدام کے بعد طالبان نے ملک بھر میں حملے تیز کر دیئے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ خیر چاہتا ہے تو معاہدہ کرلے۔ جبکہ امریکی حمایت یافتہ غنی حکومت افغانستان میں نئے صدارتی انتخاب کے انعقاد کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس صورتحال میں افغان طالبان نے انتخابی مہمات اور ریلیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اب تک ہونے والے دو دھماکوں میں 50 کے قریب افراد کے ہلاک ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔ جبکہ ہجوم پر حملے ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا بھی امکان ہے۔
افغانستان میں صدارتی الیکشن 28 ستمبر کو ہونا ہے، جس کیلئے دارالحکومت کابل سمیت غنی حکومت کے زیر انتظام چند علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ تاہم طالبان حملوں کے بعد صدارتی امیدواروں اور ان کی مہم چلانے والے عہدیداروں اور کارکنان خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ واضح رہے کہ اشرف غنی سمیت 17 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جبکہ طالبان نے افغان عوام کو خبردار کیا ہے کہ وطن میں ہونے والے کسی بھی کٹھ پتلی عمل کا حصہ نہ بنیں اور الیکشن میں ووٹ نہ دیں۔ وہ پولنگ اسٹیشنز اور انتخابی مہمات کو نشانہ بنائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں این ڈی ایس کمپاؤنڈ کے قریب دھماکہ۔ 30 ہلاک
منگل کے روز صوبہ پروان میں الیکشن ریلی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ ریلی سے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی نے بھی خطاب کرنا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کابل میں امریکی سفارتخانے کے نزدیک بھی ایک دھماکہ ہوا ہے جس میں کم از کم 22 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا تھا اور عہد کیا تھا کہ وہ ملک میں 28 ستمبر کے انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق حال ہی میں افغان طالبان اور روسی وفد کے درمیان مذاکرات کے موقع پر افغانستان میں متوازی حکومت کے قیام کی تجویز بھی سامنے آئی تھیں۔ روس نے طالبان کو مشورہ دیا تھا کہ امریکہ پر دباؤ ڈالنے کیلئے وہ افغانستان میں غنی حکومت کے مقابلے میں اپنی حکومت قائم کرلیں۔ تاہم طالبان نے امریکہ اور غنی حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے حملے تیز کر دیئے ہیں۔
صوبہ پروان کے دارالحکومت چاریکار میں ہونے والی الیکشن ریلی میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں کم از کم 42 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ موٹر سائیکل پر سوار ایک خود کش بمبار نے ریلی کے قریب ایک چیک پوائنٹ پر اپنے آپ کو اڑا دیا۔ کٹھ پتلی صدر اشرف غنی جو دوسری مرتبہ پانچ سال کیلئے منتخب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں دھماکے میں محفوظ رہے۔
ایک اور خود کش بمبار نے دارالحکومت کابل کے مسعود اسکوائر کو دوپہر ایک بجے کے قریب نشانہ بنایا۔ اس حملے میں کم از کم 22 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوئے۔ دھماکے کے مقام کے نزدیک ہی سرکاری عمارتیں اور نیٹو کے کمپاؤنڈ بھی ہیں۔
واضح رہے کہ 18 برس سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کیلئے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری تھے، جو گزشتہ ہفتے امریکی صدر کے اعلان کے بعد منقطع ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان اچانک کیا تھا اور اس کی وجہ انہوں نے کابل میں طالبان حملے میں ایک امریکی فوج کی ہلاکت کو قرار دیا تھا۔