تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

افغان جنگ کو مزید طول دینے کیلئے امریکہ کی قلابازی

افغان جنگ کو مزید طول دینے کیلئے امریکہ کی قلابازی
  • واضح رہے
  • ستمبر 8, 2019
  • 2:02 شام

کابل حملے کو جواز بناکر صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ آج ہونے والے امن مذاکرات منسوخ کردئیے ہیں۔ جبکہ مائیک پومپیو بھی معاہدے کے مخالف تھے

امریکی صدر ٹرمپ نے کابل میں گزشتہ دنوں ہونے والے کار بم دھماکے پر افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا، جس پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ قلابازی افغان جنگ کو مزید طول دینے کیلئے ہو سکتی ہے۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے بھی طالبان سے معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ’’اسلامی ریاست‘‘ کے لفظ کے استعمال پر افغانستان میں قیام امن کے ضامن معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر بیان میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ آج کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں اور افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں ہونی تھیں لیکن کابل حملے کے بعد انہوں نے یہ ملاقاتیں منسوخ کر دی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں یہ بھی کہا کہ کابل حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے، دباؤ ڈالنے کیلئے طالبان نے کابل میں حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن وہ ایسا نہیں کر پائے بلکہ انہوں نے اپنی پوزیشن خراب کرلی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے سفارت کاری کا دروازہ اچانک بند کر دیا اور وہ طویل عرصے جاری رہنے والے مذاکرات سے بھاگ گئے۔ خبر ایجنسی کے مطابق کیمپ ڈیوڈ میں طالبان سے خفیہ ملاقات کا ذکر کر کے ڈونلڈ ٹرمپ نے بم کا گولا پھاڑ دیا۔

ادھر جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق اگر ٹرمپ اور طالبان وفد کی ملاقات ہو جاتی تو یہ امریکا پر گیارہ ستمبر 2001ء کے ان حملوں کے 18 برس پورے ہونے سے محض دو تین روز قبل ہوتی، جن میں تقریباً تین ہزار انسان مارے گئے تھے۔ اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صدر ٹرمپ امریکی عوام کے رد عمل اور نائن الیون کی 18 برسی کی وجہ سے مذاکرات سے پیچھے ہٹے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے کل رات گئے کیے جانے والے اعلان سے قبل امریکا افغان طالبان کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن بات چیت کے چھ دور مکمل کر چکا تھا اور اس مکالمت کے بعد بہت حد تک یہ امید بھی پیدا ہو گئی تھی کہ افغانستان کی اس 18 سالہ جنگ کا کسی امن معاہدے کی صورت میں اختتام ممکن ہے جو اب امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے 9 دور چلے جس کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنماؤں کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ فریقین معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

زلمے خلیل زاد نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد اب افغانستان جا کر افغان حکومت کو اعتماد میں لوں گا لیکن تین روز قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق مائیک پومپیو سمجھتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ معاہدے اور اس میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کے لفظ کا استعمال اس امر کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ طالبان افغانستان میں سیاسی قوت ہیں۔

گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی نے بھی طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دورئہ امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات منسوخ کر دی تھی۔ جبکہ افغانستان کے نائب صدر نے بھی طالبان سے معاہدے اور امریکی فوجی انخلا کے طریق کار کی مخالفت کی تھی۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے