طبلے جنگ بج چکا ہے، (ارے خوفزدہ نہ ہوں! ہم ایران اور امریکہ کے مابین ہونے والی زبانی کلامی جنگ کے بارے میں کچھ نہیں لکھنے لگے)۔ ہم تو دنیائے کرکٹ کے عالمی مقابلوں کی طرف توجہ دلانے لگے ہیں، جس کا آغاز 30 مئی سے برطانیہ کے دارالخلافہ ہونے والا ہے۔
جہاں یہ کرکٹ کا عالمی میلہ بہت ساری خصوصیات رکھے ہوئے ہے ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ برطانیہ ہی کرکٹ کی جائے پیدائش ہے اور انگلینڈ آج تک عالمی کپ جیتنے سے قاصر رہا ہے۔ جبکہ تین دفعہ فائنل تک رسائی پانے میں کامیاب رہا۔ پاکستان نے بھی انگلینڈ کو ہی شکست دے کر یہ تاج اپنے سر سجایا تھا۔
1992 کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ عالمی کپ جیتنے کی دوڑ میں ہر ٹیم کو ہر ٹیم سے مقابلہ کرنا پڑے گا، جوکہ کسی بھی کھیل کیلئے عالمی چیمپئن ڈھونڈنے کا صحیح طریقہ ہے۔ جس سے ٹیموں کی ٹھیک جانچ پڑتال ہوتی ہے اور اس طرح سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کا مقابلہ سخت ٹیموں سے ہوا اور کسی کا مقابلہ قدرے ہلکی ٹیموں سے ہوا۔ عالمی چیمپئین بننے کیلئے اسی طرح سے مقابلے منعقد ہونے چاہئیں۔
چار برس بعد منعقد ہونے والے یہ عالمی مقابلے جس کیلئے ساری ٹیمیں بھرپور محنت کرتی ہیں، اپنے بہترین کھلاڑیوں کو تیارکرتی ہیں اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عالمی چیمپئین بنے۔ کرکٹ برطانیہ کا قومی کھیل ہے لیکن جہاں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے ان تمام ممالک میں برِ صغیر سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کسی نا کسی طرح رسائی ممکن بنا لیتے ہیں، جوکہ اس بات کی گواہی ہے کہ برصغیر میں کرکٹ کی کیا اہمیت ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی کھلاڑی جنہیں یہ یقین ہوگیا ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جگہ نہیں بنا پائیں گے، کرکٹ کے جنون کو لئے دوسرے ممالک ہجرت کر جاتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے متحدہ عرب امارات، کینیڈا، بنکاک سمیت جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جیسے مملک میں بھی جگہ بنائی۔
ایک وقت تھا جب پاکستان، بھارت یا سری لنکا کی ٹیمیں ہار جاتی تھیں توکرکٹ سے والحانہ محبت کرنے والے اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں کے گھروں پر پتھراؤ شروع کردیتے تھے، لوگ اپنے گھروں کے ٹی وی توڑ دیتے تھے، کھلاڑیوں کے پتلے جلائے جاتے تھے، نوجوان بلے وکٹیں سڑکوں پر رکھ کر جلادیا کرتے تھے اور معلوم نہیں کتنے لوگ ہار کا غم برداشت نہیں کرپاتے تھے اور حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے دارفانی سے کوچ کرجاتے تھے۔
برصغیر میں ہر عمر کے افراد سیاست اور کرکٹ پر کسی بھی وقت اپنی ماہرانہ رائے اور تنقید کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہ خود ہی کھلاڑیوں کو چن لیتے ہیں، یہ خود ہی کسی بھی کھلاڑی کے نقص کی شناخت بھی کرلیتے ہیں اور اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ اس نقص سے نجات کا حل بھی پیش کردیتے ہیں کہ اگر یہ ایسا کرے تو زیادہ لمبی اننگ کھیل سکتا ہے یا پھر زیادہ وکٹیں لے سکتا ہے۔
کرکٹ کی تاریخ میں ٹی ٹوئنٹی اور ٹی ٹین نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ سارے ریکارڈ ادھیڑ کر رکھ دئیے ہیں۔ رنز کے انبار لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ڈبل سیکڑا بنانا کسی بلے باز بھی کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہوا کرتی تھی اور یہ کارنامہ سر انجام دینے والے کی ایسی واہ واہ ہوتی تھی کہ دنیائے کرکٹ میں خوب چرچا ہوتا تھا اور اب یہ صورت حال ہے کہ ایک روزہ میچوں میں تو کیا ٹی ٹوئنٹی میں ڈبل سیکڑے بن رہے ہیں۔
مذکورہ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ کرکٹ اب صرف بلے بازوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے تو قطعی غلط نہیں ہوگا۔ ایک وقت تھا جب ہر ٹیم کے پاس مخصوص بلے باز چھکے اور چوکے لگانے کیلئے ہوا کرتے تھے جو تماشائیوں کو بھرپور تفریح کا سامان مہیہ کرتے تھے، جنہیں انگریزی میں گیم چینجر بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن اب تو ہر ٹیم کا ہر کھلاڑی چھکے اور چوکے کی برسات کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اب اس بات کی نشاندہی کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کس بلے باز کیلئے کون سے گیند باز سے گیند کروائی جائے۔
کرکٹ نے جب سفید وردی کو رنگین کیا تو کرکٹ میں مخصوص خصوصیت کے حامل کھلاڑیوں کی جگہ ٹیم میں بننا مشکل ہوتی چلی گئی، یعنی بلے باز صرف بلے باز ہوکر ٹیم میں آسانی سے جگہ نہیں بنا سکتا اور نا ہی گیند باز آسانی سے اپنی جگہ بنا سکتا ہے، رنگین کرکٹ نے کھلاڑیوں پر یہ لازمی کر دیا کہ وہ کھیل کے ہر شعبے میں ماہر ہو جسے عام اصطلاح میں آل راؤنڈر کہا جاتا ہے۔
آج کل کھلاڑیوں کا چناؤ کرنا تقریباً تمام ممالک کیلئے بہت کٹھن ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ دنیا بھر میں کرکٹ کی لیگز کا ہونا ہے۔ کسی نا کسی طرح سے ہر کھلاڑی اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہم پاکستان کی بات کرلیتے ہیں جہاں مسائل کے انبار میں کرکٹ اور اس کی انتظامیہ بھی شامل ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ چیئرمین کرکٹ بورڈ احسان مانی صاحب نے پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے ایک نئے عہدے کا اضافہ کیا اور جناب وسیم خان کو اس ایم ڈی بنا دیا۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اپنے 40 سالہ کرکٹ کے تجربے کی بدولت یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ آسٹریلیا کی طرز پر ترتیب دی جائے۔ احسان مانی اور انضمام الحق صاحب پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا ہیں۔ ہم بات کر رہے تھے پاکستان کرکٹ ٹیم کے عالمی مقابلوں کیلئے انتخاب کی، ایک ایسی ٹیم انگلینڈ روانہ کی گئی جو کاغذ پر لکھی بھی متوازن معلوم نہیں دے رہی تھی۔ لیکن حتمی اعلان کا فیصلہ انگلینڈ سے ہونے والی سریز کے بعد کرنے کا حق محفوظ کرلیا گیا۔
پاکستان کرکٹ میں گیند باز ہمیشہ سے کھیل کو جیتنے کی صلاحیت سے مالا مال رہے ہیں۔ کم سے کم اسکور کا دفاع بھی کرتے رہے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی اصل قوت گیند بازوں کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔ انگلینڈ کیخلاف سریز میں اس کے بلکل برعکس دکھائی دیا، جہاں پاکستانی گیند بازوں کی برطانوی بلے بازوں نے طبعیت سے درگت بنائی اور بری طرح سے گیند بازوں کو پسپا کرکے رکھ دیا۔ جبکہ اس سریز نے پاکستان کے بلے بازوں نے پاکستانیوں کی توقعات کے برعکس خوب بلے بازی کے جوہر دکھائے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی کپ کے بہترین اور خطرناک بلے بازوں میں بابر اعظم کا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔ گیند بازوں کی کارگردگی نے چناؤ کمیٹی کیلئے وہ کام آسان کردیا جو کسی حد تک بہت مشکل اور تنقید کا سبب بننے والا تھا یعنی محمد عامر اور شاداب خان کی شمولیت۔ اب جب ہمارے گیند بازوں نے کوئی خاطر خواہ کارگردگی نہیں دکھائی، جن میں تجربہ کار جنید خان اور یاسر شاہ شامل تھے تو انہیں تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ محمد عامر اور شاداب خان کو عالمی مقابلوں کیلئے ٹیم کا حصہ بنا دیا۔
دوسری طرح فہیم اشرف جنہیں ٹیم کا مستقل رکن سمجھا جا رہا تھا لیکن چونکہ بطور آلراؤنڈر ان کی کارگردگی انتہائی ناقص رہی لئے انہیں تجربہ کار وہاب ریاض سے ری پلیس کر دیا گیا۔
یقینا اب چناؤ کمیٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جانا ہے اور ایسا دنیا جہان میں ہوتا ہے کہیں بھی سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا کہ ہم اپنی سمجھ سے سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ وہاب ریاض وہ چنے گئے کھلاڑی ہیں جنہیں پچھلے دوسال سے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا اور انگلینڈ کیخلاف کھیلی جانے والی سیریز کا بھی حصہ نہیں بنایا گیا۔
جنید خان نے انتہائی دلبرداشتہ ہوکر خاموش احتجاج کیا ہے کیونکہ ان پر محمد حسنین اور شاہین شاہ آفریدی کو فوقیت دی گئی ہے۔ کوئی بات نہیں یہ سب کھیل کا حصہ ہوتا ہے اب نا صرف دیکھنا ہے بلکہ کھلے اور صاف دل سے ٹیم کیلئے متحد ہوکر کھیلنے کی دعا کرنی ہے۔ ہر ذمہ دار فرد کی اور محب وطن بھی کا ہر اقدام ملک اور قوم کے فائدے کیلئے ہوتا ہے یہ وقتی اور جذباتی لوگوں کا غم و غصہ ہوتا ہے، جو حالات کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے۔
اب ٹیم میں جذبہ بھی ہے، جوش بھی ہے اور تجربہ بھی شامل کردیا گیا ہے۔ کپتان سرفراز کی حقیقی صلاحیتوں کو پرکھنے کا وقت آن پہنچا ہے یہ عالمی مقابلے جہاں اپنے ساتھ بہت سارے قومی اور بین الاقوامی ستاروں کیلئے آخری قرار دیا جارہا ہے وہیں پاکستان کے کپتان کی بقاء کیلئے بھی بہت اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
جس عزم، حوصلے اور صلاحیتوں سے انگلینڈ کیخلاف پاکستان نے سیریز کھیلی ہے اب اگلے تمام مقابلوں میں اس سے اور بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اب ضرورت ہے صرف کھیل پر دھیان دینے کی ٹیم بن چکی ہے، اب جو کوئی بھی ٹیم کا حصہ ہے ہار اور جیت اس کی ہی نہیں یہاں پاکستان میں بیٹھے 22 کروڑ پاکستانیوں کی ہے۔ اب تک کے عالمی مقابلوں کی فاتح اور فائنل میں شکست کھانے والوں کا ریکارڈ منسلک ہے۔