امریکہ، برطانیہ اور بھارت سمیت دنیا کی اہم خفیہ ایجنسیوں کو اپنے بعض اہم ترین آپریشنز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث ان کے ممالک کو نا صرف شرمندگی اٹھانی پڑی بلکہ نقصان بھی ہوئے۔ سب سے پہلے ہم امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں جس کی ناکامیوں کی ہولناکیاں سب سے بڑی ہیں۔
7 دسمبر 1941ء کی صبح پرل ہاربر ہوائی میں قائم امریکی بحریہ کے اڈے پر جاپان کی شاہی بحریہ نے اچانک حملہ کردیا۔ اسے ”ہوائی آپریشن“ یا ”آپریشن A1“ کا نام دیا گیا تھا۔ اس حملے پر امریکی انٹیلیجنس پرکڑی نکتہ چینی کی گئی کیوں کہ اس نے کبھی اس خطرے کی اطلاع دی ہی نہیں تھی۔ چنانچہ اس اڈے کو محفوظ سمجھا جا رہا تھا۔
اسی طرح 1950ء کی کورین جنگ سی آئی اے کی پہلی تجزیاتی ناکامی تھی جس نے صدر ہیری ایس تروکین کو یہ باور کرایا تھا کہ جنوبی کوریا پر شمالی کوریا کی جانب سے حملے کی صورت میں چین اپنی فوجیں کوریا نہیں بھیجے گا۔ لیکن اس کے برعکس صرف چھ دن بعد ہی شمالی کوریا کی مدد کےلئے دس لاکھ چینی فوج وہاں پہنچ گئی تھی۔
سی آئی اے کی ایک ناکامی مصر میں بھی عبارت ہے۔ مصر میں 1952ء میں ہونے والی فوجی بغاوت یا انقلاب کے حوالے سے سی آئی اے نے شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ملک میں کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔
سی آئی اے نے اس وقت سوئس بینک اکاﺅنٹس میں 3 ملین ڈالرکے لگ بھگ رقم جمع کرا دی تھی اور جنرل محمد نجیب کو 22 جولائی 1952ء کو بغاوت منظم کرنے پر آمادہ کرلیا گیا تھا۔
سی آئی اے اور برٹش انٹیلیجنس بغاوت پر خوش تھے کہ جلد ہی یہ بات سامنے آگئی کہ سی آئی اے کو مکمل طورپر گمراہ کیا گیا تھا اور جنرل نجیب، کرنل جمال ناصر کا صرف فرنٹ مین تھا جس نے فروری 1954ء میں مجیب سے اقتدار چھین لیا جبکہ جمال ناصر مغرب کا دوست نہیں تھا اور وہ جلد ہی بائیں بازو کے شعلہ بیان کی حیثیت سے منظرعام پر آیا اور اس نے سامراج دشمنی پر مبنی ایک بڑی تحریک چلائی اور قاہرہ کے وائس آف عرب ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والی اس مہم جوئی میں پورے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں پر زور دیا جاتا رہا کہ وہ اپنے مغرب نواز لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
ویت نام کی جنگ 1955ء میں ہوئی۔ اس دوران امریکی انٹیلی جنس جنگ کی وسعت اور اس کے دائرے کو پوری طرح سمجھنے میں ناکام رہی اور اس نے دشمن کے حجم، اس کی قوت، جنگ لڑنے کا طریقہ کار، دشمن میں نفوذ پانے کی استعداد، کمیونسٹ پارٹی اور اس سے متعلق بیوروکریٹک پاور کا ادراک کرنے میں سنگین غلطیاں کیں اور اسے یہ پتہ ہی نہ چل سکا کہ ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی اور وہاں کی بیوروکریسی کی قوت سوویت کی، کے جی بی کے مساوی تھی۔ اس جنگ میں سی آئی اے کی وجہ سے جو نقصان امریکہ کو ہوا، شاید پھر کبھی نہ ہوا۔
1960ء میں روسیوں نے ایک امریکی جاسوس طیارے کو مارگرایا تھا جو سوویت اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے بارے معلومات حاصل کرنے میں مصروف تھا۔ امریکی جاسوس طیارے کو سوویت بحریہ، فضائیہ کے اڈوں اور جیوگرافیکل انفارمیشن حاصل کرنا تھیں، تاکہ ان سے مفید نقشے تیار کیے جاسکیں۔
صدر آئزن ہاور نے سی آئی اے کی معلومات پر اعتماد کرتے ہوئے سرعام جاسوسی کے اس الزام کی تردید کردی لیکن روس نے امریکی طیارہ مار گرایا۔ امریکی طیارے کے ملبے کو دنیا کے سامنے پیش کردیا گیا اور سوویت یونین امریکی طیارے کا پائلٹ بھی منظرعام پر لے آیا جس کے نتیجے میں امریکہ کو بڑی ذلت اور شرمندگی اٹھانا پڑی۔ حالانکہ سی آئی اے نے یہ اطلاع دی تھی کہ روس امریکی طیارے کا نہ تو پتہ چلا سکے گا اور نا ہی اسے مار سکے گا۔
1961ء میں سی آئی اے نے فیڈل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کےلئے کیوبا میں ”بے آف پگس“ نامی یلغارکو منظم کیا۔ یہ آپریشن مکمل طور پر ناکام رہا اور سی آئی اے کےلئے بڑی شرمندگی اور ذلت کا باعث بنا۔
سی آئی اے کے اس آپریشن کا مقصد فیڈل کاستروکو قتل کرنا تھا لیکن ایسے کئی آپریشنز ہر بار ناکامی سے دوچار ہوتے رہے۔ ایک سو سے زائد افراد ان آپریشنز میں ہلاک ہوئے اور 1200 جلا وطن، جبکہ کئی افرادکوگرفتارکیا گیا۔ یہ سی آئی اے کی تاریخ کے انتہائی ذلت آمیز مشنز میں سے ایک رہا۔
1962ء میں کیوبا کے میزائل بحران کے دوران سی آئی اے نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیاکہ سوویت میزائل، نیوکلیئر وارڈ ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ میزائل امریکہ کے اکثر شہروں پر مار کرسکتے ہیں۔ یہ میزائل کیوبا میں نصب کیے گئے تھے اور وہاں 40 ہزار روسی فوجی بھی تعینات تھے جبکہ درحقیقت یہ کیوبا پر حملہ کرنے کا ایک منصوبہ تھا جو سوویت یونین کی ایک کالونی بن چکا تھا۔
منصوبے پر عمل سے قبل ہی یہ بات لیک ہو کر روس تک پہنچ گئی اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی کہ یہ حملہ صدر جان ایف کینیڈی کے احکامات پرکیا جانا تھا جنہوں نے سی آئی اے کو فیڈل کاسترو کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے احکامات جاری کیے تھے جبکہ حقیقت میں اس وقت کیوبا میں صرف 10 ہزار روسی فوجی تھے اور وہاں نیوکلیئر ہیڈز کے ساتھ کوئی بھی روسی میزائل نصب نہیں کیا گیا تھا۔
اسی طرح بھارت اور سوویت یونین کے تعلقات کو اچھی طرح جاننے کے باوجود سی آئی اے 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے پیشگوئی کرنے میں ناکام رہی۔
سی آئی اے کی ایک اور بڑی ناکامی ایران میں سامنے آئی۔ 1979ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر 3 ہزار طلبا اور آیت اللہ خمینی کے پیروکاروں نے حملہ کردیا اور سفارتی عملہ اور میرین گارڈز پر قابو پالیا۔ امریکی انٹیلیجنس ایسے حملے کی کوئی وارننگ دینے میں مکمل ناکام رہی اور ایسے غیر متوقع واقعے سے امریکی انٹیلیجنس ششدر رہ گئی اور بعد میں آپریشن ایگل کلاکے نام سے امریکی فورسز نے سفارتی عملے کو بچانے کےلئے جو کارروائی کی، وہ بھی سی آئی اے کی غلط اطلاعات کے باعث ناکامی سے دوچار ہوگئی۔
سینٹرل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر نے گزشتہ 20 برسوں میں سی آئی اے کی اہم ترین ناکامیوں کے حوالے سے جو اسٹڈی کی ہے، اس میں افغانستان میں سی آئی اے کی ناکامی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ عراق جنگ کو بھی سی آئی اے کی ناکامیوں میںسے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
1993ء صومالیہ میں امن قائم کردینے کے بعد امریکی فوج کے ایک چھوٹے دستے کو چھوڑکر باقی فوج واپس بلالی گئی۔ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد قبائلی سردار محمد فرح عدید نے امریکی فوجیوں پر حملے شروع کردیئے۔
عدیدکوگرفتار کرنے کیلئے یو ایس ڈیلٹا فورس کا ایک آپریشن، سی آئی اے کی جانب سے درست معلومات نہ دینے کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ اس ناکام آپریشن کے نتیجے میں صدر بل کلنٹن کو عدید کی تلاش ترک کرنا پڑی اور رینجرزکو ان کی چوکیوں پر واپس جانے کے احکامات دیئے گئے۔
11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کی پیشگی روک تھام کے حوالے سے پیش بینی کرنے میں سی آئی اے کی ناکامی کو ایک بہت بڑی ناکامی قرار دیا جاتا ہے جس کے نتائج کا پوری دنیا کو اب تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد بھی ناکامیوں کی ایک فہرست رکھتی ہے۔ 1973ء میں سوئز کینال اور گولان کی پہاڑیوں میں اسرائیلی مورچوں پر مصر اور شام کی افواج کا اچانک حملہ، اسرائیلی انٹیلیجنس کی ناکامی تھا۔
1970ء اور 1980ء کے درمیان اسرائیلی انٹیلیجنس یہ معلوم کرنے میں ناکام رہی کہ اس وقت پی ایل او کے ایک دھڑے کو سی آئی اے فنڈز فراہم کرتی تھی اور ٹریننگ دے رہی تھی جبکہ اسی دوران سی آئی اے، پی ایل او کے خلاف اسرائیل کے ساتھ مل کر کام بھی کر رہی تھی۔
برطانوی خفیہ ایجنسی، ایم 16 بھی ناکامیوں کی فہرست رکھتی ہے۔ برٹش انٹیلیجنس ارجنٹائن کی فوجی جنتا کے اس واضح پیغام کے باوجود، فاک لینڈ آئی لینڈز پر ناکام رہی کہ اگر جزائر پر حملہ کیا گیا تو وہ خونریز جنگ کرے گی اور اپنی حاکمیت کی حفاظت کرے گی۔
2003ء میں عراق کے صدر صدام حسین کے ہتھیاروں کے پروگرام کے حوالے سے برطانوی خفیہ ایجنسی کی غلط انفارمیشن کے نتیجے میں سی آئی اے یہ غلط دعوے کرتی رہی کہ صدام کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ حالانکہ یہ ہتھیار نہیں تھے اور سی آئی اے بھی اس جھوٹ کو نہیں پکڑ سکیں۔
اب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک روس کی خفیہ ایجنسی ”کے جی بی“ کے کارنامہ جانتے ہیں۔
1941ء میں اسٹالن بظاہر اس بات کا قائل تھا کہ ہٹلر سوویت یونین پر یلغار کرے گا لیکن کے جی بی نے اس کے برعکس معلومات فراہم کیں۔
1971ء میں روسیوں نے صدر جمال ناصرکے دور حکومت میں مصر میں کے جی بی کے ایجنٹ بھرتی کرنا شروع کردیئے تھے تاکہ وہ کسی نہ کسی دن ناصرکی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ یہ سارا کام بظاہر خیر و خوبی ہوتا رہا لیکن غیر متوقع طور پر ناصرکا انتقال ہوگیا اور اس کی جگہ انوار السادات نے لے لی۔
سادات کے بارے میں کے جی بی کا خیال تھا کہ وہ غیر جانبدار اور کمتر درجے کا بیوروکریٹ ہے لیکن یہ سادات کے حوالے سے کے جی بی کی غلط فہمی تھی جیسی کے اس سے قبل نجیب کے حوالے سے سی آئی اے کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ سادات بہت ہوشیار اور حوصلہ مند صدر ثابت ہوا اور اس نے 22 مئی 1971ء کو پورے کے جی بی نیٹ ورک اور اس کے ایجنٹوں کو گرفتارکرکے مصر سے نکال دیا۔ ان میں روسی سفیر ولادیمیرکریوشکوف بھی شامل تھا۔ یوں ایک ہی جھٹکے میں مصر سے روسی انٹیلیجنس کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔
اگست 1991ء میں کے جی بی چیئرمین ولادیمیر کریوشکوف نے، خود اپنی حکومت کے خلاف ایک ناکام بغاوت کردی اور یہ کے جی بی کے خاتمہ کا آغاز ثابت ہوا۔ روسی صدر بورس یلسن نے سوویت یونین کے سقوط کے بعد اس تنظیم کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا جس کے نتیجے میں پانچ ایجنسیاں تشکیل پائیں جن کے فرائض الگ الگ تھے۔ یوں 6 نومبر 1991ء کو باضابطہ طور پر کے جی بی کا خاتمہ ہوگیا۔