کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر آغا شہاب احمد خان نے کہا ہے کہ بھارت اور ترکی سمیت کئی ملکوں میں فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس کے مرکزی دفاتر ان کے دارالحکومتوں میں قائم ہیں لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کا مرکزی دفتر بھی کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا جائے۔
تمام ایگزیکٹیو کمیٹی اور جنرل باڈی ممبران کو مطلب پرست عناصر کی سازشوں کو ترک کرتے ہوئے 5 اگست 2020 کو ایف پی سی سی آئی کے اگلے جنرل باڈی اجلاس میں ہیڈ آفس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی توثیق کریں۔
ایک بیان میں آغا شہاب احمد خان نے اس بات کی نشاندہی کی کہ فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف آئی سی سی آئی) بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع ہے حالانکہ ممبئی بندرگاہ شہر ہونے کی وجہ سے تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔اسی طرح ترکی کے یونین آف چیمبرز اینڈ کموڈیٹی ایکسچینجز جو تمام مقامی چیمبرز آف کامرس، صنعت و میری ٹائمز حتیٰ کہ کموڈیٹی ایکسچینج کے ممبران پرمشتمل ہے اس کا بھی صدر دفتر ترکی کے دارلحکومت انقرہ میں واقع ہے جبکہ استنبول اپنی معاشی سرگرمیوں اور مصروف تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
آغا شہاب نے کہا کہ مذکورہ بالا ملکوں کی مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ایف پی سی سی آئی میں برسراقتدار گروپ نے بلاشبہ ایف پی سی سی آئی کے ہیڈ آفس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا عقلمند فیصلہ کیا ہے جس کی بزنس مین گروپ (بی ایم جی) اور کے سی سی آئی نے مکمل حمایت کی ہے جبکہ تمام بی ایم جی اینز اور اس کے حامی جو یا تو ایف پی سی سی آئی کی ایگزیکٹیو کمیٹی یا اس کی جنرل باڈی کے ممبر ہیں ان پر زور دیتا ہوں کہ وہ اگلے جنرل باڈی اجلاس میں اس اقدام کی مکمل طور پر توثیق کریں تاکہ اس اہم ادارے کو کامیابی کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں منتقل کیا جاسکے جو یقینی طور پر پوری کاروباری اور صنعتی برادری کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ اسلام آباد ملک کا دارالخلافہ ہے اور وفاقی حکومت کے ماتحت آنے والے تمام محکمے اسلام آباد میں واقع ہیں لہٰذا ایف پی سی سی آئی کا ہیڈ آفس بھی اسلام آباد میں منتقل ہونا بہت ضروری ہے تاکہ تاجروصنعتکار برادری کو درپیش مسائل کی مؤثر انداز سے وکالت کی جاسکے اور بہتر صورتحال میں ان کے مسائل فوری طور پر حل کیے جاسکیں۔ اسلام آباد میں ایف پی سی سی آئی کا ہیڈ آفس منتقل کرنااس ادارے کے لیے معاشی طور پر سود مند ثابت ہوگا کیونکہ اس سے سفری اور ہوٹل میں قیام کے اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
انہوں نے زور دیاکہ اسلام آباد میں ایف پی سی سی آئی کے ہیڈ آفس کی موجودگی یقینی طور پر اسے وفاقی حکومت اور اس کے تمام محکموں بشمول وزیر اعظم آفس،ایوان صدر، تمام وزارتوں کے دفاتر مثلاً فنانس اینڈ ریونیو، تجارت و ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار، توانائی وغیرہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے اسے متحرک ادارہ بنائے گی جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے کیونکہ اس سے بہت سارے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے میں مدد ملے گی۔
آغا شہاب نے کہاکہ ایف پی سی سی آئی پاکستان کی ایپیکس باڈی ہے اور وفاقی حکومت سے مضبوط روابط استوار کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنزجو ایف پی سی سی آئی کے ممبرز ہیں ان کے رائے اور تجاویز حاصل کرکے اقتصادی پالیسیوں پر وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔
انہوں نے کہاکہ ہم طویل عرصے سے ایف پی سی سی آئی کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ایف پی سی سی آئی کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کراچی میں پولیس افسران اور کلکٹرز سے ملاقاتیں کرے۔ یہ اصولی طور پر غلط ہے کہ ایف پی سی سی آئی قومی پالیسیوں پر توجہ دینے کی بجائے مقامی مسائل میں مصروف رہے اور وہ ویزے کے لیے سفارشی خط بھی جاری کرے جو غلط ہے کیونکہ کوئی بھی کاروبار یا صنعت ایف پی سی سی آئی کا ممبر نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ امر خوش آئند ہے کہ ایف پی سی سی آئی میں برسراقتدار گروپ نے اس سنگین خامی کی نشاندہی کی اور ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے حوالے سے جرات مندانہ اقدام اٹھایا جس کو بی ایم جی اور کے سی سی آئی سراہتے ہیں اور پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ تمام چیمبرز اور پاکستان کی تمام ایسوسی ایشنز ایف پی سی سی آئی کی ممبر ہیں جبکہ کوئی صنعت،انفرادی کاروبار، ٹاؤن ایسوسی ایشن یا صنعتی ایسوسی ایشن ایف پی سی سی آئی کے ممبر نہیں لیکن پھر بھی وہ ایسے اداروں کی خاطرومدارت کرتے ہیں جو غلط ہے۔
صدر کراچی چیمبر نے تمام بی ایم جی اینزسے درخواست کی کہ وہ 5 اگست کو ایف پی سی سی آئی کے ہونے والے اگلے جنرل باڈی اجلاس میں اس اقدام کی مکمل حمایت کریں تاکہ ایف پی سی سی آئی کا ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوجائے۔