ان تینوں جگہوں سے دور رہنے کی دعا مانگی اس لئے جاتی ہے کہ ہمارے سامنے بہت سے لوگ اس صوتحال کو بھگت رہے ہوتے ہیں۔ دعا مانگنے کے پیچھے یہ حکمت ہوتی ہے کہ یہ دھکے ہماری قسمت میں نہ لکھ دیئے جائیں۔
مگر قسمت کے فیصلے سے کسے مفر ہے۔ اسی طرح کا کچھ معاملہ میرے ساتھ ہوا کہ میری زوجہ محترمہ یعنی بیگم کو نمونیہ کا مرض لاحق ہوا۔ اپنے علاقے میں بیٹھنے والے ڈاکٹروں کے علاج معالجہ سے افاقہ نہ ہوا اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نمونیہ بگڑ گیا ہے اور نمونیہ کا پانی پھیپھڑے میں جمع ہوگیا ہے، پس کی صورت میں جسے ہر حال میں نکالنا پڑے گا۔ خیر اس مرض کی وجہ سے مجھے بھی اسپتال جانا پڑا اور 14 فروری یعنی دنیا کیلئے ویلنٹائن ڈے کو میرا ویلنٹائن ڈے اسپتال کی نذر ہوگیا۔
مذکورہ عنوان میرے ذہن میں اس وقت آیا جب ایمرجنسی وارڈ میں او پی ڈی ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے بعد اس کی ہدایت کے مطابق میں ریسپشن کاؤنٹر پر ایڈمیشن کی انٹری کیلئے گیا۔ وہاں دیکھتا ہوں کہ ایک بوڑھے ماں باپ اپنے بیٹے کے کسی مرض کے علاج کیلئے اسپتال میں داخلہ کی فیس یا چارجز کے بارے میں معلوم کررہے ہیں۔ بوڑھے ماں باپ عمر کا ایک حصہ گزار چکے ہیں اور آج اپنی جمع پونجی لٹانے یہاں چلے آئے تھے۔
کاؤنٹر پر بیٹھی ریسپشنسٹ نے ان کو بتایا کہ روزانہ کا خرچ 40 سے 50 ہزار ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ میں روزانہ کی بات کر رہا ہوں۔ اور بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر ایڈوانس کے طور پر بھی 40 ہزار کی رقم جمع کرانا ہوگی۔ نقد کی صورت میں ان ماں باپ کے پاس فوری طور پر 18 ہزار ہی پڑے تھے جس میں سے کچھ اماں کے بٹوے سے برآمد ہوئے اور کچھ والد صاحب کی حیثیت سے بڑے میاں کی جیب سے برآمد ہوئے۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اماؤنٹ سن کر مجھے تو جھرجھری سے آگئی (آپ کو یہ جھرجھری آئی یا نہیں؟)۔
کچھ دنوں پہلے IBA CEIF میں حلال انڈسٹری سے متعلق ایک ورکشاپ میں ہوئی تھی، جس میں میں نے شرکت کی تھی۔ وہاں مفتی نجیب خان جو فاضل دارالعلوم کراچی اور شریعہ ایڈوائزر یا ممبر سمٹ بینک ہیں، نے ایک بات جو کہی تھی جو مجھے اس وقت سے یاد رہ گئی۔ اسپتال والے واقعے پر وہ بات بہت شدت سے یاد آئی۔
انہوں نے کہا ’’چودہ سو سالہ اسلام کی تاریخ ہے کہ تعلیم اور صحت ہمیشہ وقف کی بنیادوں پر چلا ہے۔‘‘ حقیقت میں واقعی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اگر ہماری اس فلاحی ریاست میں بھی تعلیم اور صحت وقف کی بنیاد پر چل رہا ہوتا تو آج ان بوڑھے ماں باپ کی جیب سے ایک دن میں اتنی بڑی رقم کے لٹنے پر مجھے جھرجھری سی نہ آتی۔
مگر عجیب بات ہے کہ ہماری اس فلاحی ریاست میں یہی وہ شعبہ ہائے زندگی ہیں جس میں ایک بار کی انویسٹمنٹ کئی گنا نفع فراہم کرتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس طرح کے غریب اور لاچار لوگ جو عرصہ دراز سے مشقت کر رہے ہوتے ہیں ابتدائی طور پر اسکولوں کی فیسیں ان کی جیب خالی کرتی ہیں اور اگر کچھ غلطی سے بچ گیا تو رہی سہی کسر اسپتال پوری کردیتے ہیں۔
اللہ کرے کہ ہم اپنی اس فلاحی ریاست میں تعلیم اور صحت کو وقف کی بنیادوں پر چلا سکیں تاکہ نجی اسپتالوں کے مین کاؤنٹرز پر لوگوں کی جیبں خالی کرنے کا سلسلہ بند ہو۔ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں، لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہر وہ کام جس میں درست نہیں ہے وہ یہاں ہو رہا ہے۔
پاکستان میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کو بھی بزنس کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ ہر طرف لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے۔ عید قریب آتے ہی ٹریفک اہلکار سیزن کمانے میں لگ جاتے ہیں۔ جبکہ اسپتال، کوٹ کچہری اور پولیس تھانوں کے چکر سارا سال ہی چلتے رہتے ہیں۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ آخر اسلامی ریاست میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔