پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں دو اہم مواقع پر سینئر ترین جج کی بجائے جونیئر جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ یہ واقعات 1954 اور 1994 میں پیش آئے، جب جسٹس منیر اور جسٹس سجاد علی شاہ کو بالترتیب چیف جسٹس بنایا گیا جبکہ ان سے سینئر ججوں کو نظرانداز کیا گیا۔
پہلا واقعہ (1954)
اس وقت جسٹس منیر کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا، جب کہ سینئر جج ابو صالح محمد کو غیر فعال کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک متنازعہ لمحہ بن گیا۔
دوسرا واقعہ (1994)
اسی طرح، جسٹس سجاد علی شاہ کو وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ایڈوائس پر چیف جسٹس مقرر کیا گیا، جب کہ اس وقت سب سے سینئر جج سعد سعود جان تھے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا دور بھی متنازع رہا، خاص طور پر جب انہوں نے صدر فاروق لغاری کے خلاف فیصلے دیے، جس کے نتیجے میں ان کی اور نواز شریف کی حکومت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے۔
حالیہ صورت حال
حال ہی میں، پاکستان کے آئین میں کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔ وہ سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہیں، جبکہ سب سے سینئر جسٹس منصور علی شاہ ہیں۔ اس سے پہلے، چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار طے تھا کہ سینیئر ترین جج ہی اس عہدے پر فائز ہوتا تھا۔
تاریخی طور پر، ایسے فیصلوں نے عدلیہ میں اختلافات کو جنم دیا اور نظام انصاف کی ساکھ پر سوالات اٹھائے۔ 1954 اور 1994 کے واقعات آج بھی یاد رکھے جاتے ہیں، اور موجودہ صورتحال اس تناظر میں اہم ہے۔ کیا یہ تبدیلیاں آئندہ بھی عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کریں گی؟ یہ سوال آج بھی بحث و مباحثے کا موضوع ہے۔