آئی پی پیز معاہدے عوام کا خون نچوڑ نے لگے

IPPs muahidy awam ka khoon nichordny lagy
  • rahilarehman
  • اگست 17, 2024
  • 2:49 شام

اس وقت پاکستان کے کروڑوں شہری اپنی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ مہنگی ترین بجلی کے بلوںکی نذر کرنے پر مجبور ہیں جوان کیلئے عذاب بنا ہوا ہے۔دوسری جانب تاریخ ساز مہنگائی کی آگ میں جلنے والی قوم پر سابق نگراں وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹرگوہر اعجاز کا یہ انکشاف کہ حکومت آئی پی پیز معاہدوں […]

اس وقت پاکستان کے کروڑوں شہری اپنی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ مہنگی ترین بجلی کے بلوںکی نذر کرنے پر مجبور ہیں جوان کیلئے عذاب بنا ہوا ہے۔دوسری جانب تاریخ ساز مہنگائی کی آگ میں جلنے والی قوم پر سابق نگراں وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹرگوہر اعجاز کا یہ انکشاف کہ حکومت آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے بعض پاور پلانٹس سے بجلی 750 روپے یونٹ خرید رہی ہے۔ حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے، ونڈ اور سولر سے 50 روپے فی یونٹ سے اوپر قیمت ادا کی جا رہی ہے،بجلی بن کر گرا ہے۔ڈاکٹرگوہر اعجاز کے مطابق مہنگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگی 1.95 ٹریلین روپے ہے، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے، دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے جبکہ تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے فراہم کر رہی ہے۔اس طرح صرف 3پاور پلانٹس کو 370 ارب روپے ادا کر دیے گئے۔ بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ یہ پلانٹس 52 فیصد حکومت اور 28 فیصد پاکستان کے نجی سیکٹر کی ملکیت ہیں، کرپٹ ٹھیکوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہے۔

آئی پی پیز کے سب معاہدوں میں ’کیپیسٹی کی ادائیگی‘ کی شق ہے جو پاور پلانٹس کو منافع خوری کی اجازت دیتی ہے، اس شق کے باعث آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیدا کیے کیپیسٹی کی مد میں ہوشربا ادائیگی کی جاتی ہے،کیپیسٹی پیمنٹ کے یہ معاہدے پاورپلانٹس کو بہت زیادہ انوائس کرنے کی اجازت دیتے ہیں، معاہدوں کے نتیجے میں بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اگر آئی پی پیز مالکان کی تفصیلات میں جائیں تو اس وقت 80فیصد مالکان پاکستانی جبکہ 20فیصد مالکان غیر ملکی ہیں جنہوں نے بیرون ملک کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کے پاکستان میں ٹھیکے لیے ہوئے ہیں۔پاور سیکٹر میں درآمدی فیول سے چلنے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز ) سے طویل المدتی معاہدے قومی خزانے اور عوام پر بھاری بوجھ بن چکے۔ حکومت اور آئی پی پیز گٹھ جوڑ پاکستانی عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔اُوپر سے اشرافیہ کو بجلی کے 37کروڑ یونٹ سالانہ مفت فراہمی غریب عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔بجلی کمپنیوں کا اضافی یونٹ بلز میں شامل کرنا، بجلی چوری کا تدارک نہ کرنا، سرکاری افسروں اور ملازمین کومفت بجلی کے کروڑوں یونٹ کی تقسیم اور بد عنوانی کی شکایات پر حکومت اور بجلی کمپنیوں کی بے حسی شہریوں میں غصے بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔کوئی بھی حکومت اس حوالے سے قابل عمل پالیسی متعارف کرانے میں ناکام رہی اور اپنی ناکامیوں اور ساری خرابیوں کا ملبہ عالمی مالیاتی ادارے پر گرا کر پاکستانی عوام کو گمراہ کرتی رہیں۔ بجلی کا بل محض بجلی کی قیمت نہیں ہے۔ بل میں 48 فیصد رقم مختلف قسم کے ٹیکس کی مد میں ہے۔ سلیب سسٹم کے نام پر ایک پیچیدہ نظام مسلط کیا گیا ہے۔صارفین اس سٹسم سے آگاہ نہیں ہیں، میٹر ریڈر کی ریڈنگ پر کوئی چیک نہیں۔ قانون پسند صارفین مہنگی بجلی سے پریشان ہیں ، بجلی چوری کرنے والوں اور سرکاری مراعات کے تحت مفت بجلی استعمال کرنے والوں کا بل بھی قانون پسند صارفین پر ڈالنا سراسر زیادتی ہے۔

پاور سیکٹر میں درآمدی فیول سے چلنے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز ) سے طویل المدتی معاہدے قومی خزانے اور عوام پر بھاری بوجھ بن چکے۔پاکستان ایک طرف ایک ارب ڈالر کی قسط کیلئے بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے پر مجبور تو دوسری جانب آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدے ہر سال قوم کے اربوں ڈالر نگل رہے ہیں۔ صارفین سے وصول بجلی بلوں میں سے 80 فیصد رقم کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں نکل جاتی ہے۔وزارت توانائی کی دستاویز کے مطابق 10 سال میں آئی پی پیز کو 8 ہزار 344 ارب کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا ہوئے جو موجودہ شرح مبادلہ کے حساب سے 30 ارب مختلف ادوار کے شرح مبادلہ کے حساب سے اوسطاً 84 ارب 83 کروڑ ڈالر سے زائد بنتے ہیں۔ آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے اعداد و شمار 2013 سے 2024 تک کے ہیں۔دستاویز کے مطابق 2013 سے 2024 کے دوران 10 برس میں آئی پی پیز کو 8 ہزار 344 ارب روپے کی کپیسٹی چارجز ادا کیے گئے۔ موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق یہ رقم 30 ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ مختلف ادوار کی اوسط شرح تبادلہ کے تحت 48 ارب 83 کروڑ ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ 10 سال میں آئی پی پیز کو توانائی کی قمیت 9ہزار 342ارب روپے ادا کی گئی۔ دستاویز کے مطابق 2013 میں میں ڈالر ریٹ 95روپے کے حساب سے ایک ارب 94کروڑ ڈالر سے زائد کپیسٹی چارجز دیئے گئے، 2014 میں 98 روپے کی شرح تبادلہ کے مطابق یہ رقم 2ارب 16 کروڑ ڈالر رہی، 2015 میں 100روپے ڈالر کے حساب سے 2ارب 46کروڑ ڈالر جبکہ 2016 کی شرح تبادلہ کے حساب سے 2ارب 61کروڑ ڈالر ادا کیے گئے ۔

سن 2018 میں 125روپے کی شرح تبادلہ کے حساب سے آپی پی پیز نے 3ارب 74کروڑ ڈالر سے زائد بٹور لیے ۔2019 میں ڈالر 152روپے کا ہوا تو 4ارب 22کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑ گئی۔ ڈالر کی قیمت کے ساتھ ساتھ کپیسٹی چارجز بھی بڑھ کر سال 2024 کیلئے 7 ارب 17 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔نیپرا کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 90 آئی پی پیز ہیں اور ہر ماہ جب آپ کا بل آتا ہے تو اس میں کل استعمال کیے گئے یونٹ کے علاوہ انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ چارجز بھی شامل ہوتے ہیں۔

انڈیپنڈنٹ پاورپلانٹس یعنی آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے باعث ہر سال اربوں روپے کی ادائیگی عوام سے وصول کیے گئے بجلی کے بلوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے نیپرا نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے ہیں اور کچھ کمپنیوں کے ساتھ 2057ءتک کے معاہدے کیے گئے ہیں یعنی آئندہ 33 سال تک ان کمپنیوں کو ادائیگیاں جاری رہیں گی۔نیپرا کی ویب سائٹ پر موجود مختلف کمپنیوں کو جاری کیے گئے لائسنس اور معاہدوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔بلیو سٹار انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 8 اگست 2008ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 اکتوبر 2034ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔فرنٹیئر میگا اسٹرکچر اینڈ پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 27 جولائی 2012ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 اکتوبر 2044ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔کے اے پاور لمیٹڈ کو 12 جون 2023ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جولائی 2059ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔کریمی انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 8 جنوری 2014ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جون 2047ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔کے او اے کے پاور لمیٹڈ کو 12 جون 2023ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جولائی 2059ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن بالاکوٹ ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 22 نومبر 2022ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 نومبر 2057ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن گورکن ماٹلٹن ہائیڈل پاور پلانٹ کو 15 ستمبر 2022ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جولائی 2053ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کرورا ہائیڈل پاور پلانٹ کو 24 اکتوبر 2018ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 نومبر 2049ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن دارالخوار ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 19 مئی 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جون 2047ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن جبوری ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 29 اپریل 2020ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 جون 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کوٹو ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 16 اکتوبر 2020ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن لاوی ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 9 فروری 2021ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 31 اکتوبر 2051ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ پختونخوا ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ماچھی ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 27 نومبر 2013ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 اپریل 2044ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔سرحد ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن پیہور ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 26 نومبر 2009ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 نومبر 2039ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن رانولیا ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 27 نومبر 2013ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جون 2024ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پختونخوا ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ریشن ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 4 ستمبر 2013ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 3 ستمبر 2029ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

پختونخوا ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن شیشی ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 4 ستمبر 2013ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 3 ستمبر 2039ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔سیفکو ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 29 اپریل 2020ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 مارچ 2054ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔سفائیر ہائیڈرو لمیٹڈ کو 25 اگست 2021ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 31 دسمبر 2054ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ہائیڈرو پاور پلانٹ کو 23 اگست 2013ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 مارچ 2047ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ڈیوس انرجن پرائیویٹ لمیٹڈ کو 26 فروری 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کےساتھ 29 جون 2040ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ فوجی کبیر والا پاور کمپنی لمیٹڈ کو 26 اگست 2003ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کےساتھ 25 اگست 2029ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔گل احمد انرجی لمیٹڈ کو 26 اگست 2003ءکو 26 فروری 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2029ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 26 اگست 2003ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 10 ستمبر 2029ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔جاپان پاور جنریشن لمیٹڈ کو 11 مئی 2004ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 جون 2033ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔کوہ نور انرجی لمیٹڈ کو 26 اگست 2003ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2027ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ٹی این بی لبرٹی پاور لمیٹڈ کو 26 اگست 2003ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2026ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔روش پاکستان پاور لمیٹڈ کو 28 اگست 2006ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2029ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔صبا پاور کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 26 اگست 2003ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2029ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔سدرن الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کو 11 مئی 2004ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 10 مئی 2033ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

ٹپال انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 9 مارچ 2020ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 19 جون 2029ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔اوچھ پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 8 جون 2022ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 17 اکتوبر 2030 ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

اے ای ایس لال پیر پرائیویٹ لمیٹڈکو 26 اگست 2003ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2027ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔اے ای ایس پاک جنریشن پرائیویٹ کمپنی کو 26 اگست 2003ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2026ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔الٹرن انرجی لمیٹڈ کو 22 ستمبر 2004ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 5 جون 2031ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔الکا پاور پرائیویٹ لمیٹڈ حافظ آباد کو 13 اکتوبر 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جولائی 2042ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔الکا پاور پرائیویٹ لمیٹڈ ساہیوال کو 10 مارچ 2011ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2042ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے ۔بلیو سٹار انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 13 فروری 2018 کو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جون 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔چناب انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 14 اکتوبر 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2042ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔گوگیرا ہائیڈرو پاور کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 31 جولائی 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔لاہور زنگزانگ رینیوایبل انرجی کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 9 اگست 2013ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جنوری 2047ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

منڈی بہاو ¿الدین انرجی لمیٹڈ کو 23 اگست 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 مئی 2051ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔مہر ہائیڈرو پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 27 نومبر 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جون 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔منتہیٰ پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 18 مارچ 2014ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کےساتھ 31 دسمبر 2046ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔اولمپس انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 26 جنوری 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جون 2044ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔اولمپیا ہائیڈرو پاور لمیٹڈ کو 6 اگست 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 جولائی 2043ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کو 30 جون 2015ﺅ لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 27 فروری 2046ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کو 27 جون 2014ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 13 نومبر 2044ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کو 27 جون 2014ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 اکتوبر 2044ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ پنجاب ہائیڈرو پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 6 اگست 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 14 مارچ 2043ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ رسول ہائیڈرو پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 6 اگست 2010ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 24 فروری 2043ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

ٹرائیڈینٹ پاور جی آر پرائیویٹ لمیٹڈ کو 6 ستمبر 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 14 فروری 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ٹرائیڈینٹ پاور جے بی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 5 جنوری 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 14 نومبر 2048ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔انرٹیک کوئٹہ سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کو 30 اگست 2019ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 جون 2045ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔انرٹیک بوستان سولر پرائیویٹ لمیٹڈ کو 17 جنوری 2020ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 جون 2045ء تک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔پی اینڈ جی انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 17 جنوری 2020ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 29 ستمبر 2046ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔چچ پاک پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 13 نومبر 2019ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2052ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔چائنہ پاور حب جنریشن کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 8 ستمبر 2016ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 7 اگست 2043ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 29 ستمبر 2016ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 28 جنوری 2048ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ پنجاب تھرمل پاور پرائیویٹ لمیٹڈکو 15 فروری 2018ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 مارچ 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔صدیق سنز انرجی لمیٹڈ کو 8 اگست 2018ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 31 مئی 2051ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔تھل نووا پاور تھر پرائیویٹ لمیٹڈ کو یکم فروری 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2049ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔تھر انرجی لمیٹڈ کو 7 جون 2017ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 28 فروری 2050ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔قائداعظم تھرمل پاور پرائیویٹ لمیٹڈ کو 2 جون 2016ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2047ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ازغور ہائیڈرو پاور کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈکو 31 دسمبر 2020ءکو لائسنس جاری کیا گیا اور اس کمپنی کے ساتھ 31 دسمبر 2054ءتک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

حقائق کچھ یوں ہیں کہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ڈیمز اور نیوکلیئر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ پاور پلانٹ لگا کر فرنس آئل سے بجلی بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور نجی کمپنیوں کو پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دے کر ا ±ن سے حکومت نے بجلی خریدنے کے ایسے معاہدے کیے جن کا فی یونٹ ریٹ دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی سے تین گ ±نا زیادہ رکھا گیا۔ مزید ستم یہ کہ تمام معاہدے ڈالر میں کیے گئے جس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اول تو سرمایہ کار غیر ملکی ہیں جو بجلی بنانے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے آرہے ہیں۔ دوم، جس فیول سے بجلی بنائی جانی ہے وہ بھی درآمد کرنا ہوگا اِس طرح فیول درآمد کرنے اور منافع کی ادائیگی ڈالر میں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا یہ ایسی واردات تھی جس کی ابتدا میں تو کسی کو سمجھ ہی نہ آئی اِکا د ±کا مخالفانہ آوازیں جو سنائی بھی دیں ا ±نھیں بھی حیلے بہانوں سے خاموش کرا دیا گیا،۔نجی پاور پلانٹس کے معاہدے میں یہ لکھا گیا کہ پاور پلانٹ کی بجلی پیدا کرنے کی جو بھی صلاحیت معاہدے میں لکھی جائے گی اسی کے مطابق حکومت ان پلانٹس کو بجلی کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہوگی، اور یہ پاور پلانٹ کبھی بھی معاہدے میں لکھی ہوئی بجلی پیدا کرنے کی اصل صلاحیت کے مطابق نہیں چلے، لیکن بجلی کی قیمت پوری کی پوری وصول کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بجلی کے گردشی قرضے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

مزیدستم ظریفی یہ ہوئی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ن لیگ اقتدار میں آئی تو ا ±س نے بھی اِن نجی کمپنیوں کو چیرہ دستیوں سے نہ روکا بلکہ ہر حوالے سے سرپرستی شروع کردی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ نجی کمپنیاں سالانہ ایک ہزار ارب سے زائد منافع کما رہی ہیں نیز کوئی پاور پلانٹ بجلی پیدا کرے یا نہ کرے بلکہ اگرکوئی پلانٹ بند بھی رہے تو بھی بجلی پیدا کرنے کی ا ±س کی استطاعت کے مطابق حکومت اسے ادا کرنے کی پابند ہے یہی پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کی وجہ ہے کیونکہ ملک میں اکثر کارخانے بند ہونے سے ہمارے پاس برآمدی سامان کی کمی ہونے سے ضرورت کے مطابق ڈالرنہیں آرہے لیکن نجی پاور کمپنیوں کو ہر صورت ادائیگی ڈالر میں کرنا ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے پر آمادہ نہیں سب اپنے معمولی مالی فائدے کے لیے پوری قوم کو اندھیروں کے حوالے اور دیوالیہ کے قریب پہنچا گئے۔جس طرح بجلی کی پیدا وار کو نجی شعبے میں دیا گیا اسی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بھی آہستہ آہستہ کر کے نجکاری کی بھینٹ چڑھانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔

درحقیقت ہماری تمام حکومتیں بجلی کے مہنگے معاہدوں میں تخفیف نہیں کرا سکیں بلکہ عوام کی جیبیں خالی کرانے کے منصوبوں میں سہولت کارکا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ملک میں مہنگی بجلی کے منصوبوں سے جان چھڑانے کے بے شمار مواقعے ہیں جن سے فائدہ ا ±ٹھا کر عوامی ردِ عمل کی شدت کم کی جا سکتی ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ آئی پی پیز سے ملنے والے مالی مفادات کو چھوڑ کر فیصلے کیے جائیں۔ ملک میں اس وقت عوام میں اشتعال جوبن پر ہے ہر مکتبہ فکر سڑکوں پر ہے، مہنگائی سے تنگ شہری بجلی کے بل دیکھ کر بپھر ے نظر آتے ہیں، عوام کا ایسا شدید ردِ عمل زیادہ حیران کن نہیں۔ شاہراہوں، چوراہوں اورگلی محلوں میں احتجاج جاری ہے تو صورتحال اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف خود کشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوگیا ہے، لیکن اِس بدترین صورتحال کا حکومتی حلقوں کو ادراک ہے؟بظاہر حکومتی صفوں میں اطمینان اور آسودگی دیکھ کر جواب نفی ہی بنتا ہے جسے سنگدلی اور سفاکی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ممکن ہے مہنگائی پر عوام صبرکرلیتے لیکن مہنگی بجلی سے فیکٹریاں اورکارخانے بند ہونے سے روزگار میں کمی آچکی ہے تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا پر بیٹھے دانشور جب بجلی کے موضوع پر بات کرتے ہیں تو وہ صرف اور صرف گردشی قرضوں کے بڑھ جانے کا ذکرکرتے ہیں-

اور ان کو جلد از جلد اتارنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے یہ احکامات جاری کیے ہیں کہ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے تاکہ گردشی قرضوں کی ادائیگی میں تعطل نہ ہو اور ادائیگی مسلسل ہوتی رہے۔ان دانشوروں میں سے کوئی بھی اس مسئلے کی جڑ یعنی سرمایہ داروں کی منافع خوری اور عالمی مالیاتی اداروں کی عوام و مزدور دشمن پالیسیوں پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ بجلی کے بحران کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ مسئلے کو جڑ سے پکڑا جائے۔حکومت کے پاس موقع ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا از سر نو جائزہ لیکر انھیں عوامی مفاد کے مطابق بنائے، اس حوالے سے جتنی تاخیر کی جائے گی وہ عوامی نفرت کی شدت میں اضافے کا سبب بنے گی جس سے ملک مزید سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہوتا جائے گا ۔پاکستان میں مہنگے فیول سے پیدا کی جانے والی بجلی کی اوسطاً لاگت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ بجلی کی 5 تقسیم کار کمپنیوں ڈسکوز میں بجلی چوری، لائن لاسز،کرپشن روکنے اور بقایا جات کی وصولی کیلئے انہیں فوج کے حوالے کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان ڈسکوز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تبدیل کرنے کا قانون بھی قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا ہے اور اب ڈسکوز میں پرائیویٹ سیکٹرز سے پروفیشنلز کو تعینات کیا جائے گا۔ پاکستان میں بجلی کی مجموعی 43400 میگاواٹ پیداوار میں 64.4فیصد بجلی تھرمل (فیوسل فیول)، 26.6 فیصد ہائیڈرو، 4.5 فیصد متبادل توانائی (ہوا، سولر اور بائیو ماسک) اور 4.2 فیصد نیوکلیئر ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔ ہمیں سستی بجلی کیلئے زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنانے ہونگے اور متبادل توانائی سے سستی بجلی پیدا کرکے توانائی کے شعبے میں پاکستان کا مالیاتی رسک محدود کرنا ہوگا جس کیلئے اس شعبے میں فوری اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن