ایٹمی پاکستان 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروض

Atomic Pakistan 84 hazar 907 arab rupy ka maqrooz
  • rahilarehman
  • اگست 17, 2024
  • 2:16 شام

دنیا کی کوئی قوم بھی اس وقت تک حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی معیشت کے معاملے میںخود کفیل نہ ہو۔ بلاشبہ آزادی کی حفاظت کے لیے دفاعی خود کفالت ضروری ہے لیکن معاشی خود مختاری کے بغیر اس کا حصول بھی ممکن نہیں، پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے […]

دنیا کی کوئی قوم بھی اس وقت تک حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی معیشت کے معاملے میںخود کفیل نہ ہو۔ بلاشبہ آزادی کی حفاظت کے لیے دفاعی خود کفالت ضروری ہے لیکن معاشی خود مختاری کے بغیر اس کا حصول بھی ممکن نہیں، پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے لیکن پچھلے کئی برسوں سے معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ایٹمی پاکستان مجموعی طورپر 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروض ہے جبکہ ہرپاکستانی شہری 2 لاکھ 95 ہزار روپے کا قرض دار ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جب مالی سال 2023-24 کا ا قتصادی سروے پیش کیا تھا تب ملک پر مجموعی قرض 67 ہزار 525 ارب روپے تھا۔ جو اب بڑھ کر 84 ہزار 907 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مختلف حکومتوں کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں کی تفصیلات کے مطابق جہاں ملکی قرضوں اور واجبات میں گزشتہ سوا دو سال کے دوران 31 ہزار 363 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ ملکی قرضوں اور واجبات کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ اضافہ شہباز شریف کے دور حکومت میں ہوا۔ گزشتہ اپریل 2022 سے جون 2024 کے دوران سوا دو سال میں ملکی قرضوں اور واجبات میں 31 ہزار 363 ارب روپے کا تاریخی اضافہ ہوا۔ شہباز حکومت کے سابق اور موجودہ ڈیڑھ سال میں قرضوں اور واجبات میں تقریباً 27 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ حالیہ نگراں حکومت کے دور میں قرضوں اور واجبات میں تقریباً ساڑھے 4 ہزار ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔

اس سے قبل جولائی 2018 سے مارچ 2022 کے پی ٹی آئی کے پونے 4 سال کے دور حکومت میں قرضوں اور واجبات کی مد میں 23 ہزار 665 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا اور اس وقت تک قرضوں کی مجموعی تعداد 53 ہزار 544 ارب روپے تھے۔2013 سے 2018 کے دوران مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں قرضوں کے بوجھ میں 15ہزار 561ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا اور اس وقت تک ملک پر قرضوں اور واجبات کی مالیت 29 ہزار 879 ارب روپے تھی۔پرویز مشرف کے 9 سالہ دور میں قرضوں میں 3ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا جبکہ پیپلز پارٹی کے 5 سالہ دور میں قرضوں میں 8ہزار200ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔ ملک پر اب تک قرضوں اور واجبات کی مجموعی تعداد جون 2024 تک ریکارڈ 84 ہزار 907 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان کو وجود میں آئے 77 برس مکمل ہوچکے ہیں ،ان برسوں میں صدرمملکت، وزیر اعظم، آرمی چیف، نگراں وزرائے اعظم اور تمام وزرائے خزانہ، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز سمیت تمام سیاستدان کہتے آرہے ہیں کہ”ہم نے پاکستان کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے“۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ،نااہل اور مفاد پرست حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے سبب پاکستان ترقی وخوشحالی کی بجائے بربادی کی تصویر بن گیا ہے۔ 1947 ءسے 2008 ءتک پاکستان چھ ہزار ارب روپے کا بیرونی قرضوں کا مقروض تھا۔ 2008 ءمیں پاکستان کا ہر شخص پانچ سو روپے کا مقروض تھااور آج 2024 میں ہرپاکستانی شہری 2 لاکھ 95 ہزار روپے کا قرض دارہو چکا ہے۔

Atomic Pakistan 84 hazar 907 arab rupy ka maqrooz

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ملک کو تباہ کرنے کی ذمے دار ہیں، ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دوسرے نے ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا ہے۔ لیکن ذرا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوگا کہ تینوں اس کام میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے پرزور آواز ا ±ٹھائی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا ہے اگر میں وزیر اعظم بنا تو آئی ایم ایف کے منہ پر قرضے دے ماروں گا، قوم نے ان کی بات پر یقین کیا، لیکن وہ آئے وہ بیٹھے اور چلے بھی گئے اور پاکستان کے قیام سے اپنے اقتدار کی تاریخ تک کے ملکی قرضوں سے زیادہ قرض لے کر قوم کو مزید مقروض کرگئے۔ اب ان کو نکالنے وہی لوگ آئے یا لائے گئے جو ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کے ذمے دار تھے۔ تمام حکمرانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے آزاد پاکستان کوعالمی سود خور ادارے آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا ہے۔پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔آئی ایم ایف صرف مالیاتی ادارہ نہیں ہے بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا اہم ترین جزو ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کی معیشت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔مقتدر اشرافیہ اقتدار اور عیش و عشرت کے نشے میں مست ہے، پاکستانی قوم اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس ادا کرکے پاکستان کے قرضے اتار رہی ہیں۔آئی ایم ایف کے موجودہ قرض پروگرام پر عملدر آمد کے نتیجے میں صورتحال بہت سنگین ہوچکی ہے۔ معیشت کے شعبے میں حکمران طبقات کی ناکامی نے پوری قومی زندگی کو تباہ کردیا ہے۔ اب تک جو شرائط عاید کی گئی ہیں ان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اتنا اضافہ ہوچکا ہے معاشرے میںخود کشی کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ معاشی بحران نے عوام کو جس عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔کروڑوں نوجوان بے روز گار ہیں۔ قرضوں میں ڈوبے ایٹمی پاکستان کی معاشی حالت بہت ہی خراب ہے ۔

پاکستان کی معیشت کی تباہی کے اسباب کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت کی تباہی کے ذمہ دار وہ سارے حکمران ہیں جنہوں نے اپنے محلات تو کھڑے کرلیے لیکن شہریوں کو صاف پانی پینے کا پانی بھی فراہم نہیں کیا۔اب وہی پرانے حکمران چند سیاسی خانوادے ملک پر مستقل حکمرانی کرنے والی سول و خاکی افسر شاہی پر مشتمل حکمران اشرافیہ نئے نعروں کے ساتھ ایک بار پھر قوم کو دھوکا دینے کیلئے اقتدار میں آگئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوام کے سامنے یہ حقیقت بھی بے نقاب ہوگئی ہے کہ حکومتیں کیسے بنتی اور بگڑتی ہیں۔ ایک طرف پاکستانی معیشت تباہ حال ہے تو دوسری طرف صدر مملکت، وزیر اعظم آفس، گورنر اور صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے دفتروں کے سالانہ شاہانہ اخراجات ملک کے تعلیمی اور صحت کے بجٹ سے زیادہ ہیں۔ اس وقت ملک میں سرکاری اہلکاروں کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن کی قیمت کھربوں میں ہے اور یہ گاڑیاں سالانہ پٹرول اور مرمت کی مد میں اربوں روپے خرچ کرتی ہیں، جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ امریکا جیسے امیر اور طاقتور ملک میں ماسوائے چند اداروں کے کسی کے پاس سرکاری گاڑی نہیں ہوتی، یہی حال دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ پاکستان بھر کے محنت کش عوام کی آمدن ایک طرف رکھیں اور دوسری طرف اس افسر شاہی کی مراعات تو محنت کش طبقے کی آمدن اس کا دس فیصد بھی نہیں بنتی۔ اتنی مراعات کے باوجود یہ رشوت لینا اپنا قانونی حق تصورکرتے ہیں ، کسی بھی ادارے میں بغیر رشوت کے عوام کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس ملک کا مراعات یافتہ طبقہ اس کی تباہی کا ذریعہ بن رہا ہے۔یہاں جس کو سب سے زیادہ تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں وہ سب سے زیادہ کرپشن اور استحصال کرتا ہے اور جس کو جتنا اختیار دیا جاتا وہ اس کو اپنے ذاتی فائدے یا کسی اور کے فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے۔اس لیے یہاں قانون کی پاسداری کہیں نظر نہیں آتی۔ حکومت اس قدر بے بس و لاچار ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ عمومی طور پر آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ عوام الناس کے کمزورکاندھوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔

اس صورتحال پر اکثر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ نازک ملکی معیشت کی وجہ سے حکومت کو جو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، ان کا بوجھ غریب آدمی پر ڈالنے کے بجائے اشرافیہ اور حکمران طبقے پر منتقل ہونا چاہیے۔ یہ بات قابل جواز ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام الناس کو توکفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے، لیکن وزیروں، مشیروں، سرکاری افسروں اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کی مراعات اور سہولیات اسی طرح جاری رہتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ صورتحال عام آدمی کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ عام شہری اپنے آپ کو قربانی کا بکرا محسوس کرنے لگتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی شہر میں سرکاری گاڑیوں کو سرکاری افسروں کی بیگمات، بچوں اور رشتے داروں کو بے دریغ استعمال کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ہفتے اور اتوارکو چھٹی ہوتی ہے اس دن بھی یہ ساری گاڑیاں آپ کو مارکیٹوں اور دیگر جگہوں پر اس اشرافیہ کی خدمت میں ملیں گی۔سرکاری افسران اور وزراءاپنے گاڑی کے شیشے کالے کروا سکتے ہیں،کلاشنکوف بردار رکھ سکتے ہیں، عدالت سے سزا پانے کے بعد بھی اپنے ہی گھر پر رہ سکتے ہیں۔ کسی بھی شہر میں جائیں تو اس شہر کی پولیس شاہراہیں خالی کر کے سیکڑوں کی تعداد میں جلوس کی شکل میں پروٹوکولز دیتی نظر آتی ہے اور جو شہری پورا پورا ٹیکس دے اسے کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں ہے۔یوں بھی حکومتی وزیروں، سرکاری افسران اور اراکین پارلیمان کا پروٹوکول اکثر و بیشتر میڈیا پر زیر بحث رہتا ہے۔

ایک وزیر یا افسر کے پیچھے درجنوں گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے ،پولیس کی گاڑیاں بھی اس قافلے میں شامل ہوتی ہیں۔ اس طرح سیکڑوں لیٹر پٹرول ضایع ہوتا ہے۔ پولیس جسے امن عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کی ذمے داری نبھانی ہوتی ہے، وہ اس کے بجائے حکومتی اراکین اور افسران کے پروٹوکول کی ذمے داری نبھانے میں مصروف رہتی ہے۔ ٹی وی پر ایسے مناظر دیکھ کر عام آدمی کا دل جلتا ہے،اگر ایک عام پاکستانی محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکتا ہے تو یہ لوگ بھی اپنی ماہانہ تنخواہ پرگزر اوقات کرنا سیکھیںا۔ن کے دفتروں کے ایئر کنڈیشن ہر وقت چلتے ہیں۔پتہ ہے بل انھوں نے ادا نہیں کرنا، سرکاری گاڑیاں ان کے ذاتی استعمال کے ساتھ ساتھ ان کے اہل و عیال کے زیر استعمال بھی رہتی ہیں، ان کے گھرکی سبزی تک سرکاری گاڑی میں آتی ہے، کیونکہ غریب عوام کے خون پسینہ سے ان کی گاڑیوں میں ایندھن ڈالا جاتا ہے۔ ان تمام قربانیوں کے باوجود عوام پریشان رہتے ہیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے حکومت اشیاءپر سبسڈی نہیں دے سکتی۔ غربت اور مہنگائی ایک حقیقت ہیں، حکومت قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے اپنے اخراجات میں کمی کرے۔ اس بدترین مہنگائی کے دور میں بیس تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا عام آدمی یہ اخراجات اپنی جیب سے پورے کرنے پر مجبور ہے، جس کیلئے ان حالات میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ترین ہو چکا ہے۔ جب عام آدمی بجلی، گیس اور پٹرول کے اخراجات اپنی جیب سے پورے کر سکتا ہے تو لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے سرکاری افسران کیوں نہیں کر سکتے؟ ۔

اشرافیہ قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ بھوک اور افلاس کے سائے میں رہنے والے کروڑوں پاکستانی، اشرافیہ کی مفاد پرستی اور بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ قدرت کی بے پناہ مہربانیوں اور تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود وطن عزیز کی معاشی حالت ایک فقیر کی سی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد صرف یہ رہ گیا کہ کہیں سے امداد یا قرض حاصل کیا جا سکے،قرض حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے ۔بہت سے ملکوں نے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد اور تعاون سے ترقی کی منزل حاصل کی ہے، پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرض حاصل کیے ، انھیں ایمانداری سے خرچ کرنے کے بجائے اس قرض سے مخصوص اشرافیہ کو فوائد دیے جائیں۔ ملک میں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر سے امیر تر ہوا ہے ، جبکہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نان جویں سے محروم ہے۔ مڈل کلاس کو کسی بھی ملک میں ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ٹیکسز، سوشل پریشر اور مسائل مڈل کلاس کو دیکھنا پڑتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ درمیانے طبقے کو پاکستان میں مستحکم ہونے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ 2008 تک پاکستان کا ہر شہری 500 روپے کا مقروض تھا، آج 2024 میں پاکستان کا ہر شہری 2لاکھ 80ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پارہی ہے۔ قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں۔ حکمران طبقات ان پر سوار ہو کر حکومت کرتے ہیں اور قرض لیتے ہیں۔

قرض لے کر اگر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جن سے ملکی صنعت، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی ہو تو ملک آگے بڑھتا ہے۔ جی ڈی پی کی گروتھ سے قرض کا حجم خود بخود کم ہو جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کا 90 فیصد قرض غیر ترقیاتی کاموں میں لگایا گیا۔ پاکستان قرضوں کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے اور صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قرضوں پر سود کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں،اگر کسی ملک کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینے پڑیں تو اس ملک کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے ،قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری سے ہی محروم ہو چکا ہے اور انگریزوں کا بنایا ہوا نوآبادیاتی نظام بھی بدلنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ایک جانب قرضے بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے-قرضے لے کر وی آئی پی کلچر کو جاری رکھا جا رہا ہے۔غیر معمولی قرضوں کا تقاضا یہ کہ حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی کی جائے ۔قرضوں کی منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے، ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا جائے جو مکمل اور شفاف تحقیقات کرے کہ قرضے کیوں لیے گئے اور ان کو کہاں خرچ کیا گیا اور پاکستان قرضوں کی معیشت سے کیسے نجات حاصل کر سکتا ہے۔جب تک پاکستان قرضوں کی دلدل سے باہر نہیں نکلے گا کسی صورت معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکے گا-پاکستان میں قرضوں کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے حکمران اشرافیہ ٹیکس بھی نہیں دیتی اور غریبوں کے ٹیکس اور قرضوں پر عیش و عشرت کرتی ہے۔پاکستان میں اگر آئین اور قانون کی حکمرانی نافذ کر دی جائے تو پاکستان کے تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں،عوام کو گڈ گورننس حاصل ہو سکتی ہے اور قانون کے خوف سے امیر طبقات ٹیکس دینے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔پاکستان کی المناک کہانی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک جانب قرضے بڑھتے جارہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات بھی بڑھتے جا رہے ہیں،وی آئی پی کلچر آج تک ختم نہیں ہو سکا۔

Atomic Pakistan 84 hazar 907 arab rupy ka maqrooz

 

ملک معاشی اور معاشرتی و اخلاقی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان پر حکومت کرنے والے طبقوں نے زراعت اور کسانوں کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بیرون ملک سے زرعی اجناس درآمد کرنے کی پالیسی اختیار کر کے پاکستان کی زراعت کو تباہی کا شکار کر دیا جبکہ امپورٹرز کا مراعات یافتہ طبقہ پیدا کر دیا۔اب ارب پتی امپورٹرز اتنے با اثر ہو چکے ہیں کہ زراعت اور کسان ان کے ہاتھوںیرغمال بن چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران حقائق کو سمجھتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات ذاتی ،خاندانی اور گروہی مفادات کے گرد گھومتی ہیں،ان کی ترجیحات میں پاکستان کے عام لوگوں کی ترقی کا کوئی پہلو شامل نہیں ہے۔ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ شوگر ملز موجود ہیں ،گنے کی پیداوار وافر ہے ،لیکن اس کے باوجود پرچون کی سطح پر چینی کی قیمت مہنگی ہے ،یہی نہیں بلکہ چینی درآمد بھی کی جاتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی چینی وافر ہونے کی بنیاد پر ایکسپورٹ کر دی جاتی ہے یہ سب کچھ حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔چینی برآمد کرنی ہو یا درآمد کرنی ہو ،اس کی منظوری حکومت ہی دیتی ہے۔پاکستان کی گندم ،پاکستانی آٹا ،چینی پورے افغانستان کے بازاروں میں عام فروخت ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں گندم اور آٹے کی نہ صرف قلت رہتی ہے بلکہ اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے اس حق کو کون کھا رہا ہے اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری ہے تاکہ خیبرپختونخوا کے عام آدمی کو بھی معلوم ہو سکے کہ افغانستان کی طرف اسمگل ہونے والی گندم ،دراصل پورے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے۔ افغانستان میں پاکستانی گندم کیسے اسمگل ہوتی ہے اس کے بارے میں کسٹمز حکام ،بارڈرز سیکیورٹی حکام اور محکمہ خوراک اور پاسکو کے حکام یقیناً جانتے ہوں گے۔

پاکستان میں دیگر معاملات کو دیکھا جائے تو ریاست نے اپنے آپ کو بتدریج اپنے ذمے عائد فرائض اور ڈیوٹیز سے الگ کرنا شروع کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ریاست پر اپنے عوام کے حوالے سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اس سے تقریباً آزاد ہو چکی ہے۔ آج ریاست صرف اپنے حق اور استحقاق کے نظام پر کھڑی ہے۔ شعبہ تعلیم کو دیکھ لیں ۔اسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی تعداد کو فلاحی تنظیموں اور ٹرسٹ وغیرہ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور حکومت خود اپنی ذمے داری سے آزاد ہو چکی ہے۔ بہت کم اسکول ایسے ہیں جو حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے اپنی مرضی کا یونیفارم اختیار کرتے ہیں ،مرضی کا سلیبس پڑھاتے ہیں اور اپنی مرضی سے فیسوں کا تعین کرتے ہیں۔ صحت کی طرف دیکھیں تو یہاں بھی ریاست و حکومت نے اپنی ذمے داریوں کو بہت محدود کر لیا ہے جبکہ نجی اداروں میں بڑے بڑے اسپتال قائم ہو گئے ہیں ،سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،حکومت جتنے مرضی دعوے کرتی رہے لیکن زمینی حقیقت کا جائزہ لینا ہو تو سرکاری اسپتالوں کا وزٹ کر لیا جائے۔اسی طرح ٹیسٹ لیبارٹریز کے حوالے سے بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بہت سے ٹیسٹ کیے ہی نہیں جاتے ‘ جن کے کیے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مشینیں خراب رہتی ہیں ‘ اس لیے عوام کی 90فیصد تعداد میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے لیے نجی لیبارٹریز اور مختلف فلاحی و خیراتی اداروں کی قائم کردہ لیبارٹریز کا رخ کرتی ہے۔ فلاحی اور خیراتی اداروں کے نام پر قائم لیبارٹریز میں بھی طبقاتی تقسیم ہے۔ کچھ لیبارٹریز کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں ،اس کے بارے میں بھی حکومت مکمل خاموش ہے۔ حکومت نے آج تک میڈیکل ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کے ریٹ مقرر نہیں کیے۔یہ ہولناک حقائق ہیں، جن سے نظریں نہیں موڑی جا سکتیں۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ اب بھی گزشتہ غلطیوں اور خامیوں سے سبق سیکھ کر عالمی سود خور ادارے آئی ایم ایف کے قرض سے نجات حاصل کرتے ہوئے خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

پاکستان اللہ رب العزت کا عظیم تحفہ ہے اور بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی زمینیں سونا ا ±گلتی ہیں۔ ملک کے طول و عرض کی زمینوں میں قیمتی دھاتوں کے خزینے پوشیدہ ہیں۔ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن کی دریافت آئے روز ہوتی رہتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرض لے کر نظام مملکت چلانے کی روش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کرنے کا عزم مصمم کیا جائے اور اس پر سختی سے کاربند ہوا جائے۔ اس کے بجائے وسائل پر انحصار کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔ ملک قدرت کے حسین نظاروں سے مالا مال ہے۔ سیاحوں کے لیے خاصی دلچسپی اور کشش رکھتا ہے۔ سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ قدرتی وسائل کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے۔زراعت اورآئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جائے۔ملکی وسائل کو اگر درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو قرضوں کے حصول کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اگر ملک کووسائل پر انحصار کی پالیسی پر گامزن کیا جائے توچند سال میں قرضوں کا بوجھ بھی اتر جائے گا اور وسائل کے درست استعمال کی بدولت ملک و قوم بھی ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن