تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

نفسیاتی امراض اور معاشرہ !!!

nafsiyati-amraaz-aur-muashra
  • واضح رہے
  • جون 28, 2022
  • 3:28 شام

آپ کبھی نفسیاتی مریض سے بات کریں تو زیادہ تر کیسز میں مریض اپنے پیاروں کے برے رویے کی شکایت کرتا نظر آئے گا

ہمارے ملک میں نفسیاتی امراض کے تناسب میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے, لیکن معاشرہ ابھی تک اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی امراض کا عام مطلب پاگل پن یا اس سے متعلقہ امراض لیے جاتے ہیں۔

ہم ابتدا میں یہ بات ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے کہ جسم کی طرح ذہن بھی بیمار ہو سکتا ہے اور اس کو دوا، تبدیلِ آب و ہوا اور سکون کی ضرورت ہوسکتی ہیں، مگر جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو ہم بادل نخواستہ اور نیم دلی سے اسے قبول کرلیتے ہیں لیکن بیمار کو ہی بیماری کیلئے موردِ الزام ٹھہراتے ہے۔

من حیث ُالقوم نفسیاتی امراض کیلئے ہمارا یہ رویہ کیوں ہے؟ وجہ بہت تلخ اور کڑوی ہے اور شاید بہت سے لوگوں کیلئے قابلِ قبول بھی نہ ہوں وہ یہ ہے کہ انتہائی قریبی رشتہ دار، جاننے والے، عزیز اور گھر والے اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

آپ کبھی نفسیاتی مرض میں مبتلا کسی فرد سے بات کرکے دیکھئے اور اُس سے اُس کے مرض کی وجوہات کے بارے میں دریافت کیجئے تو سب سے پہلے وہ اپنے خودساختہ پیاروں کے رویے کی شکایات کا انبار لگا دے گا اور تمام گفتگو کا لبِ لباب یہ ہوگا کہ میرے اپنوں نے مجھے تنہا کردیا یا تنہا چھوڑ دیا، یعنی یہ مرض اپنے ہی اپنوں کو دیتے ہیں۔

یقین نہ آئے تو ماضیِ قریب میں مشہور شخصیات کی طبعی، غیر طبعی اور مشکوک حالات میں اموات کو دیکھ لیجئے، یقین آجائے گا اور اگر حتمی یقین چاہتے ہوں تو اُن کی آخری ویڈیو یا آخری دنوں کے پیغامات دیکھ لیجئے قاتل اور مقتول دونوں نظر آجائیں گے لیکن اگر آپ کے ہاتھ میں ترازو اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو پھر آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا چاہے دن میں دیکھئے یا رات کے اندھیرے میں۔

سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہوتا ہے کہ قتل یا انتقال کے بعد سب سے زیادہ ’’تماشہ‘‘ میرا مطلب ہے کہ ظاہری افسوس کا اظہار بھی یہی لوگ کرتے ہیں، تاکہ لوگ کہیں قاتل نہ ڈھونڈ لے۔ انسان فطرتاً انتہائی خودغرض ہے اور اب جیسے جیسے وسائل میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے ویسے ویسے چھینا جھپٹی بڑھ رہی ہے اور ہر گزرتے دن اس میں اضافہ ہی ہوگا۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے تمام رحجانات، زمینی حقائق والے اقدار اور ذرائع ابلاغ اس میں اضافے کا ہی باعث بن رہے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک مادی وسائل اور آسودگی کا حصول ہی عقلمندی ہے چاہے وہ اپنوں کی لاشوں کی قیمت پر ہی کیوں نہ حاصل کی ہوں۔

اس پہلے کہ پورا معاشرہ پاگل ہو، آدھے غلط طریقے سے اپنے حقوق کھو کر اور باقی آدھے دوسروں کے حقوق غصب کرکے، ہم چاہیں تو مل کر اس کا سدباب کر سکتے ہیں اگر ہم اس کو مسئلہ سمجھتے ہیں ورنہ درسی کتاب میں پڑھی کہانی عملی شکل میں ہمارے سامنے ہوگی۔

اس میں ایک شخص جس شاخ پر بیٹھا تھا اُسی کو کاٹ رہا تھا، میری طرح آپ سب نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ بھلا ایسا بیوقوف کوئی ہوسکتا ہے تو تسلی کر لیجئے کہ ایسا بیوقوف یہاں صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر ہے اور اُسے پاکستانی قوم کہتے ہیں۔

تحریر: سہیل یعقوب

جنرل سیکریٹری، پاکستان قومی اتحاد (PQI)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے