ان کے ساتھ ایک چھوٹی بچی ایڈمٹ تھی، جس کے دونوں گردے فیل ہو گئے تھے۔ یہ ایک افغان ارب پتی بزنس مین کی بچی تھی۔ یہ عقدہ بہت بعد میں کھلا کہ ”حاجی صاحب“ پڑوسی ملک کا بزنس ٹائیکون ہے اور بزنس ڈرگس (منشیات) کا فرماتے ہیں۔
کچھ عرصے بعد اس بچی کا انتقال ہو گیا۔ لیکن اس دوران اس کے بھائی سے تقریباً دوستی ہوگئی تھی۔ ان لوگوں کا کوئٹہ میں بھی ایک گھر بلکہ محل ہے۔ ان کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس بچی کی پیدائش پر والد نے 18 اونٹ ذبح کئے تھے اور لاش لے جانے کیلئے گاڑیوں کا پورا قافلہ تھا۔
ہمارا ایک ساتھی بھی واپسی میں ان کے ساتھ افغانستان روانہ ہوا۔ اس نے واپسی میں ان کے اثرو رسوخ اور دولت و ثروت کی ناقابل یقین دیومالائی داستان خیر سنائی۔ بہرحال ہم بات آج بلیک ڈالر کی کرتے ہیں۔
اس افغان تاجر کا ایک بھائی صوبائی گورنر ہے۔ (صوبے کا نام یاد نہیں رہا) ان کے یہاں ایک پورا کمرہ ڈالروں سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن یہ ڈالر ہیں بلیک۔ مطلب بلیک منی نہیں، بلکہ رنگ کالا ہے! تفصیل اس کی یوں ہے کہ امریکی قبضے کے دوران افغانستان میں ڈالروں کی بارش برس رہی تھی۔
چچا سام نے تو ویسے بھی تجوریوں کے منہ کھول رکھے تھے اور دیگر ممالک بھی ڈالر برسا رہے تھے۔ ایسا ہی ڈالروں سے بھرا ہوا ایک ٹرک کابل ایئر پورٹ سے نکل کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
اس وقت امریکی اموال کو غنیمت بنانے کا سلسلہ عروج پر تھا اور یہ اسٹوڈنٹس کا گویا محبوب مشغلہ تھا۔ تو یہ ٹرک بھی ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور ٹرک بھی تھا، جس میں بوتلوں میں کوئی خاص لیکوڈ مواد بھرا ہوا تھا۔ طلبہ نے دونوں کو قبضے میں لے لیا۔
پہلے ٹرک کو چیک کیا تو ڈالروں سے بھرا ہوا تھا، جبکہ دوسرے میں موجود کیمیکل کی بوتلوں کو شراب سمجھ طلبہ نے ضائع کر دیا۔ حالانکہ یہ ایس ایس ڈی کیمیکل تھا، جس سے بلیک ڈالروں کو صاف کیا جاتا ہے۔
امریکا بہت عیار ہے۔ ڈالر کے نوٹ جب تیار ہوتے ہیں تو ان پر کالا رنگ لگایا جاتا ہے اور یہ رنگ دنیا کے کسی بھی کیمیکل سے نہیں ہٹتا، سوائے مذکورہ کیمیکل کے۔
اسٹوڈنٹس نے جسے شراب سمجھ کر گرایا تھا، یہ وہی کیمیکل تھا۔ اب اربوں ڈالرز اسٹوڈنٹس کے ہاتھ تو لگے، لیکن سارے بلیک تھے۔ جو ان کے کسی کام کے نہیں تھے۔
مذکورہ بالا حاجی صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے طلبہ سے وہ بلیک ڈالر خرید لئے اس امید پر کہ وہ کہیں نہ کہیں سے اس کیمیکل کا انتظام کریں گے۔ اب اربوں ڈالر ان کے پاس موجود لیکن کیمیکل ندارد۔ حاجی صاحب نے مگر ہار نہیں مانی۔
دولت تو ویسے بھی ان کے پاس بے پناہ تھی۔ انہوں نے دنیا جہاں سے رابطے کئے۔ دو دفعہ افریقی براعظم کا چکر لگایا، مگر یہ کیمیکل کہیں نہیں مل سکا۔ یہ صرف امریکی حکومت کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ ایک پاوڈر سے بھی یہ کالا رنگ ہٹایا جاسکتا ہے، وہ بھی خفیہ امریکی ہاتھوں میں ہے۔
اس دوران ایک تنزانیہ سے ایک سیاہ فام بوتل میں تھوڑا سا مذکورہ کیمیکل لے کر حاجی صاب کی بیٹھک میں وارد ہوا۔ ان سے ڈالر منگوائے اور ہاتھوں ہاتھ چند نوٹ صاف کر کے دے دیئے۔
حاجی صاحب خوشی میں اچھل پڑے اور دیوانہ وار کالے ماتھے کا بوسہ دینے لگے۔ کالے نے کہا کہ ان سارے نوٹوں کو صاف کرنے کیلئے کیمیکل میں چوبیس کروڑ روپے میں فراہم کروں گا۔ حاجی صاحب نے بلا سوچے سمجھے پیسے اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ مگر وہ سیاہ فام آج تک واپس نہیں لوٹا۔ یہ غالباً 2010 یا 2011ء کی بات ہے۔ اب شاید یہ کیمیکل دستیاب ہو۔ حقیقت خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ (برسوں بعد آج اسٹوڈنٹس سے متعلق ایک خبر پڑھ کر یہ پرانا قصہ یاد آیا تو قلمبند کیا)
تحریر: ضیاء چترالی