تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

سندھ میں ایچ آئی وی وائرس! ذمہ دار کون۔

hiv aids
  • محمود مولوی
  • مئی 7, 2019
  • 10:37 شام

معاشرے میں پھیلی بہت سی بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو صرف لوگوں کی صحت کیلئے ہی نہیں بلکہ ملک کی نیک نامی کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہوتی ہیں۔

یہ بیماریاں ملک گیر وباء بن کر پھیلنے میں جنگل میں آگ کی طرح کام کرتی ہیں، اور ان میں سے کچھ بیماریاں تو ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے بہتر علاج کیلئے نہ تو کوئی ادویات مارکیٹ میں موجود ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا مدافعتی انجیکشن موجود ہوتا ہے، کچھ عرصہ قبل نجی نیوز چینل پر ایک خبر نشر ہوئی ہے کہ جھنگ کے ایک اسپتال میں مختلف ٹیسٹوں کی آڑ میں بیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس اسپتال میں ٹیسٹ کیلئے استعمال شدہ ایکوئپمنٹ دوبارہ استعمال ہوتے ہیں، جبکہ صوبہ سندھ میں کیبات کی جائے تو اخبارات اور نیوز چینلوں پر ہم روزانہ کے حساب سے ہی ایسی خبریں پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔

اسی طرح سڑک کنارے بیٹھے حجام بھی بیماریاں پھیلانے میں اپنا بھرپور کردارادا کررہے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک ہی بلیڈ کو کئی کئی افراد پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر سڑک کنارے بیٹھے ان حجاموں کے پاس جہاں غریب اور مزدور طبقہ آکر بیٹھتا ہے وہاں بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی جب سیلونوں کا خرچہ نہیں اٹھا پاتے تو ان ہی حجاموں کی طرف رخ کرتے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ ان غریب حجاموں کو اپنے روزگار سے اٹھا دیا جائے بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان حجاموں کو ایک ہی بلیڈ سے کئی گاہکوں کی حجامت بنانے سے روکا جائے اور انہیں صفائی کا خیال رکھنے کا پابند بنایا جائے۔ جبکہ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے پانی سے سبزیوں کی کاشت، گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں اور جا بجا پھیلے کچرے کے باعث بھی تیزی سے مختلف بیماریاں سامنے آرہی ہیں، جن میں سے بعض بیماریوں کی تشخیص بہت سے ڈاکٹرز بھی کر پاتے ہیں اور کسی دوسرے مقام پر مریض کو علاج کروانے کا مشورہ دیدیتے ہیں۔

اب ہم زرا صوبہ سندھ کا رخ کرتے ہیں جہاں ہیضہ، جلدی بیماریاں اور پیٹ کے مختلف امراض کا پکا ڈیرہ لگا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آئے روز درجنوں پھول سے بچے غذائی قلت اور بہتر نشو نما نہ ہونے کے باعث کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں، یہ اندرون سندھ کے وہ لوگ ہیں جہاں پر کوئی گھر شاید ہی ایسا ہو جس کا بچہ کسی نہ کسی بیماری یا پھر غذائی قلت کا شکار نہ ہو۔ یہاں کے بہت سے اسپتال اور صحت کے مراکز ایسے بھی ہیں جو مقامی وڈیروں کی اوطاقوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، یا پھر ان جگہوں پر گدھے اور گھوڑے باندھ رکھے ہوتے ہیں۔ اگر کسی ضلع میں اسپتال موجود بھی ہوتا ہے تو ان طبی مراکز میں ڈاکٹرز ہی موجود نہیں ہوتے۔ اگر ڈاکٹر ہو تو نرسز اسٹاف یا دیگر میڈیکل عملہ موجود نہیں ہوتا اور ایسے اسپتالوں میں ایمبولینس تک موجود نہیں ہوتی۔ لوگ اپنے مریضوں کو گدھا گاڑیوں اور چنگ چی رکشوں میں لاتے کے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک ایک بستر پر کئی کئی بیمار بچے اور بڑے لیٹے ہوتے ہیں اور اگر کسی مریض کو جگہ نہیں ملتی تو وہ اسپتال کے فرش پر ہی لیٹ جاتے ہیں۔

ایسی خبریں روزانہ سننے کو ملتی ہیں کہ اندرون سندھ میں بہت سی مائیں تو اپنے بچے بھی اسپتالوں کے گیٹ پر ہی جنم دہتی ہیں، یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ مگر یہ شرم کسی لکھنے والے یا پڑھنے والے کے بجائے جب تک ان حکام بالا کو نہیں آجاتی جو سالانہ اربوں روپے کا بجٹ صحت اور صفائی کے نام پر منظور کرا لیتے ہیں، تب تک صوبائی طبی مراکز کی حالت زار نہیں بدلے گی، کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ اربوں روپے کہاں جاتے ہیں۔

اب ہم سندھ میں حالیہ دنوں میں آنے والی ایک ایسی نامراد بیماری کا ذکر کرتے ہیں جس کا نام ایڈز ہے، جس سے پاکستان کے عوام کو ہی نہیں بلکہ اس کے گرین پاسپورٹ کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہوں گے کہ ایچ آئی وی ایک ایسا وائرس ہے جسے اگر بروقت کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ ایک نہایت ہی مہلک مرض ایڈز میں تبدیل ہو جاتا ہے، لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو میں جب 16 بچوں کے خون کے نمونے ایچ آئی وی کی تشخیص کیلئے لیبارٹری میں لائے گئے تو ان میں سے 13 بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی اور حیرت انگیز طور پر ان بچوں کی عمریں 4 ماہ سے 8 برس تک بتائی جاتی ہیں۔ سندھ کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے ایچ آئی وی کے ڈاکٹر کے مطابق سندھ بھر میں تیزی سے پھیلنے والا یہ مرض اندازاً ایک لاکھ سے زائد لوگوں میں موجود ہے اور اس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس ڈسٹرکٹ ہیلتھ

افسر نے میڈیا کے سامنے ایڈز پھیلنے کی وجہ ایک ہی سرنج یا میڈیکل آلات کے استعمال کو قرار دیا۔
سندھ میں ایڈز کی وباء کے بعد بننے والی جے آئی ٹی نے مبینہ طورپر ایچ آئی وی پھیلانے کے جرم میں گرفتار ڈاکٹرسے تحقیقات کا آغاز کیا ہوا ہے، اس پر کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ وباء گرفتار ڈاکٹر نے انتقاماً پھیلائی ہے، ممکن ہے یہ بات درست ہو مگر اس قدر تیزی سے سندھ بھر میں ایڈز کا پھیلنا کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک مخصوص گروپ یا مافیا کی کارستانی ضرور ہوسکتی ہے یا پھر اسے محکمہ صحت کی غفلت کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ امر نہاہت افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 23 ہزار بتائی جاتی ہے۔ جبکہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ایسے مریضوں کی تعداد 165000 ہے یعنی ان میں سے صرف 23775 لوگ ایسے ہیں جو متعلقہ سینٹرز میں اپنی بیماری کی رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ باقی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بیماری میں مبتلا ہیں اور اپنا علاج کرائے بغیر اپنے ارد گرد کے لوگوں کیلئے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ ایسے مریضوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جو انجیکشن کے ذریعے ڈرگ لینے سے اس مرض میں مبتلا ہوئے جن کے علاج کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس تیزی سے یہ مرض بڑھ رہا ہے اس میں سندھ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہی اس مرض کے بچاؤ کے سینٹرز کا بننا بہت ضروری ہے۔ جبکہ پورے ملک میں اس وقت 35 سینٹرز موجود ہیں جو کہ مریضوں کی تعداد کے مطابق بہت کم ہیں۔ وقتی طور ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ایشو کے میڈیا میں آنے کے بعد حکومت حرکت میں آجاتی ہے اور ارد گرد کے کچھ اضلاع میں بیٹھے اتائی ڈاکٹروں کے کلینک سیل کر دئیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ غیر معیاری لیبارٹریز پر بھی تالے لگ جاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ وقتی ہوتا ہے۔

اس کے بعد جیسے ہی کوئی نیا ایشو چلتا ہے یہ لوگ سب کچھ بھول کر پھر سے ان گھناؤنے جرائم میں لگ جاتے ہیں اور اس طرح عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کے سب ہی اپنے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہیں۔ اس ساری صورتحال میں حکومت اور متعلقہ انتظامیہ ہی سب سے بڑی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تمام تر وسائل اور اختئارات ہونے کے باوجود اگر عوام بدحال ہے، زیادتیوں کا شکار ہے اور انصاف کیلئے پریس کلبوں کے باہر کھڑی ہوکر خود پر اور اپنے بچوں پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگارہی ہے تو اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان پر مسلط حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

معاملہ صحت کا ہو، تعلیم کا ہو اور دیگر بنیادی نوعیت کے مسائل کا صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی اور انتطامیہ کی نا اہلی پر ہی تنقید کی جاسکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ میں عوام سے ہونے والی زیادتیوں کا الزام کس کو دیا جائے۔ سندھ میں صحت و صفائی کی ناقص صورتحال کا ذمہ دار آخر کس کو ٹہرایا جائے۔ ایچ آئی وی پھیلنے کی خبریں صرف پاکستان میں ہی نہیں دکھائی جا رہی ہیں بلکہ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے، بیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ کہیں یہ ایچ آئی وی کے وائرس کے ساتھ تو دوسرے ملک میں داخل نہیں ہو رہے۔ اس طرح بہت ممالک پاکستانیوں پر یہ شرائط بھی لگا سکتے ہیں کہ ان کے ممالک میں آنے سے پہلے ان کے پاس ایچ آئی وی کا ٹیسٹ ہونا بہت ضروری ہے، لہذا ہمیں ایک لمحے کیلئے سوچنا ہوگا کہ صوبائی حکومت کی یہ لاپرواہی ہمیں کہاں لے کر جارہی ہے۔

محمود مولوی

محمود مولوی