رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مبارک مہینہ ہے یہ وہ ماہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں ہر نیک عمل کا ثواب دس گناہ بڑھا دیا جاتاہے۔ ایک طرف دنیاوی کاروبار کے اعتبار سے رمضان بہت اہم ہوتا ہے اور مخصوص کاروباری احداف حاصل کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف عطاعت ِخداوندی کی عبادات کے حوالے سے رمضان کی اہمیت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ یہ وہ ماہ مبارک ہے کہ جس میں ہر شخص کو اسکے کاروبار سے فائدہ ہی ہوتا ہے اب وہ نا شکری کا مرتکب ہو تو یہ اور بات ہے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردئے گئے ہیں جسطرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہوجاؤ (البقرہ ۳۸۱)۔ اللہ رب العزت اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم متقی ہوجائیں تاکہ وہ ہمیں جنت میں اعلی مقام دے سکے۔
ماہ رمضان تربیت کا مہینہ ہے۔ حقیقت میں رمضان کا مہینہ دیگر مہینوں میں جانے انجانے سرزد ہونے والی کوتاہیوں اور گناہوں سے نجات مانگنے کا ہے، رمضان وہ ماہ مبارک ہے کہ جس میں باقی پورا سال گزارنے کی تربیت دی جا تی ہے۔ ہر ایک نیک عمل اپنے اندر عبادت چھپائے ہوئے ہے اور ہر عبادت کا انعام بھی بڑھا چڑھا کر دیا گیا ہے۔ یوں تو رمضان کے روزے فرض ہیں لیکن کیا روزے کی فرضیت صرف کھانا پینا چھوڑ دینے سے پوری ہوجاتی ہے؟ کیا روزے دار کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ صحری سے افطار یعنی فجر سے مغرب تک کچھ نا کھائے پئے؟
دراصل یہاں بھی روح اور جسم کامعاملہ ہے کوئی کسی کے روزے کی گواہی دینے کا مجاز نہیں ہے کیوں کہ یہ تو سراسر اللہ اور اسکے بندے کے درمیان راز کا معاملہ ہے، وضو کرتے ہوئے حلق سے پانی کا نیچے نا اترنے دینا اللہ اور بندے کہ درمیان تعلق کی گواہی ہے۔ اللہ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں، یہ ایک ایسا تعلق ہے جسکی حقیقت سے ہر شخص بخوبی سمجھتا ہے۔ہمارے رب نے ہماری خطاؤں پر کیا خوب پردہ رکھا ہوا ہے۔
اللہ نے اپنے پیارے محبوب سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی صورت میں پہلے ہی انسانیت پر احسانِ عظیم کیا اور اس سے بڑھا احسان مسلمانوں پر کیا، آپ کی حیات طیبہ جہاں رہتی دنیا تک کے انسانوں کیلئے مشعل رہا ہے وہیں مسلمانوں کیلئے حتمی ضابطہ حیات ہے یعنی جو روزِ محشر شفاعت کا متمنی ہے وہ نبی پاک ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہوجائے۔ فرض کی ادائیگی بھی بغیر آپ ﷺ کی پیروی کے پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ فرض کیا ہے یہ بھی قران نے آپ ﷺ کے ذریعے سے ہی بتایا۔ گوکہ اسلام کو آفاقی ہونے پر کسی سے کوئی سند درکار نہیں لیکن اب دنیا اسلام کی امن پسندی اور افہام و تفہیم کے فلسفے سے بہت اچھی طرح سے روشناس ہوچکی، سورج کی شعاؤں آخر کب تک کوئی روک سکتا ہے اور اب اس بات کا اعتراف کسی گونج کی طرح سنائی بھی دے رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل نیوزی لینڈ میں مسجد پر دہشت گردی کے ایک المناک واقعہ کے بعد وہاں کی ایک غیر مسلم وزیر اعظم نے اسلام کے فلسفے کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے مسلمانوں کے زخموں کا بڑی خوبی سے مداوا کیا۔ رمضان کا ماہ مبارک شروع ہوتے ہی غیر مسلم عالمی رہنماؤں نے امتِ مسلمہ کو اس ماہ مبارک کے پیغامات جاری کئے۔ کینیڈین وزیر اعظم کی جانب سے بھی مسلمانوں کیلئے خصوصی ویڈیو پیغام جاری کیا گیا۔
دنیا میں ہونے والے مذہبی تہواروں کے انعقاد سے قبل اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ اس مذہب کے امیر غریب ہر طبقے کے لوگ اس تہوار کو برابری کی بنیاد پر منائیں تاکہ کسی قسم کا احساس محرومی پیدا نہ ہو اور خوشی کا موقع خوشی دئیے بغیر ہی نا گزر جائے۔ جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس دیکھنے میں آتا ہے جہاں کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور رمضان کے ماہِ مبارک میں مہنگائی کو جیسے پر لگ جاتے ہیں، جو چیز عام دنوں میں دس روپے کی ہوتی ہے رمضانوں میں وہی چیز پچیس سے تیس روپے کی ہوجاتی ہے۔
یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ کم آمدنی والا کم آمدنی والے کو ہی نقصان پہنچانے کیلئے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ جہاں دینے والے کم نہیں ہیں تو وہیں لینے والوں کی گنتی بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ رمضان رحمتوں، برکتوں کا مہینہ ہے لیکن اس کی اہمیت پورے سال کے کاروباری معاملات سے منسلک کردی جاتی ہے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ کاروبار بہت ضروری ہے لیکن کیا لوگوں کی کھال اتار کر بیچنے کا درس کہاں سے ملتا ہے۔ چلیں آپ عبادت کو وقت نہیں دے پا رہے چلیں آپ روزے نہیں رکھ پا رہے، لیکن آپ کاروبار میں ہی عبادت کے کسی پہلو کو پکڑ لیں، ہوسکتا ہے کہ اس پہلو کی نسبت آپ کو اللہ تعالی انعام سے نواز دیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے اپنے کردار و گفتار میں جھوٹ نا چھوڑے، تو اللہ تعالی کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مذکورہ حدیث تو روزہ دار کیلئے ہے بغیر روزہ کے جھوٹ بولنے والے سے اللہ کی ناپسندیدگی کا اندازہ کرلیجئے۔ ذرا دنیاوی فائدے سے باہر نکلیں۔
محترم قارئین، ہمیں ایک اور موقع ملا ہے کہ ہم اپنے آخری سفر کیلئے کچھ رسد جمع کرلیں، پتہ نہیں یہ آخری موقع ہو۔ ہم ہمیشہ رمضان کا حق ادا کرنے کا عہد بھی کرتے ہیں اور بیشک ہمارا رب ہمیں نیکی کا سوچنے پر ہی اس کے اجر سے نواز دیتا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم لوگ عملی طور پر اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کریں، آج ہرطرف تبدیلی تبدیلی کی باتیں گونجتی سنائی دیتی ہیں، لیکن یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بغیر اسلامی اقدار کے نفاذ کے کسی بھی قسم کی تبدیلی ایسی ہی عارضی اور واجبی ہوگی۔
رمضان شروع ہوچکے ہیں اللہ نے ہمیں ایک بار پھر یہ موقع دے دیا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو سنوار لیں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے سر جھکا دیں۔ ہم رک جائیں ایسے جیسے ہمارے رب نے ہمیں رکنے کا حکم دیا ہے۔
آج معاشرہ انتہائی نفسا نفسی کا شکار ہوچکا ہے، حقیقت میں غربت نہیں بڑھ رہی بلکہ ہماری ضروریات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ہم اپنی عملی زندگیوں میں تبدلی کو یقینی بنانے کا تہیہ کرلیں اور جہاں تک ممکن ہوسکے ایک دوسرے کیلئے آسانی پیدا کریں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ جھوٹ بولنے سے مال تو بک جاتا ہے لیکن برکت چلی جاتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سچ بول کر کم بیچ لو لیکن اپنے رزق میں برکت لے لو، ہمیں خود کو احساس ہونا چاہئے کہ یہ رمضان ہمارے لئے کتنی بڑی رحمت و نعمت ہے اور نعمتوں کی ناقدری خسارہ ہی خسارہ ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اس ماہِ رمضان سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطاء فرمائیں اور ہمیں دوسروں کیلئے آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطاء فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔