آج جدیدیت کے اس دور میں بھی دنیا محنت کشوں کی بدولت چل رہی ہے۔ بڑے بڑے سخت کام انسان نے اپنے ہاتھوں سے کئے ہیں جیسے بڑی بڑی چٹانوں کا سینہ چیر کر اپنے رہنے کیلئے جگہیں بنائیں اور جانوروں سے بچاؤ کیلئے ڈھالیں بنائیں اور ہتھیار بھی بنائے۔ انسان نے اپنے زور بازو سے گہرے گہرے کنویں کھودے اور اپنے لئے پانی کا بندوبست کیا۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بڑے بڑے جگلی جانوروں کو اپنی بھوک مٹانے کیلئے شکار کیا۔ انسان نے اپنے بازؤں کی مدد سے پتھر کو پہیے کی شکل دی۔ غرض یہ کہ انسان نے انتہائی محنت اور مشقت کی بدولت دنیا کو رہنے کے قابل بنایا۔ انتہائی محنت کا نیتجہ ہے کہ آج انسان نے ایسی ایسی مشینیں ایجاد کرلی ہیں جو وہ وہ کام کر رہی ہیں جو کبھی انسان نے اپنے ہاتھوں سے کئے تھے۔ اہرام مصر اس انسانی مشقت کا منہ بولتا ثبوت ہے تو دوسری طرف عظیم الشان قلعے ساری دنیا میں موجود ہیں جو کہ انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے۔ علم کی بدولت انسان نے مشکل کاموں کو آسانی سے کرنے کا ہنر سیکھا اور آہستہ آہستہ انسانی قوت کی جگہ مشینی قوت نے لے لی، جو کام دس آدمی کرتے تھے وہی کام ایک مشین کی مدد سے کیا جانے لگا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب وہی کام انسان کر رہے تھے تو ماحول دوست کام ہورہا تھا لیکن جب وہی کام مشینوں نے کرنا شروع کیا تو ماحولیات کے مسائل اس حد تک بے قابو ہوگئے کہ اوزون کی تہہ کو نقصان پہچانے، پہنچ گئے۔ انسان ترقی کے اس دور میں پہنچ گیا ہے جہاں سے اسے واپس دنیا کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے اور خود واپس غاروں میں رہنے کیلئے چلے جانا ہے۔ دنیا گول یا بیضوی ہے انسان چکر لگا کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے سفر شروع کیا ہوتا ہے اور شاید یہی قدرت کا اصول ہے، انسان جب دنیا میں آتا ہے اور جب دنیا سے طبعی طور پرجانے والا ہوتا ہے تو دونوں صورتوں میں ایک جیسا ہی سجھائی دیتا ہے۔ محنت انسان کی پہچان تھی، ہے اور رہے گی لیکن انسان نے ہی محنت کے مختلف خانے بنا دیئے، یعنی مختلف امور میں محنت کے مختلف انداز ہیں۔ ایک آدمی ٹھنڈے کمرے میں کاغذ اور کمپیوٹر پر ایسی محنت میں مگن ہے کہ اس کے اعصاب اور جسمانی پٹھے تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن اس محنت کے نتیجے میں وہ کوئی بہت ہی پائے کی حکمت عملی مرتب کرلیتا ہے، جبکہ دوسری طرف محنت کا بنیادی اصول یعنی اپنے ہاتھ سے تپتی دھوپ، تیز ہواؤں اور یخ بستہ موسموں میں کام سرانجام دینا ہے۔
دنیا میں آج بیماریوں کا بول بالا ہے، ہر پیدا ہونے والا بچہ کسی نا کسی بیماری کیساتھ دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے، دنیا جہان کی ویکسینز لگائی جارہی ہیں تاکہ بچے کی صحت کو بحال رکھا جائے یعنی ترقی یافتہ دنیا مصنوعی زندگی کی جانب پیشقدمی کر رہی ہے۔ ان بیماریوں میں اول نمبر پر ذیابطیس (شوگر) ہے جس کے ہونے کی جہاں دیگر بہت ساری وجوہات ہیں ان میں سب سے اہم وجہ سہل پسندانہ طرز زندگی ہے۔ انسان نے اپنے آپ کو ایک موبائل فون تک محدود کر کے رکھ لیا ہے۔ بلمشافہ ملاقات سے کہیں بہتر سماجی میڈیا کو قرار دیا جانے لگا ہے۔ بچپن کھیل کے میدانوں یا گلی محلوں میں چھپن چھپائی، کھوکھو اور چور پولیس جیسے بھاگ دوڑ والے کھیلوں سے محروم ہوگیا ہے، اس محرومی کا فائدہ بیماریوں نے اٹھایا ہے اور تقریباً ہر بچے کو کوئی نا کوئی عارضہ لاحق ہے ۔ کچھ بیماریاں تو موروثی ہوتی ہیں اور کچھ جس دور میں بچہ کی پیدائش ہوتی ہے اس دور کی پیداوار ہوتی ہیں۔ نامعلوم کتنے جراثومے اپنی کارگردگی دکھانے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ قارئین اتفاق کریں گے کہ ہر گھر میں بیماری کا راج ہے اور اس مد میں ماہانہ ایک خطیر رقم معالجوں اور اسپتالوں کی نظر ہوجاتی ہے۔
ہر کوئی بیماری سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے، موسم بدلنے سے پہلے ہی ادویات تک رسائی کو ممکن بناتا ہے، بغیر کسی وجہ کہ کوئی ناکوئی دوا حفظان ماتقدم کھا لیتا ہے لیکن یہ جاننے کی کوشش نہیں کر رہا کہ یہ بیماریاں کیوں اتنی آسانی سے ہم پر حملہ آور ہو رہی ہیں اور کیا وجہ ہے کہ پرانے وقتوں میں لوگ نا ہونے کے برابر بیمار ہوتے تھے۔ شاید یہ سوچنے کا وقت بھی ہم سماجی میڈیا کی نظر کردیتے ہیں، ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم اپنا قیمتی وقت بھی سماجی میڈیا کی نظر کردیتے ہیں۔ ایسا بلکل نہیں کہ آج کی نسل بزرگوں کی صحبت میں بیٹھتی نہیں، لیکن اپنا موبائل لے کر بیٹھتی ہے یعنی ظاہری طور پر موجود ہوتی ہے لیکن ذہنی طور پر نہیں۔ انسان نے جتنی طبعی محنت کرنا تھی، کر چکا۔ انسان نے جتنا اچھا وقت گزارنا تھا گزار لیا اب تو بس اپنی معذوری اور اپنے مرنے کا سامان کئے جاتا ہے۔ ہم سب جنگی ماحول میں رہتے ہیں اور اس ماحول سے آگاہی ہمیں سماجی میڈیا کے ذریعے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل فون پر مل جاتی ہے۔ ہم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اپنا سارا کا سارا جوش اور ولولہ سماجی میڈیا پر دشمن کو دکھاتے ہیں اور بڑے فخر سے اپنے سرحدی محافظوں کو سماجی میڈیا پر ہی تعریفی کلمات اور زبانی تمغات سے نواز دیتے ہیں۔ ہماری یہ حالت ایک دم سے نہیں ہوئی ہے، ہم آہستہ آہستہ ہر نشے کی طرح اس سہل پسندی کے عادی ہوئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا بچے گھر سے باہر جانے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے تھے کہ گھر کے کسی فرد نے کوئی کام کہا تو سارے بچوں کی خواہش ہوتی تھی کہ یہ کام اس سے کہا جائے اور کسی ایک کو ساتھ لے جانے کی اجازت بھی دی جائے لیکن آج تو یہ دور آچکا ہے کہ مائیں اپنے بچوں سے کچھ منگوانے کا کہہ تو دیں پھر کیا بچے کا بدن تو ساری بیماریوں کا قلعہ بن جاتا ہے اور ایسی ایسی تاویلیں سننے کو ملتی ہیں کہ ماں بچے سے کچھ منگوانے کے بجائے اس کا سر دبانے بیٹھ جاتی ہے۔
انسان آسائشوں کا ایسا عادی ہوچکا ہے کہ اپنے تمام امور گھر کی چار دیواری میں ہی بھگتانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اس پر رہی سہی کثر آن لائن خرید و فروخت کے سلسلے نے پوری کر رکھی ہے۔ دفتروں میں کام کرنے والے لوگ جو صبح داخل دفتر ہوتے ہیں تو شام گئے واپس باہر نکلتے ہیں اور اکثریت تو اندھیرے میں گھروں کو لوٹتے ہیں یعنی انہیں سورج سے واسطہ سوائے شیشے لگی کھڑکی سے ہی ہوتا ہے۔ آج ماہرین کا کہنا ہے کہ طبعی طور پر اپنے لئے کوئی مصروفیت نکالیں، کیا ہمارے معالج ہمیں ماضی کی جانب نہیں دھکیلتا سنائی دیتا۔ آج ہماری راتوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں جہاں اس کی وجہ ہمارے موبائل فون بھی ہیں تو دوسری طرف جسمانی تھکاوٹ یا ان کا اتنا استعمال جتنے کیلئے انہیں بنایا گیا ہے نہیں ہورہا، بھی ہوسکتا ہے۔ انسان نے درد کا ایسا راگ آلاپہ کہ درد نے سارے جسم پر ہی قبضہ کرلیا۔
ہمیں اپنی نسلوں کو گھروں سے باہر نکالنا پڑے گا، انہیں موٹر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے اتار کر اپنے پیروں پر چلنے کی عادت ڈالنا پڑے گی، انہیں میدانوں میں کھیلے جانے والے کھیلوں کی جانب دھکیلنا پڑے گا۔ ہمیں ان کی ذہنی قابلیت پر کوئی شک نہیں یہ دنیا کی کسی بھی قوم کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن بہت ضروری ہے بلکہ ناگزیر ہے کہ ان کی طبعی نشونما بھی سخت ہو، ان کے جسم کو سورج کی شعاؤں کی حدت برداشت کرنے کی عادت ہو۔ تعلیمی اداروں کو اس بات کو یقینی بنانے میں اپنا قلیدی کردار ادا کرنا چاہیئے کہ نسلوں کو برباد ہونے سے روکیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی ادارے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے میں مصروف ہیں لیکن کیا طبعی مضبوطی کی ذمہ داری بھی انہی اداروں کی ہے جہاں مستقبل کے معمار اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
بہت ممکن ہے آنے والا وقت ہم سے یہ ساری آسائشیں چھین لے، ہمیں کڑی دھوپ میں مشقت کرنے کیلئے گھسیٹ لائے اور ہم ان سب چیزوں کے عادی نا ہوں اور سسک سسک کر مرجائیں، اپنی زندگی کی بقاء کیلئے بھاگنا دوڑنا پڑے مگر ہم بھاگ ہی نا سکیں، ہمارا دشمن ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے ہمیں برباد کرنے کی کمزور کرنے کے منصوبوں کی فیکٹری لگا کر بیٹھا ہوا ہے اور ہم ہیں کہ اس کی فیکٹری کی مصنوعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ذرا سوچ لیجئے آنے والے وقت میں کیا کچھ پوشیدہ ہے اس کا اندازہ لگالیں تو بہتر ہے ورنہ کیا ہوگا یہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ سہل پسندی آپ کو اتنی پیاری زندگی سے نجات دلائے آپ سہل پسندی سے نجات حاصل کرلیں۔