امریکہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کے اخبارات، ویب سائٹس اور رسائل پاکستان کے ساتھ تعلقات جوڑنے میں اپنا اہم کردارادا کررہے ہیں۔یہ ایک طرح سے ویکلی سمری ہوتی ہے، اس میں کچھ کالمز بھی ہوتے ہیں جو پاکستان کے اخبارات میں بھی چھپتے ہیں اور امریکہ کے اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ میں شائع ہونے والے یہ اخبارات پاکستانی کمیونٹی کی سماحی سرگرمیوں کو بھی رپورٹ کرتے ہیں جس میں مختلف تقریبات کی خبریں اور تصاویر شائع ہوتی ہیں۔ اس طرح پاکستانی کمیونٹی کو اکٹھا کرنے میں ان اخبارات، ویب سائٹ اور رسائل کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، کیونکہ اس عمل سے پاکستانی کمینونٹی کو ایک دوسرے کی خبر رہتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اسی طرح ان اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس میں جو اشتہارات چھپتے ہیں اس سے پاکستانی کمیونٹی کی کچھ بزنس ایکٹی ویٹیز کا بھی پتا لگتا رہتا ہے۔
اس طرح یہ عمل پاکستانی کمیونٹی یعنی پاکستانیت کو قائم رکھنے اور وہاں پر موجود پاکستانیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ایک بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ میں شائع ہونے والے اخبارات سے پاکستان کی خبروں کی ہفتہ وار رپورٹنگ سے اس کمیونٹی کا پاکستان سے بھی رشتہ جڑا رہتا ہے، اس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا اور اس کے آس پاس میں چھپنے والے یہ اردو اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس چلانے والے یہ صحافی حضرات پاکستانی کمیونٹی جو امریکہ اور کینیڈا سمیت دیگر مقامات پر ہیں ان کی گراں قدرخدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سیٹلائٹ چینلوں کی وجہ سے اب پاکستان میں ہونے والی ہر سیاسی اور سماجی ایکٹی ویٹیز کو جب چاہے دیکھا جاسکتا ہے یعنی ان کو پاکستانی خبریں اس وقت ہی مل جاتی ہیں جب وہ پاکستان میں عوام کے سامنے آتی ہیں، اس طرح پاکستان سے شائع ہونے والے کچھ اخبارات اور نیوز چینلوں کے نمائندے امریکہ میں موجود ہیں جو وہاں پر جانے والے پاکستانی سیاستدانوں اور دیگر پاکستانی کمیونٹی کی خبریں اخبارات اور نیوز چینلوں کو بھیجتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ تو تصویری رپورٹس بھی ان خبروں کے ہمراہ ہوتی ہیں، جس سے پاکستان میں موجود لوگوں کو بھی پتا چلتا رہتا ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے متعلق کیا سوچا جا رہا ہے اور امریکی حکومت اور وہاں کیےعوام کا پاکستان کیلیے کیا رویہ ہے، کیونکہ امریکہ میں دیگر تقریبات کے ساتھ ساتھ پاکستانی اخبارات اور نیوز چینلوں کے نمائندے ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کی بریفنگ میں عام طورپر شرکت کرتے رہتے ہیں، جس سے انہیں براہ راست خبریں بھی ملتی رہتی ہیں، اس کے علاوہ کچھ پاکستانی اخبارات خصوصاً انگریزی کے اخبارات واشنگٹن کے تھنک ٹینک میں پاکستان پرہونے والی بحث پر بھی رپورٹنگ کرتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے اخبارات اور نیوز چینلوں کے نمائندوں کو اکٹھا کرلیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ امریکہ میں اب پاکستانی میڈیا کافی بڑا ہوگیا ہے اور اب تو انہوں نے اپنے لئے ایک ایسا فورم بھی بنا لیا ہے، جس کا نام ہے (پاپا) پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن ہے۔
اس کے سرپرست سینئر صحافی انور اقبال ہیں۔ (پاپا) پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن پاکستانی نژاد صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کے طورپر ابھر کے سامنے آئی ہے، تاکہ پوری دنیا کے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو جوڑ کر رکھنے والے خود بھی اکھٹے ہوکر مل بیٹھیں اور اپنے پروفیشنل معاملات کو ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ جمہوری انداز میں حل کرسکیں۔ پاکستان امریکن پریس ایسویسی ایشن (پاپا) کے انتخابات کا ان دنوں امریکہ سمیت پاکستان میں بھی چرچا رہے۔ اس تحریر میں (پاپا) کے انتخابات کے حوالے سے لکھنا بہت اہمیت کا حامل ہے، اس انتخاب کے نتیجے میں اسد حسن صدر منتخب ہوئے، جبکہ نذیراعظم نائب صدر، یوسف چودھری جنرل سیکرٹری، شعیب زادہ خازن اور ثاقب الالسلام سیکریٹری اطلاعات منتخب ہوئے۔ یونائیٹڈ جرنلسٹ پینل کے چار امیدواروں نے کامیابی حاصل کی اور ایک زبردست مقابلے کے بعد صدارتی امیدوار خرم شہزاد صرف چند ووٹوں سے ہار گئے۔ اس کے باوجود خرم شہزاد کی جانب سے نو منتخب صدر اسد حسن کو بھرپور تعاون کا یقین بھی دلایا گیا، پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن کی حلف برداری امریکہ کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی، تقریب میں پاکستانی امریکن صحافیوں کے علاوہ مقامی کمیونٹی اور امریکی دفتر خارجہ کے نمائندوں نے بھی خصوصی شرکت کی، جبکہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید نے نومنتخب عہدیداروں سے حلف لیا، پاکستانی سفیر کا تقریب میں خطاب کے دوران کہنا تھا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے، جس کے ذریعے صحافی قومی اور عوامی مفادات کا تحفظ کرتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ صحافتی پیشے میں اعتماد ایک چیلنج ہے اور سچ کو سامنے لانا صحافی کی ذمہ داری ہے، انہوں نے اس موقع پر پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداروں کو بھرپور تعاون کا یقین دلایا، جبکہ اس تنظیم کے پہلے صدر رحمان بونیری نے بھی کامیاب امیدواروں کو مبارکباد پیش کی اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہارکیا۔
رحمان بونیری کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آزادی رائے کے اظہار کیلئے یہاں پر موجود تمام صحافیوں کو بلاتفریق کام کرنا ہوگا۔ تقریب میں امریکن ریپبلکن پارٹی کے رہنما اور مسلمز فار ٹرمپ تنظیم کے بانی ساجد تارڑ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور نیو جرسی ٹاؤن کی میئرصدف جعفر نے بھی خطاب کیا۔ میئر صدف جعفر کا کہنا تھا کہ پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن کمیونٹی کو قریب لانے اور امریکی سیاسی نظام میں حصہ لینے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، اس تقریب میں اس وقت امریکہ میں مقیم پاکستانی سیاست کا ایک بڑانام سابق وفاقی وزیر جے سالک بھی موجود تھے، جنہوں نے بڑے دلچسپ انداز میں پاپا نام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاپا تو ویسے بھی خاندانی طورپر باپ کو کہتے ہیں روم کے پاپا کو بھی دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ اس تنظیم کے حوالے سے کوئی شک نہیں ہے کہ آپ جرنلسٹوں میں پاپا کا ہی کرداراداکررہے ہیں، کیونکہ آپ ایسی قوت میں بیٹھے ہیں جہاں پر دنیا کی اکانومی اور دنیا کا کنٹرول موجود ہے، جس پر آپ کے تبصرے تجزیے اور خبروں کے حوالے سے آپ کا کردار مکمل طورپر ایک پاپا کا ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں جرنلسٹوں کی اس عظیم تنظیم سے خطاب کر رہا ہوں۔
امریکی وزارت خارجہ کے نمائندے نولن جانسن کا کہنا تھا کہ مجھے پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن کی کارکردگی نے بے حد متاثر کیا ہے انہوں نے نئی تنظیم کو بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ امید ہے پاپا تنظیم قائد اعظم کے ویژن اور افکار کو آگے لیکر بڑھے گی۔ آخر میں میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ امریکہ میں اب ایسے لوگوں اور نوجوانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو وہیں پیدا ہوئے اور اور وہیں پر کام کرتے ہیں۔ یہ تقریباً تین عشروں کا سلسلہ ہے، جبکہ پاپا تنظیم کا یہ نیا فورم امریکہ میں موجود تمام پاکستانیوں کیلئے ایک طاقت اور آواز بن چکا ہے۔