مسلم دنیا اس وقت انتہائی غم و غصے میں مبتلا ہے، اس بار غم و غصے کی وجہ فرانس کے صدر کا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں کی جانے والی گستاخانہ گفتگو ہے، جو اپنے ملک کے ایک ایسے فرد کی پشت پناہی کیلئے کی گئی ہے جس نے آپ ﷺ کے خاکے بنائے اور شائع بھی کئے۔ دنیا یہ بہت اچھی طرح سے جانتی ہے کہ مسلمان کیسا بھی ہو وہ اپنے نبی پاک ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی معمولی سے معمولی گستاخی بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور وہ اس گستاخ کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے اپنی جان مال قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
فرانس وہ ملک ہے جس میں خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کا ایک سلسلہ چل رہا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کی بدولت ترکی میں بننے والے ڈراموں تک رسائی ممکن ہوسکی ہے اور ان کی اس کاوش کے توسط سے مسلم تاریخ کے روشن پہلوؤں پر سے گرد اڑانے کی ہر ممکن کی جارہی ہے۔ایسا ہی ایک ڈرامائی تشکیل سلطان عبدالحمید خان کے دور ِ خلافت پر بھی ترتیب دیا جا چکا ہے، آپ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ اور حیقیقی معنوں میں سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔
اس سچائی کے لئے ضروری ہے اور قارئین میں ایمان کی حرارت بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے دو واقعات یہاں رقم کئے جائیں جو حب رسول ﷺ کی دلیل سمجھے جاسکیں۔ ایک فرد دربار میں حاضرہوتا ہے اور سلطان عبد الحمید خان کو اپنا مقروض کہتا ہے جس پر وزیر اسے سلطان کے سامنے پیش کرتے ہیں استفسار کرنے پر وہ بتاتا ہے کہ گزشتہ رات اس کو نبی پاک ﷺ کی زیارت ہوئی ہے اور آپ ﷺ نے اس سے کہا ہے کہ میرے حمید سے جاکر کہو کہ وہ گزشتہ رات درود پڑھے بغیر سو گیا تھا، اس فرد نے جب سلطان کے سامنے میرے حمید کہا تو سلطان نے باربار پوچھنا شروع کردیا کہ آپ ﷺ نے کیا کہا اور مدعی بتاتا جاتا کہ آپ ﷺ نے کہا میرے حمید،سلطان ہر بار اسے ایک اشرفیوں سے بھری تھیلی پکڑادیتے اور پوچھتے رہتے جب تین چار بار سے زیادہ ہوگیا تو وزیر جو سارا معاملہ بھانپ گیا تھا اس نے مدعی سے کہا اب تمھارا قرض پورا ہوگیا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تو اسے جانے کو کہا گیا، جس پر سلطان عبدالحمید خان نے اپنے وزیر خاص پاشا کو بتایا کہ کل رات زیادہ دیر کام کرنے کی وجہ سے کام کی جگہ پر ہی کام کرتے کرتے سوگیا تھا اور درود پاک نہیں پڑھ سکا تھا، اور یہ بھی کہا کہ اگر تم مجھے نا روکتے تو شائد میں یہ ساری سلطنت اس مدعی کو دے دیتا۔
دوسرا واقعہ جس کا تعلق فرانس کے موجودہ واقعہ سے بالکل مشابہہ ہے کہ سلطان عبدالحمید خان کو اطلاع ملتی ہے کہ فرانس کے ایک تھیٹر میں آپ ﷺ پر بنائی گئی کو ئی فلم دیکھائی جانے والی ہے، اس بات کا علم ہونا تھا کہ آپ نے فوری طور پر فرانس کے سفیر کو بلانے کا حکم دیا اور اسے تنبیہ کی کہ اگر فرانس نے ایسا کیا جیسا کہ وہ کرنے کا اعلان کر چکا ہے تو پھر جنگ ہوگی۔ اسکے بعد سلطان نے تمام مسلم ممالک کے سربراہان کوجنگ کی تیاری کرنے کیلئے خط بھیجوانا شروع کردئے، سلطان کا کہنا تھا کہ میں ان سے جنگ کرونگا چاہے میری گردن کٹ جائے چاہے میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں میں اپنے پیارے نبی ﷺ کے سامنے روزِ قیامت سرخ روح تو ہوسکونگا۔ فرانس خلیفتہ المسلیمن کے غم و غصے کو بھانپ گیا تھا اس نے فوری طور پر اپنے ناپاک ارادے کو موقوف کیا اور آگاہ کیا کہ وہ ایسا نہیں کریگا۔
ایک مسلمان کیلئے آپ ﷺ سے محبت ایمان کا بنیادی جز ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ سب قیمتی اور عزیز ترین والدین اور اولاد آپ کی محبت پر قربان۔ کوئی مسلمان اس بات کی اجازت کسی کو نہیں دیگا کہ کوئی ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں ادنی سی بھی گستاخی کرے۔ اس بات سے یہ بات حتمی ہوجاتی ہے کہ ایک مسلمان کا ایمان آپ ﷺ کی سچی محبت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ یقینا سلطان عبد الحمید خان ایک با عمل مسلمان ہونگے ایک حقیقی اور سچے عاشق ِ رسول ﷺ ہونگے کہ انکی دھمکی آمیز رویہ نے ہی اس وقت فرانس کی سرکار کو جیسا وہ کرنا چاہ رہے تھے کرنے سے روک دیا، جب حاکم باعمل و با کردار تھا تو تقریباً رعایا بھی عمل و کردار میں کچھ کم نہیں ہوگی اور انہی معاملا ت کا خوف تھا کہ جو غیر مسلموں کے دلوں کو دہلائے رکھتا تھا۔ لیکن بھلا پھر کیا ہوا آہستہ آہستہ ایسے باکردار حکمران ناپید ہوتے چلے گئے اور ایک عالمی سازش کی بدولت مسلمانوں کے دلوں کا رخ دنیاوی زندگی کیلئے رغبت پیدا کرنے والی آسانیوں و آسائشوں کی طرف موڑ دیا گیا او رآسائشوں کے حصول کیلئے حلال اور حرام کے فرق کر تقریباً مٹا ہی دیا گیا ہے، اس فرق کیلئے کھینچی گئی لکیر تیز تیز چلنے والوں کو دیکھائی نہیں دیتی اور تو اور اب شرعی اور مذہبی رکاوٹوں پر رکنے کا وقت کس کے پاس ہے۔
کیا یہ وہ چند وجوہات نہیں ہیں کہ جس کی وجہ سے آج فرانس کے صدر نے پاکستان اور ترکی کو فرانس کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرنے کو منع کردیا ہے، کیا یہ ہماری ایمان کی بد ترین کمزوری نہیں ہے کہ فرانس میں مسلمانوں کیساتھ انتہائی تہذیق آمیز رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔ کیا دوارب مسلمانوں کی آبادی بے جان وروح کے انسانوں پر مشتمل ہے، ہم یہ بات قطعی بھول گئے ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہم سب ایک عمارت کی طرح ہیں اگر ایک اینٹ نکلے گی تو پوری عمارت کے گرجانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ہمیں جھوٹ اور بے ایمانی کی دلدل میں دھنسا دیا گیا ہے اور ہم خوشی خوشی دھنستے چلے جارہے ہیں۔
دشمن نے ہمیں اخلاقی کمزور کرنے کا بیڑا سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اٹھایا تھا اور اب وہ بہت اچھی طرح سے جان چکے ہیں کہ ہم کتنے کمزور ہوچکے ہیں ہماری صفوں میں میر جعفر اور میر صادق جیسے کی بہتات کردی گئی ہے جو اتنے بڑے مسلئے کی موجودگی میں اپنے سیاسی و معاشی مسائل زیر بحث لائے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری ایمان کی کمزوری ہے کہ دشمن ہمارے مدرسوں میں دن دھاڑے ہماری نئی نسل کو بم سے اڑا دیتا ہے تو کبھی گولیوں سے ختم کردیتا ہے۔ہم آج ایک ایسی آزمائش میں ہیں کہ، آج وقت ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہمیں دنیاوی پیٹ کی آگ کو بجھانے کو ترجیح دینی ہے یا پھر دائمی زندگی کیلئے جہنم کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔
ایک طرف دنیا ابھی تک کورونا نامی ایک ایسی وباء کی زد میں ہے جس نے انسانی زندگیوں کیساتھ ساتھ مال و دولت بھی لے لی ہیں، بڑے بڑے مستحکم معیشت والے اپنی معیشت سنبھالنے میں مگن ہیں۔ دنیا کورونا سے نمٹنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھی ہے ایک دوسرے کے اقدامات کا جائزہ لے رہی ہے تو دوسری طرف کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو دنیا کونسلی اور مذہبی تقسیم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ مذہبی منافرت کی نفی کی ہے اور دنیا میں شائد ہی اقلیتوں کو اتنے مساوی حقوق میسر ہوں جو پاکستان میں ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے ملک یاملکوں سے فوری سفارتی تعلقات ختم کرنے کا باضابطہ سرکاری سطح پر اعلان کرنا چاہئے اور جب تک سرکاری سطح پر تمام مسلمانوں سے معافی نہیں مانگی جاتی یہ تعلقات بحال نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ آپ ﷺ کی محبت کے بغیرممکن ہی نہیں ہمارا مسلمان کہلانا۔ہم نے اپنی دانست میں اپنے قلم سے قلب کی بات رقم ہی نہیں کی بلکہ قلم سے جہاد کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔