میں ایک دن بابا جی کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ عشق اور پیار کے درمیان فرق کیا ہے. بابا جی نے ایک نظر بھر کہ مجھے دیکھا اور مسکرا کر فرمانے لگے کہ پتر میرے پاس بیٹھ، پھر بولے کہ بڑے عرصے بعد میرے پاس کوئی ایسا آدمی آیا ہے، جو خود مطلب جانتے ہوئے بھی مجھ سے پوچھ رہا ہے.
میں نے حیرانی سے ان کو دیکھ تو وہ آنکھیں بند کیے ہوئے مسکرا رہے تھے. چند لمحوں کے بعد وہ انکھیں بند رکھے ہوئے بولے بیٹا عشق اور پیار میں فرق کیوں پوچھ رہے ہو؟ سامنے دیکھ لو کہ تمہاری چاہت کا درجہ پیار ہے اور میری چاہت کا درجہ عشق ہے...
پھر بولے پیار محبت چاہت کا پہلا درجہ ہے اور عشق آخری درجہ جس میں، رانجھا اور قیس جیسے لوگ غوطہ زن ہوئے اور امر ہوئے...
ناجی نے کیا خوب کہا ہے...
عشق اور پیار کے ہیں کیا معنی
ختم ہی ہو گئے جب تک سمجھتے
وہیں بابا جی کے پاس بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے گریبان میں جھانکا کہ میرا درجہ کونسا ہے.
*کیا جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو مجھے وہ دکھائی دیتا ہے؟ *کیا میں نے اس کی خاطر اپنی عیش والی زندگی قربان کر دی؟ *کیا میں اس کی دھڑکن اپنے دل میں محسوس کر رہا ہوں؟
اگر نہیں تو پھر مجھے شکوہ کرنے کی بجائے محنت کرنی چاہیئے تاکہ میں فخریہ انداز میں میں یہ کہہ سکوں کہ....
عشق اول عشق آخر عشق کامل عشق کل
ناجی گر کچھ کیا ہے تو بس ان سب میں وفا......
میں نے جاتے جاتے بابا جی سے دعا کی درخواست کی تو انکھیں نم تھیں.بابا جی نے طیش میں میری طرف دیکھا اور فرمایا بیٹا، "اللہ سے رو کر مانگا جاتا ہے.مانگ کر نہیں رویا جاتا".....
بہت لوگ زبان سے محبت کے دعوے تو کرتے ہیں، مگر حقیقتاً وہ دلچسپی ہوتی ہے محبت پیار اور عشق تو قسمت والوں کو ہوتی ہے، اور ان سے بھی زیادہ قسمت والوں کو نبھانے کا موقع ملتا ہے....
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
"محبت میں اگر ضرورت آ جائے تو محبت مجبوری بن جاتی ہے، لہذا اپنی محبت کو ضرورت میں نا ڈھالیں یا اسے مقصد بنائیں، یا پھر اس نام نہاد محبت سے دستبردار ہو جائیں". ایسی خود غرض محبت کو آپکی ضرورت نہیں ہے.