ایک اہم ترین تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ ہم سب جلدی میں ہیں لیکن جلدی کس بات کی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ایک منظم سازش کے تحت بدنظمی ہماری طبعیت میں تحلیل کردی گئی ہے، ہم لاکھ اپنی صفوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کہیں نا کہیں سے کوئی نا کوئی صف ضرور سیدھی ہونے سے رہ جاتی ہے۔ اس بدنظمی کو کیفیت کہہ سکتے ہیں اور عام لفظوں میں بے چینی سے بھی مماثلت رکھتی ہے، کیوں کہ یہ بہت حد تک طبعی طور پر دکھائی نہیں دیتی لیکن انفرادی طور پر محسوس کی جاتی ہے۔
قومی خوشی اور قومی غمی ہماری یکجہتی کیلئے گاہے بگاہے جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ یوں تو یہ بات بار ہا قابل ذکر رہی ہے کہ قوم ہمیشہ ہی کسی نا کسی مشکل میں ایک جان دکھائی دیتی ہے یا پھر کوئی کرکٹ کی خوشی ہماری ایکتا کی مثال بننے کا بہانا بنتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ یہ یکجہتی یہ قومی ولولہ بہت دیر تک نہیں رہتا، جب تک حالات کی رو میں بہتا رہتا ہے جب تک کشیدگی رہتی ہے پاکستانی ہونے کا عزم و حوصلہ آسمان سے باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ ملک کیلئے اچھا نہیں ہے کہ ہمیں حادثے اور ہمارے دشمن ایک کریں، جبکہ دائمی امن اور مستحکم پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ ہر لمحے میں پاکستانی ہونے کا ثبوت موجود رہے۔ سڑکوں پر کچرا پھینکنے والوں کو سمجھائیں کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کچرا کوڑے دان میں ڈالیں۔
علم کی شمع جاہلیت کے سورج کو ماند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان جہاں تعلیم کو صرف اسکول بنانے، مفت کتابیں اور بستے بانٹنے تک محدود رکھے ہوئے ہیں جو کہ بدعنوانی کیلئے آسان اور مشہوری کا آسان راستہ ہے۔ جب اسکولوں کی تعداد کی بات ہوتی ہے تو سیکڑوں اسکول ایسے نکلتے ہیں جن کی جگہ بھینسوں کے باڑے یا پھر دھوبی گھاٹ ہوتے ہیں اور سرکار وہاں کے اساتذہ کو تنخواہ بھی دے رہی ہوتی ہے اور سالانہ مرمت کے کام کا بجٹ بھی لیا جاتا ہے اور دیگر لوازمات بھی ہوتے ہیں، نہیں ہوتی تو تعلیم نہیں ہوتی اور طالب علم نہیں ہوتے۔ یہ وہ نادر و نایاب ہتھیا ر ہے جو ہمارے خاندانی سیاست دانوں نے اپنی رعایا نما عوام تک پہنچنے نہیں دیا کیوں کہ وہ بخوبی واقف تھے کہ اگر ایسا ہوا تو اس ہتھیار کا سب سے پہلا نشانہ ہم اور ہمارا نام نہاد عزت دار گھرانا ہوگا پھر حالات قابو کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجائے گا۔اس لئے پاکستان میں جہالت بڑھتی ہی چلی گئی۔ عورت کی پامالی خاموشی سے ہوتی رہی اور کیا کچھ ہوتا رہا ہے جو اب سماجی میڈیا کی وجہ سے کسی بھی طرح سے دنیا تک پہنچ رہا ہے۔ آج تو یہ بات بھی نہیں چھپتی کہ جلسے یا ریلی کو کامیاب دکھانے کیلئے اور شرکت میں بلانے کیلئے کیا خصوصی انتظام کیا گیا ہے کہیں بریانی کی ایک پلیٹ تو کہیں کچھ روپے کی لالچ میں بھی کاٹ پیٹ کر دئیے جانے کے رازوں پر سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کسی طرح سے عوام یعنی ا نکے مزاروں کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھلنے کو ہے تو یہ ملک کو کسی بھی گڑبڑ کی نظر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
کچھ باتیں ہمیشہ سے وضاحت طلب ہیں جن میں سب سے اول یہ کہ کیا سب کچھ بطور کاروبار ہورہا ہے؟ انسانیت کی خدمت کیلئے میدان عمل میں آنے والے ادارے کیا انسانیت کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں؟ ایک طرف دیکھو تو لگتا ہے ہر کوئی کاروبار کی نیت سے میدان عمل میں نکلا ہوا ہے اور کہیں کہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کسی نے اقتدار ہی انسانیت کی خدمت کیلئے حاصل کیا ہے۔ کیا یہ بات قابل ذکر نہیں کہ پاکستان میں عمومی طور پر بدعنوانی کیخلاف بات کرنا تو سب کو بہت اچھا لگتا ہے لیکن عملی طور پر کچھ کرنا کسی گناہ کرنے سا لگتا ہے۔
پاکستان، بھارتی دراندازی کی وجہ سے بھرپور یکجہتی کی مثال بنا ہوا تھا پھر پاکستان سپر لیگ کے میچز پاکستان میں ہوئے تو ہم نے یکجہتی اور منظم ہونے کے ریکارڈ قائم کر دیئے، پاکستان ایک با ہمت قوم ہے یہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی اپنی خودی حاصل کر نے کیلئے تیار ہے لیکن کچھ لوگ جنہیں لگتا ہے کہ اگر پاکستانی قوم ایک ہوگئی اور بغیر تعلیم کے انہیں سب سچ اور جھوٹ کا پتا چل گیا تو ہمارا تو اس سرزمین سے سمجھ لیا جائے کہ دانا پانی ہی نہیں اٹھے گا بلکہ جو لوٹی ہوئی دولت جمع کر رکھی ہے وہ بھی نکلوا لیں گے۔
ہم پاکستانیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کون کون ایسے کام کر رہا ہے جس سے عوام کا دھیان پاکستانیت سے ہٹ جاتا ہے اور اپنے ہی سرزمین کو نقصان پہنچانے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو جگہ نہیں دینی ہے تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ پاکستانی قوم صرف حادثوں اور کرکٹ کے جوش میں ایک ہوتی ہے یہ ہمیشہ کہ لئے ایک ہوچکی ہے۔ اب کوئی ٹرین میں لٹک کر یا بستر مرگ پر لیٹ کر یا کسی اور طرح سے بھی اس قوم کا دھیان نہیں بانٹ سکتا۔