دنیا میں کفر کے بعد سب سے بڑی لعنت غلامی ہے۔اور ایمان کی نعمت کے بعد آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔
آزادی کہتے ہیں کہ اللہ کے بندے اللہ کے محتاج ہوں۔اورغلامی کہتے ہیں کہ بندے اپنے جیسے بندوں کے محتاج ہوں۔
آزاد قوم کی تعلیمی پالیسی ونصاب،خارجہ پالیسی اور اقتصادی پالیسی اپنی ہوتی ہے۔اس اعتبار آج ہم اپنا تجزیہ کرلیں۔ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟؟؟
ہم صرف نام کے اور کاغذوں میں آزاد ہیں۔جیساکہ کسی کا نام شیر ہونے سے وہ حقیقی شیر نہیں بن جاتا۔ہمارا موجودہ حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔جب آپ دنیا کی تاریخ میں غلامی کو سمجھنا چاہتے ہیں تو دنیا کی سب سے بڑی مظلوم غلام قوم بنی اسرائیل ہے۔موسی علیہ السلام کو جب اللہ تعالی نے فرعون کی طرف بھیجا ۔تو فرمایا!!!
اذھب الی فرعون انہ طغی (القران )
فرعون کی طرف جاو کہ وہ حد سے گزر چکا ہے۔اور حد سے گزرنا کیا ہے کہ اسنے میرے بندوں کو غلام بنا لیا ہے۔
موسی علیہ السلام نے فرعون سے ایمان کے بعد جو سب پہلا مطالبہ کیا وہ تھا میری قوم کو آزاد کرو۔
قوم جب آزاد ہوئی تو پہلا مطالبہ قوم کا کتاب کے متعلق تھا۔کہ ہمارا کوئی نصاب تعلیم ہونا چاہیے۔اتنا طویل عرصہ قوم غلام رہی آج تک کبھی کتاب و نصاب تعلیم کا خیال نہ آیا کیوں غلام قوم کی اپنی تدبیر اور سوچ نہیں ہوا کرتی۔
ہم ایک آزاد قوم کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ہم نے آذادی قربانیاں اور شہادتیں دے کر حاصل کی ہے۔سوال یہ ہے کہ آج جن لوگوں کو ہمیں آزادی کی اس عظیم جدوجہد کا ہیرو اور رہنماء بتلایا جاتا ہے انکا آزادی کے حصول میں کتنا کردار ہے۔
معزز قارئین!!!
قائداعظم محمد علی جناح جو مسلم لیگ کے سربراہ ہیں اور جنہیں آزادی کا ہیرو کہا جاتا ہے۔اس سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اتنی بات ضرور آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔کہ مکان کی تعمیر میں کچھ اینٹیں ایسی ہوتی ہیں جو نظر آرہی ہوتی ہیں۔اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر تو نظر نہیں آرہی ہوتی لیکن وہ اس مکان کی بنیاد میں چھپی ہوتی ہیں۔اور یہ مکان اسی بنیاد میں موجود اینٹوں پر کھڑا ہوتا ہے۔
دراصل کچھ احمق اور تاریخ سے ناواقف لوگ مکان اس کو سمجھتے ہیں جو بنیاد سے اوپر ہے۔اور سمجھ دار لوگ جب مکان کی بات کرتے ہیں تو ان بنیادوں کی بھی بات کرتے ہیں۔جن کی بدولت مکان کھڑا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں قریبا ہزار سال مسلمانوں کی حکومت رہی اگرچہ یہاں کا نظام مکمل طور پر خلافت راشدہ کا نظام تونہ تھا۔مگر یہاں پر اکثر اسلام پر عمل کرنا ممکن تھا۔حکمران طبقہ مسلمان تھا اور بہت سے اولیا اللہ بھی اس دور میں گزرے ہیں۔
1601 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بمبئ کے ساحل پر گوروں کا ایک قافلہ آیا جس کودیکھ کر ہندوستان کے لوگ مرغوب ہوگئے۔ اور انھوں نے تجارت کے نام پر ہندوستان کو لوٹا۔اور اس طرح برطانوی سامراج داخل ہوا
1701 تک برصغیر کی معیشت پر قبضہ کیا۔اور 1740 تک وہ برصغیر کی سیاست میں داخل ہوگئے۔اور آہستہ آہستہ برصغیر کے اہم مقامات پر برطانوی پرچم لہرانے لگا۔
تو اس ظالم کو سب سے پہلے محصور کے جس شخص نے محسوس کیا۔اسکا نام ٹیپو سلطان تھا۔اسنے برطانوی سامراج کے خلاف آواز اٹھائی۔مگر سطان فتح علی خان سطان ٹیپو سازش کا شکار ہوکر شھید ہوگئے۔اس طرح آہستہ آہستہ انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے۔
اب یہاں سے آگے کے حالات کے متعلق تاریخ کا ہر قاری سمجھتا ہے۔کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ تین مرحلوں تقیسم ہوگئی۔
1۔پہلا مرحلہ اس میں وہ شخصیات شامل ہیں۔جنہوں نے 1740 سے لے کر 1857 کی جنگ آزادی تک ہر موڑ پر انگریزی سرکار کا ساتھ دیا۔اور اپنوں سے غداری کی۔اور بدلے میں انگریز سے جائیدادیں حاصل کیں۔
2۔وہ طبقہ ہے جنہوں نے کسی قسم کے لالچ میں آئے بغیر میدان میں لڑنا زیادہ مناسب سمجھا۔جن میں نواب سراج الدولہ،ٹیپو سلطان جیسے لوگ شامل ہیں۔
3۔تیسرا طبقہ بھی موجود ہے۔جب تحریک آزادی کی بات کی جاتی ہے تواس طبقے کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔حالانکہ اس طبقے کی بھی بڑی قربانیاں ہیں۔
اس طبقے کی تاریخ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے شروع ہوتی ہے۔یہ وہی شخص ہے جس نے مرہٹوں کے ظلم کے خلاف احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی۔انھی کے جانشین نے 1828 میں انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔اور ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا۔اسی شاہ عبدالعزیز کے فتوے کوبنیاد بناکر شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے شاہ عبدالغنی کے بیٹے شاہ اسماعیل شہید میدان میں آئے۔1828 میں اپنی تحریک کا آغاز کیا۔اور پہلی منظم تحریک انگریزوں کےخلاف اس برصغیر میں جو لڑی گئی۔وہ تحریک بالا کوٹ کہلاتی ہے۔یہ تحریک بظاہر سکھوں کے خلاف تھی۔
دوسری تحریک چلی۔جس کے بانی حضرت شاہ محمد اسحاق تھے۔ان کے دو شاگرد ہیں۔مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی۔ان حضرت نے بہار شاہ ظفر کو تیار کیا اور 1857 میں جنگ آزادی لڑی گئی۔اور شاملی کے میدان مسلمان کو شکست ہوئی۔اس بعد انگریزوں نے علماء پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے۔تاریخ کی کتب اس سے بھری پڑی ہیں۔دلی سے لکھنو تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا۔جس پر کسی داڑھی والے کی لاش نہ لٹک رہی ہو۔دلی کے سینکڑوں مدارس کو بلڈوزر کردیاگیا۔دلی کی جامع مسجد میں چالیس روز تک نماز بند رہی۔
انگریز بھی سمجھتا تھا کہ آزادی کی تحریک میں اسی طبقے کا کردار تھالیکن افسوس آج اس بات پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔
ان تمام مظالم کے باوجود آزادی کی جو شماع سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے روشن کی تھی وہ بوجھ نہ سکی۔ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔جسکو دارلعلوم دیوبند کے نام سے جانا جاتا ہے۔پہلا طالب علم جو پڑھ کر فارغ ہوااسکا نام محمود حسن تھا اسنے اپنے شاگرد حضرت عبیداللہ سندھی رحمتہ اللہ علیہ کو ساتھ لے کر تحریک خلافت کا آغاز کیا۔
یہ تیسری منظم تحریک تھی اور یہ تمام تحریکیں بنیاد ہیں تحریک آزادی کی۔
1906 سے لے 1937 تک مسلم لیگ اور کانگریس دونوں اس موضوع پر اکٹھے تھےکہ انگریز کو ہندوستان سے نکال باہر کرنا ہے۔1937 میں جھانسی کے ایک اجلاس میں مسلم لیگ نے جب الگ ریاست کا مطالبہ کیا تو دونوں کی راہیں جدا ہوگئی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے جب آزادی کا نعرہ بلند کیا تو اس وقت انکا ساتھ علماء نے دیا تھا۔چونکہ پہلی گواہی قائداعظم کے متعلق علماء کی طرف سے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے دی۔
ایک موقع پر جب ابوالکلام آزاد نے قائداعظم سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ علماء کتنے ہیں تو فرمایاکہ۔
"میرے ساتھ ایک ایسا عالم ہے کہ اگر ہندوستان کے تمام علماء کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا دیاجائے اور ان کا دوسرے میں تو ان کا پلڑا جھک جائے گا"۔
یہ عالم دین بھی محمود حسن دیوبندی کا شاگرد تھا جو دیوبند کا پہلا فاضل تھا۔
مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انھیں نے سب سے پہلے الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔ان کا 1928 میں ایک مضمون شائع ہوا۔جس میں انھوں نے فرمایا۔
"ہم ایک آزاد مملکت چاہتے ہیں جس میں ہم اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں"۔
دوسرا تصور پاکستان چوہدری رحمت علی نے لندن میں پیش کیا۔
اور تیسرا تصور پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال نے 1930 میں آلہ آباد کے مقام پرپیش کیا۔
ہم آزادی کے رہنماوں کی خدمات کا انکار نہیں کررہے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تحریک آزادی کی ان بنیادوں میں چھپی اینٹوں کا بھی ذکر کیا جائے۔
آج سب سے پہلے تصور پاکستان کو پیش کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کا نام کہاں ہے ؟؟؟
1946 میں باقی علاقوں کا تو معاہدہ ہوا لیکن سرحد میں الیکشن ہوا۔مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری لیاقت علی الیکشن میں کھڑے ہوئے لیکن مسئلہ یہ تھاکہ یہاں کےلوگ مذہبی تھے۔اس وقت مولانا شبیر احمد عثمانی دارالعوام دیوبند کے صدر تھے۔آپ سرحد تشریف لائے۔ اور علامہ ظفر احمد عثمانی کو مولانا اشرف علی تھانوی نے بھیجا۔ان کی کوششوں کی وجہ سے لیاقت علی خان وہ الیکشن جیتے۔
لیکن اس شبیراحمد عثمانی اور علامہ ظفر احمد عثمانی کا کہیں نام نہیں!!!
1947 میں جب 14 اگست کو پاکستان کے پہلے پرچم کو لہرانے وقت آیا تو قائداعظم محمد علی جناح نےآزادی کے دو عظیم رہنماوں کی خدمات کو سراتے ہوئے۔اور دنیا کے سامنے ان کی قربانیوں کا اعلان کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے۔
علامہ شبیراحمد عثمانی سے کراچی میں پاکستان سب سے پہلا پرچم لہراوایا۔اور علامہ ظفر احمد عثمانی سے مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں پاکستان کا سب سے پہلا پرچم لہراویا۔
اسی پر بس نہیں! جب قائداعظم نے قردار مقاصد لکھوانا چاہی تو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کے والد گرامی مفتی شفیع صاحب کو خط لکھا جوکہ اس وقت دیوبند میں قیام پذیر تھے۔اور کراچی بلوایا۔تاکہ مفتی صاحب قردار مقاصد تحریر کریں۔
چونکہ قردار مقاصد پر مفتی شفیع صاحب،علامہ شبیراحمد عثمانی اور قائداعظم کے آج بھی دستخط موجود ہیں۔یہی قردار مقاصد آئیں پاکستان کی بنیاد بنی۔آپ کیسےان چھپی ہوئی اینٹوں کو تاریخ کے اوراق سے حذف کرسکتےہیں۔