آج 9ذوالحجہ کا مبارک دن ہے۔آج کے دن کے بے شمار فضائل و مناقب ہیں۔آج دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر میدان عرفات میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین کی ایک بہت بڑی جماعت کے سامنے اپنا مشہور خطبہ دیا۔اسی مناسبت سے آج بھی امام حج میدان عرفات میں خطبہ ارشاد فرماتے ہیں۔ویسے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجتہ الودع انسانی تعلیمات کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن آپ کی توجہ چند ایک اہم پہلوؤں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔1۔الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ تعالی نے خود اعلان کروا دیا۔
ہم نے جس دین ابتداء حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعے کی تھی آج کے دن اس کی تکمیل ہوگئی۔اور ہم نے دین والی نعمت کو تم پر مکمل کردیا ہے۔اس اعلان کی آج ہمیں تو کوئی اہمیت نہیں ہے۔البتہ خلافت راشدہ کے دوسرے خلیفہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک مرتبہ ایک یہودی آیا۔اور اس نے کہا"عمر تمہارے قرآن میں ایک آیت ایسی ہے۔اگر وہ آیت ہمارے نبی پر نازل ہوجاتی تو جس دن وہ آیت اتری ہے ہم اس دن کو عید کا دن بنالیتے۔فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے۔اس نے یہی آیت پڑھی۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا!!!
ہمیں وہ دن بھی یاد ہے،وہ وقت بھی اور جگہ بھی جہاں پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔عرفہ کا دن تھا،میدان عرفات میں ایک لاکھ سے زائد جانثار صحابہ کرام موجود تھے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔مطلب یہ تھا کہ اس سے بڑھ کر اور عید کا دن کیا ہوتا ہے جس کو ہم عید بنالیتے۔2۔دوسرا اعلان:-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کرام مجھے جو دین دے کر بھیجا گیا تھا کیا وہ دین میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے۔صحابہ کرام نے یک زبان ہوکر جواب دیا کہ آقا آپ نے صرف پہنچا دیا بلکہ پہنچانے کا حق ادا کردیا۔معزز قارئین!!! بات ذرا توجہ طلب ہے۔گویا کہ اس دن سے قریبا ساڑھے بائیس سال قبل ایک وقت تھا جب یہ اعلان کیا تھا "قولو لاالہ الااللہ تفلحو"اور دین کے پہنچانے کا آغاز کیا تھااور آج میدان عرفات میں پوچھا کیا اس دین کو میں نے تم تک پہنچا دیا۔
گویا وہ دین مکمل بھی ہوچکا اور پہنچ بھی چکا۔پھر اللہ تعالی کو اس پر گواہ بھی بنا دیا۔کہ میں اے اللہ آپ اس پر گواہ ہوجائیں کہ میں نے آپ کا دین آپ کے بندوں تک پہنچا دیا۔3۔تیسرا اعلان:-حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جہالیت کی تمام رسومات کو اپنے پاوں کے نیچے روندکر ختم کرڈالا۔اگلی بات بڑی عجیب ارشاد فرمائی!!!میرے بعد اس جہالیت کی طرف نہ لوٹ جانا۔کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ جہالیت کی قدریں کیا تھیں؟؟؟جن کو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کیا۔ان سب بڑی رسم بت پرست تھی،اللہ کے شریک بنانا، گویا پیغمبر نے اعلان کردیا کہ اب عرب میں کوئی بت خانہ نہیں ہوگا۔ہم نے بت خانوں کو اپنے پاوں کے نیچے روند ڈالا۔معزز قارئین!!!جہالیت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔زمانہ جہالیت حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے بعد سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے کے زمانہ کو زمانہ جہالیت کہا جاتا ہے۔
یعنی تاریکی کا زمانہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو نور لائے جس سے تاریکی کے اندھیرے چھٹ گئے گویا کہ جب یہ روشنی پھیلی تو اس نے جہالیت اور اسکی رسومات کو روند ڈالا۔اور اس زمانے کو آج کی زبان میں روشن خیالی کہاجاتاہے یعنی روشنی کا زمانہ۔تو روشن خیالی کی تعریف سے پہلے ہمیں تاریکی اور ظلمت کی تعریف آنا ضروری ہے۔مسلمانوں کے نزدیک تاریکی کا زمانہ وہ ہوتا ہے جس میں نبوت کی تعلیمات نہ ہوں۔گویا کہ مسلمانوں کے لئے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل زمانہ جہالیت ختم آگے روشنی،ہدایت اور نورانیت ہے۔لیکن اہل مغرب کے ہاں جو روشن خیالی کی تعریف ہے،جو جہالت کی تعریف ہے۔وہ آج قریبا 200 سال قبل فرانس کے انقلاب سے پہلے کا زمانہ ہے۔یعنی اس انقلاب سے پہلے کے زمانے کو تاریکی اور بعد کے زمانے کو روشن خیالی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔گویا کہ یہ روشن خیالی 200 سال قبل دنیا میں آئی ہے۔اور ہم جس روشن خیالی کی بات کر رہے ہیں وہ دنیا میں 1400 سال پہلے آئی ہے۔اب فیصلہ آپ پر کہ مسلمان پہلے سے روشن خیال ہے یا مغرب؟اب بات سمجھیں۔فرانس انقلاب کیا تھا!!!فرانس کے انقلاب سے پہلے دنیا میں جاگیردارانہ نظام تھا۔اس انقلاب کے نتیجے میں جاگیردارانہ طرز کو ختم کرکے سوسائٹی کے طرز کو رائج کیا۔
جس کو آج کی عام زبان میں جمہوریت کا نظام کہا جاتا ہے۔یعنی سوسائٹی کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔اس کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔انھوں نے جب جاگیردارانہ نظام کو دفن کیا تو ساتھ ساتھ چرچ اور مذہبی روایات کو بھی دفن کر دیا۔چونکہ ڈنمارک میں جب توہین آمیز کارٹون کے خاکے بنائے گئے تو ان کو بنانے والا سب بڑا معلون صحافی تھا اس کا ایک مضمون شائع ہوا اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ مسلمانوں اور ہمارے درمیان ایڈجسٹمنٹ اس لئے نہیں ہوسکتی۔کہ ہم نے جاگیردارانہ نظام کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو بھی خیر آباد کہہ دیا۔اور جبکہ مسلمان اب تک اسی نظام کو لیئے بیٹھا ہے۔اس بات کی دوسری دلیل یہ ہےکہ آج دنیا میں جہاں بھی اسلامی نظام کی بات ہوتی ہے۔تو فورا اہل مغرب کی طرف سے ریکشن آتا ہے کہ یہ دنیا تاریکی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔گویا کہ ہم نبوی تعلیمات کو روشن خیالی کہتے ہیں اور وہ جہالت کی تعلیمات کہتے ہیں۔ہم اس دور کو ہدایت اور نورانیت کا دور کہتے ہیں وہ تاریکی کا دور کہتے ہیں۔لہذا آج جو روشن خیالی کی بات کی جاتی ہےاس مطلب یہ ہے
کہ نبوت کی تعلیمات کو چھوڑ کر انسانی سوسائٹی کی تعلیمات کو ماناجائے گا۔آج سے چودہ سو سال قبل خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں اور اعلان کررہےہیں کہ آج سے سوسائٹی کا نظام ختم اور آج سے اللہ کا نظام اللہ کے بندوں پر لاگو ہوگا۔یعنی انسانیت کی فلاح و بہبود کا جو راستہ وہ صرف وحی الہی کا راستہ ہے۔نہ کسی انسان کا بنایا ہوا راستہ۔لہذا ہماری اور مغرب کی سوچ میں فرق ہے۔ہم جسکو روشنی کہتے ہیں وہ اس کو تاریکی کہتے ہیں۔ہم جس کو تاریکی کہتے ہیں وہ اس کو روشنی کہتے ہیں۔اب میرا سوال ہے ان دانشوروں سے جو مسلمانوں کو مغرب کے رنگ میں کی کوشش میں ہیں۔کہ یہ روشن خیالی اور اسلام آپس میں کیسے مل سکتے ہیں؟