تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

شب برات اور مسلمان

  • محمد عدنان کیانی
  • اپریل 19, 2019
  • 6:46 شام

شعبان المعظم کا مہینہ سایہ فگن ہے، جس میں افضل الخلائق، امام الانبیاء محمد عربی ﷺ کثرت سے روزے رکھتے اور عبادات فرماتے تھے۔ اسی مہینے میں ایک رات شب برات بھی ہے، جس میں امت مسلمہ ہمیشہ سے عبادات کا اہتمام کرتی آئی ہے۔

علمائے کرام  فرماتے ہیں کہ تریباً 17صحابہ کرام  سے 15شعبان کی  رات کی فضیلت  مروی  ہے۔ احادیث  مبارکہ کا مفہوم  ہے کہ  اس عظیم الشان رات میں  کثیر تعداد میں  لوگوں کی مغفرت کردی جاتی ہے، جن کی کثرت کو  بتانے کیلئے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا کہ  ’’جتنے بنی کلب قبیلے کی  بکریوں کے  جسم  پر بال  ہیں  اتنی تعداد میں  لوگوں کی  مغفرت کردی  جاتی  ہے‘‘۔ مراد کثیر تعداد بتانا ہے۔ فرماتے  ہیں  اللہ کریم  آسمان  سے منادی فرماتے ہیں  ’’ہے کوئی  مغفرت طلب کرنے والا جسکی میں  مغفرت کر دوں! ہے کوئی رحم چاہنے والا جس پر میں  رحم  کروں! ہے کوئی  رزق چاہنے والا جسے رزق عطا کروں!‘‘۔ غرض کے بخشش و انعامات کا  دریائے  رحمت  خوب  جوش کے ساتھ  بہتا ہے اور خوش نصیب اس میں سے اپنا حصہ خوب بھرلیتے  ہیں۔ ا س رات  میں  عبادت کا کوئی خاص طریقہ  منقول نہیں اس لئے  نفلی عبادات، ذکر و تلاوت،  تسبیح و تحمید  وغیرہ  اعمال میں  مشغول رہا جاسکتا ہے۔ بزرگوں نے  اس رات  کے بعد اگلے  دن کے روزے کا بھی فرمایا  ہے ۔

مگر مقام  فکر  یہ ہے کہ ایسی رحمتوں اور انعامات والی رات میں  بھی مسلمانوں کا ایک بدنصیب  گروہ (اللہ کریم ہماری حفاظت فرمائے) اس کی  تمام  تر  رحمتوں  سے محروم رہتا  ہے۔ اسے نہ  مغفرت ملتی ہے  نہ کوئی انعام جب تک  وہ ان  برائیوں سے سچی و پکی توبہ نہ کرلے، اپنا معاملہ درست  نہ کرلے، ان  برائیوں کو چھوڑ نہ دے۔ ان محروم افراد میں مشرک، قطع رحمی کرنے والا،  کینہ رکھنے والا،  والدین کا نافرمان، شرابی، ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے  والا، ناحق کسی کو قتل کرنے والا  شامل ہیں۔  جبکہ حضرت شاہ  عبدالحق محدث دہلوی ؒ  نے  ان  افراد میں  رشوت  لینے والا، جادو ٹونا کرنے والا، غیب کی خبریں  اور فال نکالنے والا، گانے اور میوزک انسٹرومنٹس  بجانے والا  بھی شامل کیا ہے۔ یہ  ایسے برے اعمال ہیں کہ  ان  کی نہوست  اس  مبارک رات  کی برکتیں  تک روک  لیتی ہے۔ چاہیے تو یہ کہ ہم  میں سے کو ئی بھی ان  میں کسی  بھی  برائی کا شکار ہو اس سے فوری  توبہ کرکے اپنا معاملہ سدھارلے تاکہ  اس رات کے انعامات  حاصل کئے جاسکیں۔ مگر مقام افسوس یہ ہے کہ ہم اس رات سے  پہلے اور خاص اس رات میں  بہت سے بدترین کاموں  میں لگے ہوتے ہیں جن میں سرفہرست آتش بازی  ہے۔ پٹاخے پھوڑنے سے نا صرف مخلوق خدا کو ایذا پہنچتی ہے بلکہ  یہ حد درجہ اسراف  بھی ہے۔

آپ نے اپنے  محلے اور آس پاس ہولناک پٹاخوں  کا طوفان  بدتمیزی  ملاحظہ کیا ہی  ہوگا ۔ حیران کن بات  یہ ہے کہ  یہ  انسانیت سے  عاری  اور تکلیف دہ  عمل  باقاعدہ  اچھی خاصی تجارت  کی صورت  اختیار  چکا ہے۔ آتش بازی  پیسوں کو آگ  لگاکر اڑانے والا  کھیل اتنا  عام ہے  کہ  نہ اسپتالوں  کا خیال، نہ مساجد میں ہوتی نماز و عبادات کا پاس،  نہ کسی  غریب کی جھونپڑی  جل جانے  کا خوف بس  ایک دھن  ہے  جو سوار  ہوتی  ہے اور بڑوں سے  لے کر چھوٹے تک اس میں  مدہوش ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جس  بےدردی سے  پیسے  کا ضیاع  کیا جاتا  ہے وہ کم از کم اس قوم کے لائق حال تو بالکل  نہیں  جو دوسروں  سے قرضے مانگتی  پھر رہی  ہے، مگر  ایک رات میں  وہی قوم  کروڑوں روپے پٹاخوں  میں  آگ لگا کر اڑا دیتی ہے۔ اس رات  میں باقی  ایک بڑی  تعداد مرد و خواتین کی ہے، جو  قبرستانوں میں پائی جاتی ہے اور جو باقی بچ جاتے ہیں بعض چراغاں کی  نظر  ہوجاتے  ہیں اور بعض  حلووں اور ہوٹلوں کی  زینت بن جاتے  ہیں۔ اس رات کی قدر و منزلت ہم یہی سمجھ بیٹھے ہیں  اور اسی پر کاربند بھی رہنا چاہتے ہیں ۔ہاں  البتہ  اللہ والوں،  سمجھدار  مسلمانوں  کی ایک جماعت  ایسی  بھی ہوتی  ہے جو اس رات  کے  خوش نصیب ہیں، جو اللہ کے دربار سے خوب انعامات و  بخششیں  لےکر اٹھتے  ہیں  اور یہی  ہیں  جن کے صدقے  ہم جیسے  نفس پرست  بھی  بچے ہوئے  ہیں۔

اگر غور کیا جائے  تو ہم نفس پرستوں  نے من پسند  چیزوں  کو اپنے  تئیں  دین سمجھ لیا  ہے اور اصل دینی تعلیمات سے کوسوں  دور ان لغویات  پر اپنا وقت و مال  برباد کررہے ہیں وہیں اپنی آئندہ آنے والی نسل کو بھی  کوئی اچھی تربیت و اخلاق  نہیں سکھا پا رہے۔ انسانیت اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہی  ہے۔ہر طرف  افرا تفری اور  نفسا  نفسی  کا عالم ہے۔قتل و غارت گری، چوری ، ڈاکہ، دھوکہ،مطلب پرستی، منافقت، بےحیائی  غرض کہ ہر اخلاقی  برائی  ہم  میں  گھر آئی ہے مگر ہم  بجائے اس دگرگوں صورتحال پر غور  و  فکر  اور اس  کے سدباب  کے بجائے مزید برائیاں اختیار کئے جارہے  ہیں۔کیا خوب کہا ہے کسی نے:

’’خرد  کا نام جنوں  رکھ دیا جنوں  کا خرد  جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘

عقلمندی اور حقیقی فطرت  پر  عمل اب بے عقلی سمجھا جانے لگا  ہے  جبکہ ہر  بے وقوفی،  برائی، غیروں کی  نقالی  عقل و  سمجھ اور ترقی  کا زینہ  بن گئی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جس نازک دور سے ہم گذر رہے  ہیں اگر اس میں کوئی حقیقی بادشاہ  یہ اعلان  کرے کہ آؤ  آج کے دن تمھارے  ہر دکھ، تکلیف  کا مداوا کردیا جائیگا، جو چاہو گے پالوگے اور ہم پھر  بھی اس بادشاہ کے دربار میں  نہ جائیں  ، اس سے رجوع  نہ کریں  بلکہ الٹا اس کی مخالفت  شروع  کردیں یا اس کے دربار میں جائیں تو  مگر اس کی ناراضگی کےاسباب بھی ساتھ جمع کرکے لےجائیں  تو بتائیے ہم سے بڑا بےوقوف اور  جاہل کون ہوگا۔اندھا کیا چاہے  دو آنکھیں بس اسکے  مصداق  ہمیں اسلامی تعلیمات کو اپنا کر اپنی حالت سدھارلینی چاہئے۔ خرافات  کو چھوڑ کر حقیقی  شریعت کو اپنا لینا  چاہئے۔حقیقی بادشاہ، رب ذولجلال، رازق و خالق ، رب  کائنات کے دربار میں  سر جھکا دینا چاہیے۔اسے منالینا ہی  ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔اسی نے امت  مسلمہ  کو پہلے  بھی عزتوں سے نوازا  وہی اب بھی  نوازنے پر قادر  ہے۔ بس اس کے دربار میں  سر جھکانے  کی دیر ہے  وہ تو  تھامنے کو تیار ہے۔ اس کا ارشاد  مبارک ہے  ’’تم ایک قدم آؤ ! میں 10 قدم آؤں گا، تم چل  کر آو میں دوڑ کر آؤں گا‘‘۔ اللہ تبارک و تعالی  کو توبہ  کرکے  واپس پلٹ آنے والے  بڑے  ہی محبوب ہیں۔

محمد عدنان کیانی

محمد عدنان کیانی بین الاقوامی سطح پر جانی جانے والی دینی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ وہ اردو و انگریزی کالم نگاری اور سب ایڈیٹنگ سمیت سماجی خدمات میں بھی پیش پیش ہیں۔ مذہبی امور پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

محمد عدنان کیانی