سماجی و دیگر معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے رہتے ہیں اور ان کے خطبات ‘ دروس‘ مجالس اور تحریروں کے ذریعے اپنے عقائد ‘ نظریات اور اعمال کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ہر دور میں پختہ علماء اور آئمہ کے ساتھ وابستہ رہی اور ان کے دروس اور خطبات کو نہایت جوش وخروش اور عقیدت واحترام کے ساتھ سنا جاتا رہا۔ پختہ اور سنجیدہ علما کے ساتھ تعلق ہونا یقینا ہر سنجیدہ اور باشعور شخص کے لیے باعث عزت وافتخار ہے۔ جید علماء کی رفاقت یقینا دین و دنیا کی بہتری کا ذریعہ ہوتا ہے‘ اسی طرح کسی بھی جید عالم کی رحلت یقینا بہت بڑا سانحہ ہوتی ہے اور اس کی وفات سے پیدا ہو جانے والا خلا مدت مدید تک پر نہیں ہوتااور انسان تادیر معاشرے میں ان کی کمی کو محسوس کرتا ہے۔ کسی بھی باعمل عالم کی رحلت پر ہر دین پسند انسان بہت زیادہ بے چینی اور غم کو محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کہ اُس کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ علماء کی روحوں کے قبض ہوجانے سے انسان نہیں ‘بلکہ علم بھی اُٹھ رہا ہے‘جس طرح سنن ترمذی کی حدیث ہے کہ عبداللہ بن عمر وبن عاص ؓ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اُٹھائے گا کہ اُسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے‘ لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعے اُٹھائے گا۔‘‘
مئی کا مہینہ اس اعتبار سے بہت سی تلخ یادوں کو ساتھ لیے ہوئے آیا کہ اس مہینے میں چار عظیم علماء دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مولاناعبدالحمید ہزاروی ؒطویل عرصے تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث رہے اور بہت سے جید علماء کرام نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ کو طے کیا۔حافظ عبدالمنان نورپوری ؒ اور حافظ شریف صاحب جیسے عظیم علماء نے آپ سے علم کو حاصل کیا۔ آپ سے علم حاصل کرنے والے علماء کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہے۔ حافظ عبدالحمید ہزارویؒ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے زُہد‘ تقویٰ ‘ للہیت کی عظیم صفات سے نوازا تھا۔ کتاب وسنت کے استحضار کے ساتھ ساتھ آپ کو فقہی مسائل کے استنباط میں بھی غیر معمولی مہارت تھی۔ جب کوئی سائل آپ سے سوال کرتا تو آپ جواب دیتے ہوئے دلائل کے انبار لگا دیا کرتے تھے۔ آپ کا درس سننے والے لوگ آپ کے علم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے جامعہ محمدیہ گوجرانولہ کے طلبہ کی تقریب تقسیم اسناد میں شرکت کا موقع ملا۔ مولانا عبد ا لحمید ہزارویؒ اس تقریب کے روح رواں تھے۔ تقریب کے بعد کھانے کی نشست میں مولانا عبدالحمید ہزاروی ؒ کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان کی پیار اور محبت بھری باتیں تاحال ذہن اور قلب کو منور کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر بہت ہی زیادہ شفقت والا معاملہ فرمایا اور علمی موضوعات کے ساتھ ساتھ نجی حوالے سے بھی گفتگو کی۔ جب مجھے مولانا عبدالحمید ہزاروی ؒکے انتقال کی خبر ملی تو وقتی طور پر میرا ذہن اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہو رہا تھا‘ لیکن انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم کو خم کرنا پڑتا ہے۔
مولانا عبدالحمید ہزاروی ؒ کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور گوجرانوالہ کے گردونواح میں رہنے والے دین پسند لوگوں نے مولانا کی وفات کے صدمے کو نہایت شدت سے محسوس کیا۔ مولانا عبدالحمید ہزارویؒ کا خلا یقینا طویل عرصے تک پر نہیں ہو سکے گا۔ ان کے تلامذہ کو چاہیے کہ مولانا کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے تدریس اور تبلیغ کے کام کو پوری شدومد سے جاری رکھیں۔ مولانا عبدالحمید ہزاروی ؒ کے انتقال کے بعد پروفیسر ثناء اللہ خاں صاحب کے انتقال کی خبر بھی میرے لیے بہت بڑے دھچکے کا باعث تھی۔ آپ طویل عرصے تک گورنمنٹ کالج لاہور میں اسلامیات کے استاد بھی رہے اور پونچھ روڈ سمن آباد کی مسجد میں درس وتدریس اور دین کی نشرواشاعت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ پروفیسر ثناء اللہ خاں کے شاگردملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور لوگ ان کی سلاست‘
خطابت‘ فکر آخرت کے بارے میں خوبصورت گفتگو اور موت کا احساس دلانے والی وعظ ونصیحت کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اترتا ہوا محسوس کرتے رہے۔ میں جن ایام میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا‘ ان ایام میں پروفیسر ثناء اللہ خاں صاحب گورنمنٹ کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ پرُ وقار چہرہ‘ سنجیدگی‘ متانت‘ دھیما پن‘ حلم اور بردباری ان کی شخصیت کے خوبصورت عناصر تھے۔ وہ کئی مرتبہ مرکزقرآن وسنہ لارنس روڈ پر خطاب کرنے کے لیے بھی تشریف لاتے رہے۔ ان کی خطابت انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھی اور انسان کو اس کے مقصد تخلیق کا صحیح طور پر احساس دلایا کرتی تھی۔ بڑے بڑے سخت دل لوگ بھی آپ کی گفتگو کو سن کر چونک جایا کرتے اور اپنی زندگی میں کی گئی بداعمالیوں پر ندامت کو محسوس کرتے تھے۔ پروفیسر ثناء اللہ خاں صاحب کی باقیات میں شیخ ضیاء اللہ برنی بھائی ہیں ‘جو کہ دینی اور دنیاوی علوم کے اعتبار سے ایک ممتاز شخصیت ہیں اور پروفیسر ثناء اللہ خاں صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ پروفیسر ثناء اللہ خاں صاحب کا خلا بھی ایک طویل مدت تک پر نہیں ہوسکے گا۔ مجھے شیخ ضیاء اللہ برنی سے اس بات کی اُمید ہے کہ وہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔
مولانا عبدالرشید راشد ہزارویؒ پانچ عشروں تک لوگوں کو حدیث کی تعلیم دیتے رہے اور طویل عرصے تک بلاناغہ ساہیوال سے درالحدیث اوکاڑہ جاکر طلبہ کی علمی پیاس کو بجھانے کافریضہ انجام دیتے رہے۔ میں ایک مرتبہ اُن کی دعوت پر ساہیوال بھی گیااور انہوں نے بہت ہی محبت اور شفقت بھرے انداز میں مجھے خوش آمدید بھی کہا۔ مولانا عبدالرشید راشد ہزارویؒ کی متانت ‘ سنجیدگی اور خلق خدا کے ساتھ ان کا پیار پورے علاقے میں ایک مثالی حیثیت رکھتا تھا۔ مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی ؒکے انتقال کی خبر یقینا عصاب کو جھنجھوڑ دینے والی خبر تھی۔ ساہیوال طارق ابن زیادہ کالونی میں آپ کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ مولاناعبدالرشید راشد ہزاروی ؒ کے جنازے میں شرکت کے لیے میں بھی لاہور سے ساہیوال پہنچا ۔ مولانا عتیق اللہ سلفی نے اس موقع پر بہت زیادہ گڑ گڑا کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کروائی اور جنازے میں موجود لوگوں پر اس دعا کی وجہ سے رقت طاری ہو گئی۔ مولانا کے انتقال نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ دنیا ناپائیدار ہے اور یہاں پر کسی کو بھی دوام نہیں اور جو بھی دنیا میں آیا ہے اس کو جلد یا بدیر اپنے خالق ومالک سے ملاقات کے لیے روانہ ہونا پڑے گا۔
قاری یحییٰ رسول نگری ؒ‘قرآن مجید کے ایک بلند پایہ قاری اور فن قرأ ت میں دسترس رکھنے والی ایک عظیم الشان شخصیت تھے۔ قاری یحییٰ رسول نگریؒ ساری زندگی قرآن مجید اور اس کی قرأ ت کی تدریس کے مشن سے وابستہ رہے اور ملک کے طول وعرض میں آپ کے شاگرد ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ مجھے ان کی بہت سی شفقتوں اورمحبتوں کو سمیٹنے کاموقع ملا اور ایک موقع پر علماء کے بڑے اجلاس میں انہوں نے کھلے عام میری حوصلہ افزائی کی۔ ان کی وفات کی اطلاع یقینا قرآن مجید سے محبت کرنے والے قراء کرام کے عصاب پر بجلی بن کر گری اور ہر حساس دل اس خبر کو سن کر اشکبار ہو گیا۔ میں مولانا یحییٰ رسول نگری ؒکے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے اوکاڑہ کے نواحی گاؤں رسول نگر پہنچا تو وہاں پر موجود علماء اور طلبا نے مولانا کے ساتھ میری نسبت کی وجہ سے مجھے مولانا کا جنازہ پڑھانے کے لیے کہا۔ مولانا کے جنازے میں ہر دل مغموم اور ہر آنکھ اشکبار نظر آئی۔ مولانا یحییٰ رسول نگریؒ کی وفات سے یوں محسوس ہوا جیسے زمین پرکچھ پہاڑ کم ہو گئے ہیں یا زمین کا دامن قدرے تنگ ہو گیا ہے۔
ان چاروں بزرگ علماء کی رحلت نے دل اور دماغ کو بوجھل کر دیا اور اس بات کا احساس دلایا کہ اگر اتنے بلند پایہ علماء دنیا میں نہیں رہے تو یقینا ہمیں بھی اپنے خالق ومالک سے ملاقات کے لیے دنیا کو خیر آباد کہنا ہو گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونے کے بعد ہمارے پاس مزید عمل کرنے کے امکانات ختم ہو چکے ہو ں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ملاقات سے قبل اپنی ملاقات کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور علماء کی وفات سے ملنے والے اسباق کو اپنے دل میں جگہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )