اسرائیل کی پاکستان دشمنی کے اسباب اور ان وجوہ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں جن کی بنا پر پاکستان یہودیوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے۔ 1956 میں نہر سویز پر اسرائیل برطانیہ اور فرانس کے حملے سے لے کر اب تک عرب دنیا اور بالخصوص اہل فلسطین کے خلاف بین الاقوامی جمہوریت نے جتنی کاروائیاں کیں، پاکستان نے خود عرب ملک نہ ہونے کے باوجود ان کاروائیوں کو اپنے خلاف معاندانہ سرگرمیاں سمجھا بلکہ عربوں سے بڑھ کر ثابت ہوا کیونکہ وہ ان کے ساتھ اسلام کے اس رشتے سے منسلک ہے جو پندرہ صدیوں سے مسلمانوں کو آپس میں پروئے ہوئے ہے۔
اور وہ عربوں پر احسان کر کے نہیں بلکہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کر اپنا اسلامی کردار ادا کرتا رہا۔ جوابا عربوں کا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا وہ پاکستان کے اس کردار کو دلی طور پر پسند کرتے رہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو انہوں نے پاکستان کی اس کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا اور پر بے حد خوشی کا اظہار کیا ۔
بعض عرب ملکوں نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو سیاسی طور پر تسلیم بھی کرلیا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا اور امریکہ برطانیہ وغیرہ کے سخت دباؤ اور ترغیب کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہا۔ اسرائیل کی اس دشمنی کا ایک سبب اور بھی ہے وہ یہ کہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد مذہب ہے، یہود کا اسلام کے ساتھ بیر پندرہ صدیاں پرانا ہے چنانچہ جب وہ اپنی نظریاتی بنیاد پر غور کرتے ہیں تو انہیں یہی تاریخ تاریخی تصادم یاد آجاتا ہے جس کا آغاز ریاست مدینہ میں ہوا تھا۔
اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے اس حقیقت کا اعتراف 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے فورا بعد کیا کیا انہوں نے پیرس (فرانس) کی ساربون یونیورسٹی میں ممتاز یہودیوں کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا :"بین الاقوامی صہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی آئیڈیالوجی (نظریاتی) جواب ہے۔ پاکستان کا ذہنی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے باعث مصیبت بن سکتی ہے۔ ہمیں اچھی طرح سوچ لینا چاہئے ۔ بھارت سے دوستی ہمارے لئے نہ صرف ضروری بلکہ مفید بھی ہے ۔ ہمیں اس تاریخی عناد سے لازما فائدہ اٹھانا چاہئے جو ہندو پاکستان اور اس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے ۔ یہ تاریخی دشمنی ہمارے لئے زبردست سرمایہ ہے۔ لیکن ہماری حکمت عملی ایسی ہونی چاہئے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعہ ہی بھارت کے ساتھ اپنا ربط و ضبط رکھیں۔"
( یروشلم 9 اگست 1967)
یہی بات ایک دوسرے پیرائے میں امریکی کونسل فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے زیراہتمام چھپنے والی ایک کتاب " مشرق وسطیٰ:سیاست اور عسکری وسعت")(Middle East:Politics and Military Dimensions ) مین کہی گئی ہے جس میں اس نظریے کا پاکستان کی مسلح افواج اور سول ایڈمنسٹریشن کے کردار کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے: "پاکستان کی مسلح افواج نظریہ پاکستان، اس کے اتحاد و سالمیت اور استحکام کی ضامن بنی ہوئی ہے ۔ جبکہ ملک کی سول ایڈمنسٹریشن بالکل مغرب زدہ ہے اور نظریہ پاکستان پر یقین نہیں رکھتی۔"
اسی کتاب کے مصنف عالمی شہریت یافتہ یہودی پروفیسر سی جی پروئینز ہے جس نے بڑی کاوش اور سے واقعات اور مستند حوالوں کو یکجا کیا تا کہ یہودیوں کی بین الاقوامی تحریک کے کارکن ٹھیک ٹھیک نشانے لگا سکیں۔