معروف تحقیقاتی صحافی کی نظر سے کوٹ مومن کی انتظامیہ ۔
شہر میں بیماریوں کا باعث بننے والی کوٹ مومن انتظامیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صلاحیت نہیں یا نیت ہی نہیں
مجھے معلوم نہیں کہ نئے انتظامی آفیسرز میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ معاملات کو بہتر انداز میں چلا سکیں یا وہ اپنے اے سی کمروں سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ، لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ کوٹ مومن میں آنے والے ہر اسسٹنٹ کمشنر نے آتے ہی بس دکھاوے کے چند اقدامات کیے اُس کے بعد وہ بادشاہ سلامت کی شکل اختیار کر گئے ، کہ جن سے عام لوگوں کا ملنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے
ایک محترمہ عفت النساء آئیں تو انہوں نے انتظامی امور درست کرنے کے بجائے طاقت کے نشے میں چور ہو کر ایک پروفیسر کو ہی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا
آصف حسنین صاحب تشریف لائے تو موصوف خود کو صوبے کے چیف سیکرٹری سمجھنے لگے ، کب دفتر میں ہوتے تھے کب ملاقات کی جا سکتی تھی ، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا
تاہم ان دونوں آفیسرز میں یہ بات کامن تھی کہ ہر چوتھے دن موٹروے کے سروس ایریا پر کوئی چھاپہ لگا دیا تا کہ واہ واہ بھی ہو جائے اور تصاویر ہمراہ خبر میڈیا کی زینت بھی بن جائے
اس کے علاوہ کارکردگی کی بات کریں تو صفر جمع صفر ، ضرب صفر تقسیم صفر برابر ہے صفر والا نتیجہ ہی ہمیشہ سامنے آیا
کوٹ مومن چونکہ میرا آبائی علاقہ ہے اس لیے جب بھی کسی نئے اے سی کی تعیناتی ہوتی ہے تو یہ خوش فہمی پال لیتا ہوں کہ شاید کوئی بہتری کے آثار نظر آئیں ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس شہر کے باسیوں کی قسمت ہی خراب ہے کیونکہ جو افسر بھی آیا اس کو عوامی مسائل سے زیادہ خودنمائی کا شوق رہا
جعفر چوہدری اس وقت کوٹ مومن کے اے سی ہیں ، جب ان کی تعیناتی ہوئی تو ہمیں پھر امید ہوئی کہ شاید معاملات سدھار کی طرف جائیں ہم صحافیوں کے بس میں صرف خوش فہمی پالنا ہی ہوتا ہے ، ابتداء میں معلوم ہوا کہ تجاوزات کے خلاف ایکشن لیا گیا ، لیکن پھر سابقہ کولیگز کی طرح چوہدری صاحب کو بھی نظر لگ گئی ، اب پھر وہی صورتحال ہے
ایک بات طے ہے کہ اے سے عفت النساء ہو ، آصف حسنین ہو یا جعفر چوہدری معاملات کچھ مخصوص لوگوں نے ہی چلانے ہوتے ہیں اور وہ سرعام یہ کہتے ہیں ساڈے نال بنا کے رکھو
جو ابتدائی کچھ ہفتوں میں ہی ان کو افسران کو شیشے میں اتار لیتے ہیں ، جس کے درجنوں طریقے ہیں آہستہ آہستہ انہیں اس بات پر رضامند کرتے ہیں کہ چھوڑیے آپ نے عوام کے منہ کیا لگنا یہ جاہل لوگ ہیں ہم سب دیکھ لیں گے اور پھر وہ اے سی والے اختیارات سے بھی خود ہی لطف اندوز ہوتے ہیں جب کہ صاحب بہادر اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ کام بھی ہو رہا ہے اور اسے دفتر سے نکلنا بھی نہیں پڑ رہا ، یہ پریکٹس سالوں سے چل رہی ہے اور ابھی جاری ہے ، کچھ عرصہ بعد وہ افسر بجائے کام نہ کرنے والوں کی سرزنش کے عوام کو ہی ہر مسئلے کی وجہ قرار دے رہا ہوتا ہے ، بس یہ ہے کوٹ مومن میں تعینات ہونے والے اعلی افسران کی صورتحال ، لیکن ہم اس فرعونیت پر پہلے بھی احتجاج کر رہے تھے ، اب بھی ماتم کناں ہیں
ابھی کوٹ مومن کی حالت ناگفتہ بے ہے ، عید پر چکر لگا تو حیران رہ گیا کہ ان افسران کو نیند کیسے آ جاتی ہے ، یہ اپنی تنخواہ کیسے حلال کر لیتے ہیں ، کورونا سے کیا لڑنا یہ تو اس قابل نہیں کہ شہر سے تھوڑی گندگی ہی کم کر سکیں ، اب جو نیا طریقہ اپنایا گیا ہے وہ زہرقاتل ہے ، کچرے کو اکٹھا کر کے رہائشی علاقوں میں آگ لگا دی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے
سانس سمیت دیگر مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں ، جب کہ سیوریج کا پانی گلی گلی کھڑا ہے
لیکن کسی کو شرم نہیں آ رہی کہ وہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ، بھلا کونسا قانون ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے ، اپنی نااہلی کی سزا اس شہر کی عوام کو کیوں دے رہے ہو ، کوٹ مومن کے تمام مسائل جوں کے توں ہیں عوام ذلیل ہو رہی لیکن آپ کو اس سے کیا ، آپ تو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں
جناب اے سی جعفر صاحب اس طرح رہائشی علاقوں میں کوڑے کو آگ لگا کر لوگوں میں بیماریاں پھیلا کر آپ عوام کی کونسی خدمت کر رہے ہیں اور انتظامی صلاحتیں دکھا رہے ہیں کچھ ہوش کے ناخن لیں یہ غریب عوام اپنے ٹیکس کے پیسے سے آپ کو تنخواہ دیتی ہے اور انہی کے پیسوں سے آپ کی سرکاری گاڑی کا فیول پورا ہوتا ہے
لیکن آپ کو کیا ، آپ کو تو اے سی کمرے میں سب اچھا کی رپورٹ مل جاتی ہے
اور آپ آج کل صرف تقریبات اور افتتاحوں میں ہی شرکت کو اپنا فرض سمجھ چکے ہیں
اگر کوئی پنجاب سرکار کا اعلی افسر اس تحریر کو پڑھ رہا ہے تو اس پر فرض بنتا ہے کہ ایکشن لے
مجھے معلوم نہیں کہ نئے انتظامی آفیسرز میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ معاملات کو بہتر انداز میں چلا سکیں یا وہ اپنے اے سی کمروں سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ، لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ کوٹ مومن میں آنے والے ہر اسسٹنٹ کمشنر نے آتے ہی بس دکھاوے کے چند اقدامات کیے اُس کے بعد وہ حاکم وقت کی شکل اختیار کر گئے ، کہ جن سے عام لوگوں کا ملنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے