پچھلے دس دنوں سے بہت سے لوگ مجھ سے لاک ڈاؤن میں خاموشی سے گزرتے ہوئے رمضان کے آخری عشرے، طاق راتوں اور عافیہ کی اپ ڈیٹس کے حوالے سے پیغام کے لئے زور دے رہے ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان حالات میں، میں کیسے کوئی فکر انگیز بات کروں؟ پھر بھی بہت کوشش کے بعد ذیل میں میں نے کچھ عاجزانہ سے خیالات کو مجتمع کرنے کی کوشش کی ہے۔
عافیہ کو امریکی قید میں 6000 دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ جس اذیت، زیادتی، زبردست دماغی تکلیف کا سامنا کرر ہی ہے اسے ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔عافیہ سے ایک فرعونیت بھری برتری اور تفاخر کے ساتھ بار بار پوچھا جاتا ہے کہ: ''اب تمہارا اللہ کہاں ہے؟'' یا "تمہیں بچانے کے لئے تمہارا نبی کہاں ہے؟''
اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ کچھ الگ تھلگ اقدامات ہیں، تو ذرا کشمیر، برما، ہندوستان، فلسطین اور دنیا کے ہر اس حصے میں جہاں مسلمان برسوں سے ستائے جارہے ہیں ان کا تصور کر لیں تویہ سب کچھ بخوبی ہماری سمجھ میں آجائے گا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہر جگہ وسیع پیمانے پر کم و بیش یہی سلوک ہو رہا ہے۔
عافیہ طنزیہ اور متشدد انہ رویے کو 17 سالوں سے قید تنہائی کے بد ترین ماحول میں برداشت کر رہی ہے او ر جسے ہم بری طرح سے نظرانداز کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگوں نے اس معاملے پر اعتماد کھو دیا ہے، اس کے ثبوت کے لئے ڈان کا کمنٹس سیکشن بہترین جگہ ہے۔
جیسا کہ اللہ اپنے وقت اور اپنی حکمت کے مطابق آگے بڑھتا ہے، اللہ نے اب تک حکمرانوں اوران کے ساتھیوں کو عافیہ اور اس جیسے ہزاروں بلکہ لاکھوں مظلوم بے گناہوں کو بچانے کے لئے بہت سارے مواقع فراہم کیے ہیں لیکن ان سب نے اپنے محدود معاشی یا سیاسی فوائد کی خاطر اپنی ذمہ داریوں سے صرف نظر کر کے جو پسپائی اختیار کی ہے وہ پوری قوم کے لئے باعث ذلت ہے۔
عافیہ کے قید تنہائی میں ہزاروں دنوں کی اذیت کو ہم نے معمول کی بات سمجھ کر قبول کر لیا ہے اور تدارک کے بجائے اس تکلیف کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہم نے اپنی روحیں گروی رکھ دی ہیں، اپنے ضمیر کا سودا کر لیا ہے تاکہ ہم اپنی معمولی “آزادیاں" انجوائے کر سکیں اور اپنے ان چند ٹکوں کے ''مددگاروں'' پر ویسے ہی یقین رکھیں جیسا کہ ہمیں اپنے اللہ پر رکھنا چاہیئے۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔جیسا کہ کووڈ 19 کے حوالے سے دنیا میں پھیلی ہوئی عظیم معاشی کامیابیاں اور اب ایک انسانی آنکھوں سے نظر نہ آنے والی معمولی سے حیاتیاتی وائرس کے زریعے اللہ نے انسانیت کے سارے غرور و تکبر اور معاشی برتری کو خاک میں ملا دیا ہے۔
اس وائرس کے سامنے سارے طاقتور ہتھیار بیکار ہیں،دول کے انبار ہیچ ہیں، عظیم آزادیاں جس کے لئے لاکھوں افرادہلاک کئے گئے، لعنت بن گئی ہیں۔ ہم سب اپنے گھروں میں قید ہیں، اپنے پیاروں کو چھونے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اکیلے ہی مر رہے ہیں، ایک دوسرے کے خوف سے جی رہے ہیں۔ ہم ایسے وقت میں الگ تھلگ ہیں جب اس زمین پر پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ لوگ موجود ہیں۔ کعبہ خالی ہے اور صرف ابابیلیں ہی خوف سے پاک ہیں۔ غریب صفائی کرنے والے کو جسے کعبہ میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی اب وہ اکیلا خود ہی سارا حرم سنبھال رہا ہے۔ عظیم معاشی اور سیاسی مساوات کو بھلا کر دنیا بھر کے ارب پتی اپنے محلات یا دور دراز جزیروں میں روپوش ہوگئے ہیں۔
چند دن میں ہم بحیثیت عوام ایک تباہ حال دماغی ملبہ بن چکے ہیں۔ جبکہ عافیہ کی 6000 دن سے زیادہ تکلیفوں کے مقابلے میں ہماری 60 دن کی تکلیفیں کچھ بھی نہیں ہیں۔ عافیہ کے چہرے سے نقاب کھینچنے والے آج خود اپنے چہروں کو ڈھانپنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں کے لئے خطرے اور دہشت کی علامت بننے والے آج اپنی ہی سانسوں سے خوفزدہ ہیں۔ وہ قومیں جو ظلم و سفاکیت کرنے والوں کا مظاہرہ کے خلاف خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں، مظالم کے ارتکاب میں ان کی مددگاروں بنی ہوئی تھیں وہ آج خود مجبور ی اور بے بسی کی منہ بولتی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ خود ان کے ''مددگار'' دوسروں سے امداد کی درخواست کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ۔
یہ رمضان واقعی ہم سب کے لئے ایک آئینہ ہے کہ ہم توبہ کریں اور اللہ کی رحمت طلب کریں۔ یہ پیغام نیا نہیں بلکہ صدیوں سے موجود تھا، ہم ہی اسے یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا بھول بیٹھے تھے، لیکن اس سال نے ہمیں بھولا ہوا پیغام یاد دلا دیا ہے۔
میں نے ان حالات کو اللہ کی طرف سے ایک ''نرم'' انتباہ سمجھا ہے، کیونکہ میرا یقین ہے اور عافیہ کی آزمائش نے مجھے سکھایا ہے کہ اللہ کی رحمت ہمیشہ اس کے قہر سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہم جس وبا کا سامنا کر رہے ہیں وہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ ہمارا اپنا تکبر، خوف اور کسی بھی چیز پر اعتماد کا فقدان اور عدم تحفظ ہے کہ جس نے اس وبا کے اثرات کو بڑھاوا دے دیا ہے۔ اب اللہ نے ہمیں اپنے وسائل میں ہی اس سے نمٹنے کے لئے علم اور موقع فراہم کیا ہے لیکن اس کے استعمال کے لئے ہمت، انصاف اور انصاف پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔
وہ معاشرے جہاں ان اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے وہ اس وبا کے اثرات کا کم سے کم شکار ہو ئے ہیں اور ان کا نقصان کم سے کم ہو رہا ہے اور جو معاشرے بدعنوانی کا شکار ہیں وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے، صرف اس لئے نہیں کہ یہ وائرس بہت خطرناک ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے اپنے اعمال انتہائی بد ہیں۔ جس طرح دہشت گردی کی جنگ لالچ اور ناانصافی کی سرپرستی میں لڑی گئی تھی، اسی طرح یہ وبائی بیماری بھی بالآخر انہیں اور ان کے معاشروں کو ختم کر دے گی۔
اس وبا کو ختم کرنے اور آئندہ ان وباؤں سے بچنے کا فقط ایک ہی طریقہ یہ ہے کہ ان تما م تر ناانصافیوں کو یکسر ختم کیا جائے جس کی بدولت آج ہم ان حالوں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہی ہم خدا کی رحمت کے حقداربنیں گے اور اس وبا کی ہولناکیوں پر قابو پانے کی توفیق بھی پائیں گے۔
کارزویل کی امریکی جیل جہاں میری بہن عافیہ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے، وہاں بھی کورونا وبا تیزی سے پھیل رہی ہے، سینکڑوں قیدی اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں، پانچ اموات ہو چکی ہیں۔ دوسرے ممالک کے قیدی اپنے حکمرانوں کی کاوشوں کی بدولت رہا ہو رہے ہیں، لیکن ہماری پاکستانی حکومت نے عافیہ کو وطن واپس لانے کے لئے تاحال کوئی پیشرفت نہیں کی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ: کیا ہم ایک بار پھر سے خاموشی اختیار کئے رکھیں گے؟ اور کیا پھر اگلی بہت بڑی آفت کے حملے کا انتظار کریں گے؟
اس مشکل ترین وقت میں جب افراد اور قوموں کے کردار بے نقاب ہورہے ہیں۔ اگر ان تمام بڑھتی ہوئی ناانصافیوں پر بدستور خاموشی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم مزید سخت حالات سے دوچار ہوں گے ب اور پھر ہم اپنی بزدلی اور احساس کمتری کے نتائج پر کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکیں گے۔
اس رمضان المبارک میں، پاکستانیوں کو ٹیلیویژن پر ارطغرل غازی سے متعلق ایک ٹی وی ڈرامہ دیکھنے کو ملا ہے جس کی کہانی کا آغاز ایک مظلوم عورت کی خاطر لئے گئے بہادری پر مبنی اقدام سے کیا گیا ہے اور اس کا اختتام فتح کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے ساتھ ہوا ہے۔
اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ان میں محمد بن قاسم، معتصم باللہ، عمر بن عبد العزیز، سلطان صلاح الدین ایوبی سمیت بہت سے حکمرانوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے علم ہو گا کہ مظلوموں کی خاطر آواز حق بلند کرتے ہوئے ظالم سے ٹکرانے اور فتح حاصل کرنے کے واقعات نے اسلامی تاریخ کو چار چاند لگا دئے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کو آج انہی ہیروز کی تقلید کی ضرورت ہے جس کے لئے آج ان کے سامنے بھی بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے اپنے لئے میر جعفر، میر صادق اور یزید کے راستے کا انتخاب کر لیاہے؟
اب یہ ہماری باری آچکی ہے کہ ہم قید تنہائی اور اکیلے پن کا ذائقہ چکھ رہے ہیں کہ اب ہم محسوس کریں کہ محرومیاں اور فیملی سے دوری کیا ہو تی ہے؟ چاہے وہ تھوڑی دیر کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا رمضان المبارک کی یہ چند گھڑیاں جو ہمیں رزق کی برکات، غریبوں اور بھوکے لوگوں کی حالت زار کو محسو س کرنے کی تعلیم دیتی ہیں، اس رمضان میں ہمیں آزادی کی قیمت اور قید کی تکلیف کا بھی احساس ہونا چاہئیے۔
ہمیں اپنے پیاروں سے دوری کا بھی احساس ہونا چاہئیے۔ جس طرح ہم رمضان میں بھوکوں کو کھانا کھلاتے، اس دنیا سے آگے کی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں اور سخاوت، انصاف، دیانت اور رحمت پر زور دیتے ہوئے اپنی سیرت و کردار سازی پر توجہ دیتے ہیں، اس سال ہمیں اپنی زندگی، ذہنی سکون اور آزادی کی قدر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
خاص طور پر عافیہ جیسے ان افراد کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو ان سب آزادیوں سے محروم ہیں۔ اس وائرس نے عارضی طور پر ہماری آزادی چھینی ہے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کہیں یہ ہم سے ہماری آزادی، قومی غیرت و حمیت بھی نہ چھین لے۔
میں دعاگو ہوں کہ یہ وبا ہمیں دنیاوی طاقتوں اور عارضی"مددگاروں" کی منافقت، نااہلی اور اس حساس معاملے کی نزاکت کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ ہم اللہ پر اپنا ایمان دوبارہ حاصل کریں اور اس کے احکامات پر صدق دل سے عمل پیرا ہوں قبل اس کے کہ ہماری جدوجہد کی مہلت ختم ہو جائے۔
اپنی بات کے اختتام پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ چونکہ یہ رمضان مختلف ہے، لیکن اس کا مقصد اور فضائل وہی ہیں اس لئے، میرا پیغام بھی وہی ہے کہ : اللہ ہم سب کو نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ من حیث القوم ایمان کی سلامتی، استقامت اور مضبوطی عطا فرمائے کہ جس طرح ہم پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والی وبا سے لڑ رہے ہیں اسی طرح ہمت و حوصلے کے ساتھ ایک قوم بن کر ظلم و زیادتی کرنے والوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو اس مبارک ماہ کے صدقے اس وبائی مرض سے نبردآزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم زیادہ یکسوئی کے ساتھ اس مبارک ماہ کی برکات اور فیوض حاصل کر سکیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے تمام غریب اور نادار بہن بھائیوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاک عافیہ اور کشمیر کے مظلوموں اور دنیا بھر میں ظلم و ستم کا شکار مسلمانوں کی کمزوریوں کو طاقت اور ان کی تکالیف کو آسانیوں میں بدل دے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر، ہمارے بےگناہ قیدیوں اور بیماروں پر بھی اپنا خاص رحم و کرم فرمائے۔ وہ رحیم و کریم ظالموں کو اور بھٹکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھائے اور ہمیں بھی سچائی، انسانیت، ایمانداری، انصاف، برداشت اور رواداری کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
جیسا کہ میں ہمیشہ آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ اپنی دعاؤں اور خیالات میں اپنی معصوم، بے گناہ اور مظلوم بہن ڈاکٹر عافیہ کی حفاظت اور آزادی کو یاد رکھیں۔ عافیہ موومنٹ کی کاوشوں پر مبنی محبت، امن، انصاف اور آزادی کے پیغامات کو پھیلانے، شیئر کرنے اور وائرل کرنے کے لئے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بہترین استعمال کریں اور عید الفطر کی پیشگی مبارکباد بھی قبول فرمائیں۔