یہ ایک قابل تحیسن عمل تھا ۔ مگر اس کا ایک منفی پہلو یہ بھی کہ انھوں نے جب ان سب جوڑوں کو گرفتار کیا تو وہ انتہائی قابل اعتراض میں تھے پولیس نے نہ صرف اُن کی ویڈیوں بھی بنائی بلکہ انھوں نے لڑکیوں کے ساتھ بہت ہی نازیبا الفاظ استعمال کیےبلکہ اُن کو اپنے چہرےدیکھنانے پر مجبور کیا اور پھر ویڈیوں بنائی ۔اور پھر اُس ویڈیوں کو وائرل بھی کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کوئی اچھا کام نہیں کرہی تھی ۔ مگر بعض اوقات انسان کو جو چیز سامنے دیکھتی ہے پس پردہ اُس کے حقائق کوئی اور ہوتے ۔
ان میں کئی لڑکیا ں ایسی ہونگی جو کسی مجبوری کی وجہ سے کام کر رہی ہوں بہت سی بھی اُسی بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی کیس نادانی کی وجہ سے اس جرم میں آگئی ہوں ۔ وقت کے ساتھ اُن کو شاہد احساس ہوجاتا وہ اس دلدل سے نکل جاتی ۔ یہ بات ایک علاقے تک ہی محدود رہتی ۔ شاہد انھیں بھی کبھی کسی وقت زندگی گزارنے کا موقع مل جاتا ۔ مگر جب ایک عورت کی ویڈیو پورے ملک میں وائرل ہو جاتی ہے ۔ تو وہ اگر اس دلدل سے نکلنا بھی چائے تو کیا وہ کبھی نکل سکی گی نہیں اگر وہ کوشش کرے گی تو زمانہ اُسے نہیں نکلنے دے گا ۔ اس کا ذمہ دار کون ہو گا ۔
طرح ایک ویڈیو حال میں موٹر وے پولیس کی طرف سے وائرل ہوئی جس میں ایک کمسن لڑکی کے چہرے کو بار بار دیکھایا گیا۔ آخر ان ویڈیوز کو وائرل کرکے کہ ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ صرف اپنی کارکردگی کو دیکھانے کے لیے ہم کسی کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے تاریک کر دیتے ہیں یہ کیسا انصاف ہے
اسی طرح میں آپ سب کی توجہ مظفرآباد میں ہونے والے ایک واقع کی طرف دلانا چاہوں گا ۔ حبیب بنک لمٹیڈ مظفرآباد کے ریجنل ہیڈ جو کے کافی عرصہ سے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف تھے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ موصوف لڑکیوں کو جاب اور پرموشن کا لالچ دے کر اپنی حوس کا نشانہ بناتے تھے ۔ اور پھر اُن کی ویڈیوں بھی بناتے تھے ۔
اخرکار ہماری بہادر پولیس نے اُن کو ایک دن رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا ۔ یہ ہماری پولیس کا ایک اچھا کارنامہ ہے ۔ کہ انھوں نے اس درندے کے ہاتھوں مزید معصوم لڑکیوں کو شکار ہونے سے بچایا ۔ پولیس نے وہ موبائل بھی برآمد کر لیا جس میں ویڈیوں بنائی گئی تھی ۔ مگر میں ایک بار پھر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہوں گا کہ موبائل سے برآمد ہونے والی تمام ویڈیوں وائرل ہو گئی ۔ جن لڑکیوں نے اپنی نادانی میں اس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہو سکتا کہ وہ دوبارہ ایسا نہ کریں مگر یہ ویڈیوں وائرل ہونے کے بعد یہ معاشرہ اُن کو جینے دے گا کشمیر ایک چھوٹا سا علاقہ ہے یہاں تو ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے ۔ کیا عزت ہو گی ان کے والدین کی اس معاشرے کی کیا ایسا ممکن نہ تھا کہ پولیس ان ویڈیوز کو اپنے تک محددو رکھتی ۔ تو شاہد اُن معصوموں کی عزت بچ جاتی جو نادانی اور لالچ میں یہ حرکت کر بیھٹی ہیں ۔ آب معاشرہ جو ساری زندگی اُن کو لعن طعن کرے گا ۔ کون ذمہ دار ہے اس کا ۔ ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ اگر تم کسی کے عیب کا پردہ رکھوں گے اللہ تعالیٰ تمارے پردہ رکھے گا ۔
میں اُن تمام حضرات یہ گزارش کرتا ہوں کہ خدا رہ اگر آپ کے پاس کوئی اس قسم کی ویڈیو آجائے تو اُسے مت وائرل کریں اُسے ڈیلٹ کریں جب ہم برائی کو دفن کریں گے تو برائی ختم ہو گی ۔ میں اُن اعلیٰ خُکام سے بھی گزارش کرتا ہے کہ ان اداروں کو اس بات پر پابند کریں کہ وہ اس طرح کے مواد کو اگے نہ پھیلائیں اُن سے حلف نامہ لیں ۔ اگر کسی پر اس کا ارتکاب ثابت ہو جائے اُس کے خلاف کاروائی ہونے چائے۔