گزشتہ دنوں چئیرمین ایچ ای سی کے آن لائن کلاسسز کے اعلان کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں کے طلباء تشویش کا شکار ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ تعلیمی نظام بھی دیگر صوبوں کی نسبت سہولیات سے عاری ہے۔ بلوچستان میں جہاں دیگر کئی مسائل کا سامنا ہے وہی انٹرنیٹ کی سہولیات بھی میسر نہیں۔ جس سے مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اب جبکہ بلوچستان کے کئی طلباء دیگر صوبوں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور تعلیمی سرگرمیوں کی بندش اور لوک ڈاون کے سبب اپنے علاقوں میں واپس آچکے ہیں۔ جن میں کیچ، پنجگور، آواران، قلات اور دیگر بہت سے علاقوں کے طلباء وطالبات بھی شامل ہیں۔ان علاقوں میں 4جی اپنی جگہ 2جی انٹرنیٹ کا تصور بھی محال ہے۔ کئی علاقے ایسے بھی ہیں کہ جہاں کسی ٹیلی کام کمپنی کے سگنلز تک کام نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں ایچ ای سی کا آن لائن کلاسسز کے اجراء کا اعلان یقینا باعث تشویش ہے۔ آن لائن کلاسسز سے بلوچستان کے ہزاروں طلباء و طالبات مستفید نہیں ہوسکیں گے۔ دوسرے لفظوں میں اور ایچ ای سی کے بیان کے مطابق طلباء و طالبات کو اپنے سمسٹر ملتوی کرنے پڑھیں گے۔ جس سے طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہوجائے گا۔
اس صورت میں ایچ ای سی کا فیصلہ بلوچستان کے طلباء و طالبات کے حق میں زیادتی ہوگی۔
ایچ ای سی کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے اور بہتر راستہ اپنانا چاہیے کہ جس سے طلباء کی حق تلفی نہ ہو۔
ویسے بھی ملک میں بہت سے سرکاری و غیر سرکاری ادارے، کمپنیاں، مارکیٹس ایس او پیز کے تحت کھولے جاسکتے ہیں تو تعلیمی ادارے کیوں نہیں؟