بھارت کی بات کی جائے تو علامہ اقبال کا پاکستان بنانے کا خواب یقین کریں مسلمانوں کیلئے غنیمت لگتا ہے۔ آج پاکستان نہ ہوتا تو شاید مسلمان سب کے سب اسی طرح ظلم کی چکی میں پس رہے ہوتے جیسے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں۔ بھارت نے اپنے سیاہ چہرے پر جو سیکولرزم کا نقاب لگا رکھا ہے وہاں کے انتہا پسند ہندو حکمران اسے ہر روز نوچتے ہیں، کشمیر میں فوج اور مودی سرکار کے مظالم روز ہی نام نہاد سیکولر بھارت کے منہ پر کالک ملتے رہتے ہیں۔ آئے دن کئی کشمیری شہید اور زخمی ہورہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق عصمت دری کی سب سے زیادہ شکار کشمیری خواتین ہوتی ہیں۔ 12 فیصد سے زائد کشمیری بچیوں، خواتین نے بھارتی فوج کے ہاتھوں عزت تار تار ہونے کی داستان غم سنائی ہیں۔ عالمی سطح پر بدنامی ہونے پر بھارتی سپریم کورٹ کو براہ راست مداخلت کرتے ہوئے فوج کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سوال کرنا پڑا کہ کیا بھارتی فوج کی وردی میں ریپ کرنے والے افراد پل رہے ہیں جو کشمیر میں اس کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں مگر ظالم فوج نے عدالتی احکامات و سرزنش ہوا میں اڑا دی۔ ننھی عاصمہ بانو کے ساتھ ایک مندر میں قابض فوج کی درندگی، حبس بے جا اور پھر قتل نے مودی سرکار کے سیاہ کارناموں اور منصوبوں کو اور چار چاند لگا دئیے۔ بربریت کی عجیب داستان رقم کی جارہی ہے۔ گھروں سے نوجوانوں کو نکال کر گولیاں ماردی جاتی ہیں اور لاشوں پر تیزاب چھڑک دیا جاتا ہے۔ہندو آباد کاری سے وادی میں مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ 1989 سے آج تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کئے جا چکے۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق صرف 2018 میں 413 کشمیری شہید کردئیے گئے۔ اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرارداد انصاف کا رونا رونے والے بھارت اور اس کے اتحادیوں نے جوتے کی نوک پر اڑا رکھی ہے۔ انسانی حقوق، اقدار و اخلاق، چادر اور چار دیواری، حقوق نسواں، اکثریت کے حقوق سب کو شب و روز مقبوضہ کشمیر میں پھانسی چڑھایا جاتا ہے، مگر اسلامی ممالک سمیت عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہر دن مسلمان اپنا حق مانگنے، بھارتی ظلم و جبر کیخلاف، آزادی کے حق میں سڑکوں ، گلی کوچوں میں احتجاج کرتے، جان ہتھیلی پر لئے نکلتے ہیں مگر جواب میں آنسو گیس کے گولے، اندھی گولیاں، عصمت دری کی وارداتیں ملتی ہیں۔ ایک ایک دن میں ایک ہی گھر سے پانچ، چھ جنازے اٹھتے ہیں تو آسمان بھی روتا ہے مگر مودی سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔الٹا اگر بھارت کے ہی سکھ، ہندو یا مسلمان اسمبلیوں کے ارکان، اداکار، انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھائیں یا کوئی بیان جاری کردیں تو انہیں دیش دروہی،مغلیہ سلطنت اور بابر کے حامی جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے اور ملک بدر کر دینے کا نعرہ بلند کردیا جاتا ہے۔ پورے بھارت میں گاو ماتا کے نام پر ہر برس سیکڑوں مسلمانوں کو ذبح کردیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ گائے جسے خدا اور ماں کا درجہ دیا جاتا ہے اس کی خرید و فروخت کے تمام بڑے بیوپاری بھی خود ہندو ہی ہیں تاہم کوئی مسلمان اعتراض اٹھا دے کہ جناب ہم اسے ذبح نہ کریں مگر آپ اپنی ماں کو بیچیں بھی اور خریدیں بھی اس پر بھی پابندی لگائیں تو اسے گائے کی بے حرمتی کہہ کر طوفان اٹھا دیا جاتا ہے۔ مودی سرکار ہزاروں ارب روپے کے کرپشن کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔آر ایس ایس، بجرنگ دل جیسی دہشت گرد ہندو تنظیمیں رکھنے والے ملک کا ہر انتہا پسند مسلمانوں سے ایک غیر حقیقی سوال کرتا ملتا ہے کہ جناب ہر دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتا ہے؟بجائے اسکے کہ بھارتی مسلمان اپنی سرکار، ہندو تنظیموں، سیکولر بھارت کا راگ الاپنے والوں سے یہ سوال کریں کہ جناب سیکولر زم کا ڈھونگ رچاتے ہو تو اقلیتوں کے حقوق کیوں غصب کرتے ہو؟ انکے مذہب میں دخل اندازی کیوں کرتے ہو؟ طلاقیں ہندو عورتوں کو زیادہ ہوتی ہیں مگر طلاق ثلاثہ کا بل مسلمانوں کیلئے کیوں لاتے ہو؟اگر اتنی آزادی ہے اور سیکولر ازم کو ملکی قانون مانتے ہو تو مسلمانوں کو یہ حق کیوں نہیں کہ وہ ہندو مذہب کے ان افعال پر کوئی بل لاسکیں ، مخالفت کرسکیں جس سے انہیں تکلیف اٹھانا پڑتی ہے جیسے کہ گائے کے ذبح پر پابندی۔ اگر رام کی پیدائش، جنم بھومی وغیرہ پر آپ کی اپنی کتابوں میں درج معلومات اور تاریخی اعتبار سے اختلاف کی بات کی جائے تو آپ مقدمات کاٹ دیتے ہیں ، دیش دروہی کہدیتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ یہ کیسی آزادئ رائے ہے؟بابری مسجد کو سپریم کورٹ کے حکم کیخلاف دہشت گردی سے گرادیا گیا مگر دہشت گرد مسلمانوں کو ہی صرف کیوں کہتے ہو؟ مسلمانوں کیلئے تعلیم ، روزگار، میڈیکل کا کوٹہ اتنا محدود کیوں ہے؟ اسکول، کالج کے مطالبے پر مسلمان آبادیوں میں شراب اور جوئے کے اڈے کیوں کھول دیتے ہو؟ اسمبلیوں میں کانگریس، بی جے پی مسلمان ارکان کو کیوں آگے نہیں لاتے؟ گجرات میں مودی نے جو قتل عام کرایا اس قاتل کو حکمران کیوں بنادیا گیا؟ ارے اسے اور ایک ہندوو کو کوئی دہشت گرد کیوں نہیں کہتا؟کشمیر کو اپنا مانتے ہو تو وہاں کے رہنے والوں پر گولہ بارود کیوں برساتے ہو؟یہ سب سوال سیکولر بھارت میں جرم ہیں بلکہ ا نکی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی کیوں کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق انتہاپسند ہندوؤں کے الزامات ہی مسلمانوں پر ختم نہیں ہوتے، وہ بیچارے آج تک محمد علی جناح سے اپنا عدم تعلق، بھارت کے فرض شناس، محب وطن شہری ہونے کو ثابت کرنے میں ہی زندگیاں تمام کردیتے ہیں۔ اگر کوئی اسدالدین اویسی اور اکبر الدین اویسی جیسے پڑھے لکھے، ووٹ بینک، قیادت و امارت رکھنے والے مسلمان پیدا ہوجائیں تو انہیں لڑائی کی سیاست کرنے والے نیتا کہ دیا جاتا ہے اور بس پھر بھی نہ چلے تو چھریوں، گولیوں سے مار ڈالنے کیلئے درجنوں ہندوؤں سے حملہ کرا دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے؟ کیسا ملک ہے؟ جہاں صرف مسلمان اور اقلیت ہی نشانے پر ہے؟کب تک کشمیری شہید ہوتے رہیں گے؟ کب تک بھارتی مسلمان گائے کی عظمت پر بلی چڑھتے رہیں گے؟ نام نہاد سیکولر ملک کی اندوہناک کہانی ہے یہ۔
بنگلہ دیش کی بات کریں تو وہ بھارت کی کالونی بن چکا ہے۔اس انتخابات میں جو دھاندلی کے ریکارڈ قائم کئے گئے وہ دنیا میں اپنی جگہ ایک عالمی ریکارڈ ہیں ۔17 سے زائد افراد مارے گئے۔حزب اختلاف کی اہم رہنما خالدہ ضیا، دوسری بڑی جماعت جماعت اسلامی کو انتخابی عمل سے پہلے ہی باہر رکھا گیا ہے جبکہ خالدہ ضیاء کرپشن مقدمات میں جیل میں ہیں۔ اپوزیشن کو 10 سے بھی کم سیٹیں ملیں۔ ووٹ ڈالنے کے وقت سے قبل ہی بھرے ہوے بیلٹ باکس لاکر رکھ دیئے گئے، جس کی تصدیق بی بی سی کے نمائندوں نے بھی کی۔ یہ نام نہاد آزاد شفاف انتخابات 4 لاکھ فوج کی موجودگی میں کرائے گئے اور تیسری مرتبہ شیخ حسینہ واجد حکومت بنانے کیلئے کامیاب ہوچکی ہیں۔ حزب اختلاف کی سربراہی 82 سالہ کمال حسین کررہے ہیں جن کا شمار بنگلہ دیش کا آئین تشکیل دینے والوں میں ہوتا ہے انہوں نے بھی انتخابات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دوبارہ کرانے کا مطالبہ کردیا ہے۔گزشتہ دور میں جس طرح جماعت اسلامی کے عمر رسیدہ، بزرگ رہنماؤں کا قتل عام کیا گیا، پھانسیاں دی گئیں وہ اپنے اندر خود ایک فرعونیت کی داستان ہے۔ ہر مخالف کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے، تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے،عدالتیں سیاسی انتقام کا گڑھ بنی ہوئی ہیں، احتساب کے نام پر تمام اپوزیشن کو راستے سے ہٹایا جارہا ہے ، ڈرایا ، دھمکایا جارہا ہے۔ایک جمہوری مارشل لاء لگا ہوا ہے جس کی سربراہ گزشتہ ایک دہائی سے اکیلی حسینہ واجد ہیں اور وہ اپنے مخالفین کو کرپشن ، چور ڈاکو کے سرٹیفیکیٹ بانٹ رہی ہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں بنگلہ دیش نے معاشی ترقی میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ملکی برآمدات کا موازنہ چین اور بھارت سے کیا جاتا ہے۔ یہ دوسرے ملک کی الگ کہانی ہے۔
بات کریں اپنے وطن عزیز پاکستان کی تو جناب یہاں مسلمانوں کو سیکولر بنانے کی کوششیں اس کے بننے سے لیکر آج تک ہوتی آئی ہیں جو کسی نہ کسی حد تک ارباب اختیار کی مدد سے کامیاب ہوتی بھی دکھتی ہیں مگر پوری طرح عروج و ترقی نہیں حاصل کر پاتیں۔ ملک کو معاشی اعتبار سے ہر جماعت کے دور میں ہی لوٹا گیا ، کمزور کرنے کی کوشش کی گئی مگر پھر بھی رب کے فضل سے ملک قائم ہے۔ملک اس وقت اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے افراد کو ملک کی باگ دوڑ سونپ دی گئی ہے جو اس فن سے قطعی ناواقف ہیں ۔جہاں تبدیلی سرکار معاشی طور سے اپنے کسی وعدے پر نہ پورا اتر رہی ہے نہ ہی ملک کو سنبھال پا رہی ہے۔ وہیں ریاست مدینہ کے لیبل کے ساتھ تمام تر کوششیں عوا م کو سیکولر بنانے پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ اعلان ایک کروڑ نوکریوں، 50 لاکھ گھروں، 40 روپے لیٹر پیٹرول، سستی بجلی و گیس کا کیا گیا تھا، مگر ملا کیا؟ صرف باتیں، الزامات، سب ڈاکو ہم فرشتے کی گردان اور ریاست مدینہ میں 1100 سینما گھروں کا اعلان۔ اسٹاک مارکیٹ نے ایسے ایسے جھٹکے دیئے کہ تاجروں اور ملکی معیشت کو جھٹکے لگ گئے۔ سلیکٹڈ احتساب نے نیب، حکومتی کرپشن مکاؤ پروگرام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سنا ہے عمران خان اپنی ٹیم کی کارکردگی پر شدید پریشان ہیں۔ من مرضی قانون و احتساب کی بالادستی کا ملک میں زور زورا ہے، باقی رہی سہی محنت اپنی محض کھوکھلی تعریفوں پر لگائی جا رہی ہے۔ تبدیلی سرکار کو بنگلہ دیش اور بھارتی سرکار کی پالیسیاں اور رویے اپنانے کے بجائے سبق سیکھنا چاہئے ورنہ آنے والا وقت تبدیلی کے نعرے کو انتہائی بربادی سے تعبیر کرے گا۔