پوچھا فرمائیے پریشان کیوں ہیں، رو کیوں رہی ہیں، کیا بات ہے۔ کہنے لگیں بھائی شوہر نے مارا پیٹا ہے جان بچا کر بھاگی ہوں۔ حیرت سے پوچھا ہوا کیا ہے۔ کہنے لگیں سسرال سمیت اپنی فیملی، تینوں بچوں کے کپڑے دھوئے۔ رات تک کام کرتے رہنے کی وجہ سے تھک گئی، شوہر کو کہا کہ 2 روٹیاں لے آئیں۔ بس اس پر وہ نندوں ساس کو بلاکر لے آئے اور لڑائی شروع کردی کہ جو عورت شوہر کو روٹی بناکر نہیں دے سکتی وہ گھر میں رکھنے کے لائق کہاں ہے۔ شوہر کو ہمیشہ کی طرح طیش آیا اور مجھے مارنا شروع کردیا، کہنے لگیں بھائی جب سے شادی ہوئی ہے، شوہر کی مار سہہ رہی ہوں، میرے والد صاحب، بھائیوں نے کئی بار بات کی، سمجھایا اور کہا کہ بیٹی مار کھانے کیلئے نہیں بیاہی۔ تشدد برداشت نہیں کرینگے، آپ کی بھی ماں بہنیں ہیں۔ ہر بار بڑی مشکل سے معاملہ سلجھتا، مگر کچھ دنوں بعد پھر وہی مسئلے۔ مگر اب کی بار تو حد ہی ہو گئی۔ شوہر جو ایک سرکاری ملازم ہیں، نے تو مارا ہی مارا بڑی نند کو کہا کہ تم بھی مارو۔ اس اللہ کی بندی نے مجھے لاتوں پر رکھ لیا، میرا بدن درد کے مارے ٹوٹنے لگا، کان سے ٹیسیں اٹھنے لگیں مگر انسانیت سے عاری شوہر کا اس پر بھی دل ٹھنڈا نہ ہوا اور موصوف نے بھانجوں کو کہا کہ اسے اور مارو۔ سب نے اس قدر زدوکوب کیا کہ میرے کان سے خون آنے لگا اور بعد میں والدہ کے گھر آکر چیک اپ کرایا تو پتا چلا کہ کان کا پردہ پھٹ گیا ہے۔ پیٹ پر نند کی لاتوں کے نشان ہیں۔
بھائی آپ بتائیں شوہر کی مار، گالم گلوچ، سسرالیوں کی گالیاں سنتی رہی ہوں اب کیا نندوں کی مار بھی سہوں اور نوجوان لڑکوں کی مار کیلئے تیار بھی رہوں۔ دماغی، جسمانی، مالی ہرطرح کی تکلیف اٹھالی، عزت کا جنازہ نکل گیا۔ وہ بولتی جارہی تھیں اور میرا خون کھول رہا تھا۔ دکھ کا پہاڑ تھا، جو مجھ پر ٹوٹے جارہا تھا کہ ہمارا معاشرہ کس قسم کے درندوں کو پال رہا ہے۔ کہنے لگیں بھائی! اب ان کی بہن کے لڑکے بھی مجھے مارنے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔ تین دن بعد بہانہ کرکے گھر سے نکلی اور میکے آگئی ہوں۔ والدین کی عمر ایسی نہیں کہ انہیں سب بتاؤں۔ والد صاحب سرکار کی خدمت کرتے بوڑھے ہوگئے اب بستر پر ہیں۔ میں ایک گہری سوچ میں پڑگیا۔ یہ صرف اس بیچاری کا حال نہیں بلکہ بہت سی حوا کی بیٹیاں ایسی ہی داستان غم و درد رکھتی ہیں۔ ایک ویلفیر ادارے میں ذمہ داری اور صحافت سے تعلق ہونے کی وجہ سے ایسی بہت سی خواتین کے مسائل سن اور دیکھ چکا ہوں جس نے آج اس موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔
بلال کی والدہ مزید گویا ہوئیں کہ ہماری 2 بیٹیاں اور ایک چھوٹا بیٹا بلال ہے۔ سسر میری طرفداری کرتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ ظلم نہ کرو مگر عورتوں کے حسد اور شوہر کی بے حسی نے میرے صبر کو کمزوری سمجھ کر مجھے برباد کررکھا ہے اور انصاف کی بات کروں تو اس پر بھی کہا جاتا ہے میں سرکاری ملازم ہوں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آپ صحافی ہیں، بتائیں میں کیا کروں۔ کب تک مار کھاؤں؟ کون ذمہ دار ہے اس کا؟؟؟ کیا جواب دیتا۔ میں تو تصور کے آئینے میں ایک بیٹی، ایک ماں، کسی کی بہن، کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری لینے والی پڑھی لکھی جیتی جاگتی حوا کی بیٹی کو مار کھاتے، مظالم سہتے، کانوں کے پردے پھٹتے، لہولہان ہونے کا سوچ کر ہی سن ہوچکا تھا۔ پھر بھی ہمت جمع کی اور انہیں صبر کا کہا اور سوچنے کیلئے وقت مانگا۔ ساتھ ہی تسلی دی کہ بے فکر رہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور قانون اتنا اندھا ہے نہ پاکستان میں ایسے ادارے ختم ہوئے ہیں جو ایک سرکاری ملازم کو نکیل نہ ڈال سکیں۔ اللہ رحم فرمائے گا۔ اپنا علاج کرائیں اور والدہ کے گھر عافیت سے رہیں۔ حیران ہوں اس سب کے باوجود وہ کہہ رہی تھیں کہ میں گھر بسانا چاہتی ہوں، عزت کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں بس مار پیٹ کی اب میری ہڈیوں میں طاقت نہیں۔ بچے بڑے ہورہے ہیں، بیٹیاں خوف زدہ ہوکر شدید دباو کا شکار ہیں۔
کال سننے کے بعد وہ تمام بچیاں اور خواتین میرے ذہن میں آگئیں جو ایسی ہی داستان درد و ستم مجھے سنا چکی ہیں۔ ایسے اندوہناک واقعات جنہیں آج بھی یاد کرکے روئے روئے میں سنسناہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ مجھے میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی وہ 18 سالہ بچی یاد آگئی، جسے شادی کے بعد ساس کی جانب سے بیت اللہ شریف کے اضافی طواف کرنے کی بھی اجازت نہیں ملتی اور شادی کے ایک سال تک اولاد نہ ہوسکنے کی وجہ سے مار کھا کر طلاق لئے تھکے ماندے گھر واپس لوٹتی ہے۔ وہ گریجویٹ لڑکی بھی آنکھوں کے سامنے آگئی جو آج کے دور میں بھی ایک کھاتے پیتے گھرانے میں کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے مگر سسرال میں تعریف کے بجائے ہر دن بددعائیں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ ماں باپ کے دئیے جہیز پر کئی سال بعد بھی باتیں سننا، غیر محرم رشتہ داروں کے آگے روز ذلت اٹھانا، جسے مہینوں ماں کے گھر جانے کی اجازت نہیں ملتی، جو روز چھپ کر سسکتی ہے مگر شوہر ساتھ دینے کے بجائے اسے اپنے گھر والوں کے مظالم کے سامنے پھینکے رکھتا ہے۔ ایسے بے شمار واقعات جو میری آنکھوں نے دیکھے اور کانوں نے سنے تازہ ہوگئے۔ یہ کیوں ہو رہا ہے، اس کی وجہ کیا ہے، ایسے حالات و تکالیف سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔
غور کیا تو جہاں دین سے دوری، علم کی کمی، رسم و رواج، عدم برداشت، بری تربیت اس کے اسباب لگے، وہیں جوائنٹ فیملی سسٹم کو بھی موجودہ دور میں معاشرے کیلئے کم ہی فائدہ مند پایا۔ علمائے کرام سے سنا ہے کہ شادی کے بعد کم از کم ایک الگ کمرہ لڑکی کا حق ہے اور اگر وہ الگ گھراور کچن کا مطالبہ کرے تو بھی کرسکتی ہے۔ اگر ایک ہی گھر میں تین چار بھائی رہتے ہیں تو شادی کے بعد کافی بڑی فیملی بن جاتی ہے۔ بہو ساس سسر کی خدمت کرے اور اسے کرنی بھی چاہیے مگر دیور، نندوں کی خدمت اس کی ذمہ ضروری نہیں۔ پھر بھی ایک دوسرے کے کام آنا اعلیٰ اخلاق ہیں اور خدمت سے ہی گھر کی گاڑی چلتی ہے۔ مگر آج برداشت کا فقدان ہے، حسد اپنے عروج پر ہے۔ سنت نبویﷺ، شریعت سے زیادہ میڈیا، ڈراموں اور فلموں پر بھروسہ کیا جارہا ہے، جنہوں نے اصولوں سے عاری ایسی آزادی پیدا کردی ہے جو آزادی کم بغاوت زیادہ بن گئی ہے۔ ایسے میں مختلف مزاج افراد کا ساتھ رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے یا یوں کہیے کہ یہ وطیرہ مسائل بڑھا رہا ہے۔ اخلاق و اقدار، انسانیت، شرم و حیا، آداب کا جنازہ نکل رہا ہے۔ ایثار، قربانی، نرم دلی، عمدہ اخلاق، محبت کی بلی چڑھا کر اگر جوائنٹ فیملی سسٹم وجود پاتا ہے تو اسے ترک کر دینا ہی انسانیت کیلئے بہتر ہے۔
یقین کیجئے میں ہر جوائنٹ فیملی سسٹم کیخلاف نہیں۔ ایک تنہا اور دو جماعت ہوتے ہیں۔ ساتھ رہنے کے بہت فوائد بھی ہیں۔ برے وقت میں انسان کو اس کی قدر معلوم ہوتی ہے یا اس کا فائدہ بیرون ملک رہنے والے ہم وطنوں سے پوچھا جاسکتا ہے جو اپنی فیملی کے ساتھ تنہا پردیس کاٹتے ہیں۔ ایثار و قربانی کا جذبہ ہو، سمجھ ہو، لحاظ ہو، دین کی پاسداری ہو، اخلاق ہوں، انسانیت ہو تو اس سے اچھا کوئی سسٹم نہیں اور جہاں ایسا ہے وہ گھر کسی جنت سے کم نہیں۔ مگر حقیقت سے منہ نہیں چرانا چاہیے آج کل اخلاقی اقدار دم توڑ رہے ہیں۔ بڑے بڑے سمجھدار لوگ بیٹی بہو، اپنے اور پرائے کا فرق کرتے دیکھے ہیں۔ تو یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اب ہم جوائنٹ فیملی سسٹم کے لائق نہیں رہے۔
دوسری چیز جس کا شدت سے احساس ہوا وہ یہ کہ مرد سے زیادہ بری اور گہری چوٹ عورت ہی عورت کو پہنچا رہی ہے۔ لیڈیز فرسٹ کا جملہ تو زبان زد عام ہے مگر ایک عورت ہی دوسری عورت کو فرسٹ آتے نہیں دیکھ پارہی۔ کہیں نندیں، کہیں ساس، کہیں بھابھی، کہیں بیوی۔ کہیں بہن اور کہیں ماں جیسی مقدس ہستی بھی ایک دوسری عورت کو سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہی۔ گھر میں کنواری بہن بھابھی کیلئے ناقبل برداشت ہے، جس کیلئے وہ ایک بھائی کو ہی بہن سے متنفر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتی ہے تو کہیں نند بھابھی کو سکون میں دیکھتی ہے تو ماں کو آکر کہتی ہے بھائی نے تو بڑے سکون سے رکھا ہوا ہے بھابھی کو اور ہم تو سسرال میں رُل گئے، مر گئے۔ منافرت و عناد میں جادو ٹونا، بہتان، چغل خوری تک کو ہتھیار بنالیا جاتا ہے، بدگمانی اور جھوٹ تو کوئی بڑی چیز ہی نہیں۔ حاصل یہ کہ خاندان کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ اپنے پرائے ہوجاتے ہیں۔ ماں باپ اولاد کو ترسنے لگتے ہیں۔ محبت کے بجائے نفرتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں حالانکہ فارسی میں کہتے ہیں ‘‘چاہ را چاہ درپیش’’۔ دوسرے کیلئے کنواں کھودنے والا خود کنوئیں میں گرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان تو کجا ایک کتے کی پیاس بھجانے کیلئے کنویں سے پانی نکالنے والی بد کردار عورت بھی جنت کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ مگر ہم کنوئیں کھودتے رہتے ہیں اور اس میں گرتے رہتے ہیں۔ مسائل کی ایک بڑی وجہ بزرگوں، اللہ والوں اور بڑوں کے پاس نہ بیٹھنا اور ان سے ناں سیکھنا بھی ہے۔ ان کی نصیحت کو محض تنقید برائے تنقید سمجھنا ہے۔ مغربی تہذیب تو مادر پدر آزاد معاشرہ ہی پروان چڑھا سکتا ہے جسے ہم صبح شام دیکھتے۔ سنتے اور محسوس کر رہے ہیں۔ بزرگوں، بڑے بوڑھوں کے پاس تو وہ موتی ہوتے ہیں جو انہوں نے تجربہ کی بھٹی میں پس کر اپنے اسلاف سے حاصل کئے ہوتے ہیں مگر ہماری نوجوان نسل انہیں اپنی زندگی کی لڑی میں پرونے کیلئے تیار ہی نہیں۔ یعنی کہ حقیقی خرد دور کھڑی شکوہ کر رہی ہے کہ
ہم تو مائل بکرم ہیں۔۔۔ مگر کوئی سائل ہی نہیں۔۔۔
آج کل کے بہت سے بگاڑ کی بڑی وجہ ہی جنریشن گیپ ہے۔ اس حوالے سے ایک بزرگ عالم دین حضرت مولانا پیر عزیزالرحمن ہزاروی زید مجدھم نے کہا ہے کہ جب برداشت کم ہوجائے، محبتیں دم توڑنے لگیں، بدگمانیوں کی جڑیں مضبوط ہونے لگیں تو بھائیوں کا، شادی شدہ بیٹوں کا الگ ہوجانا ہی بہتر ہے اور اس کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ ایک مکان میں ہی سب کا الگ الگ مکان اور کچن ہوجائے مگر مرکزی دروازہ ایک ہو۔ یعنی سب ایک دروازے سے ہی نکلتے نظر آئیں مگر اندرون خانہ رہائش، کھانا پینا الگ ہو۔ اور اگر اس طرح ممکن نہ ہو تو قریب ترین رہائش اختیار کرلی جائے، بس ایک بات کا خیال رہے کہ والدین کی خدمت سب کریں، انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ خوشی غم میں سب اکٹھے ہوجائیں اور پھر اپنے اپنے گھر۔ دیکھا جائے تو ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی جوائنٹ فیملی سسٹم کا ثبوت شاید ہی ہو۔ عربوں میں تو آج بھی جیسے ہی بیٹے کی شادی ہوتی ہے اسے علیحدہ مکان دیکر الگ کردیا جاتا ہے اور یقین کیجئے عربوں میں آپس کی مثالی محبتوں کی تو مثالیں مشہور ہیں۔
والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے سب بیٹے ایک ساتھ رہیں، مگر یہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ یہ خواہش اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب گھر میں سکون باقی رہے۔ ہر وقت کی بے سکونی خاندانوں کو ہی برباد کردے گی۔ اس لئے کچھ نہ ہونے سے بہترہے کچھ ہو۔ اور اس کا یہی حل ہے کہ گھر کی خواتین، بچوں بچیوں کو یہ تربیت دی جائے کہ وہی کام کریں جس سے وہ دوسروں کیلئے عافیت بنیں۔ نہ اپنا گھر برباد ہو نہ کسی دوسرے کی بربادی کا ذریعہ بنیں۔ کچھ فاصلہ آپس کی محبتیں نفرتوں میں تبدیل ہونے سے بچالے گا۔ البتہ والدین تمام اولاد کی مشترکہ ذمہ داری ہوں، ہر ایک ان کی خدمت کو اپنی سعادت اور آخرت میں کامیابی کا سب سے بہتر سبب سمجھ کر انجام دے۔ اس طرح خاندانوں میں عداوتیں کم ہوں گی۔ عزتیں برقرار رہیں گی۔ آداب و اخلاق کا دم نہیں گھٹے گا اور حوا کی بیٹی ظلم کی چکی میں پسنے سے بچ جائے گی۔ حقیقت میں تو دینی شعور بیدار ہونے کی ضرورت ہے کہ اس دین کی برکت سے ہی مسلمانوں نے تمام اقوام عالم کی مسیحائی کی ہے، اخلاق کا درس پڑھایا ہے مگر آج دین سے دوری نے ہی امت مسلمہ کو اخلاق کا کشکول لینے پر مجبور کردیا ہے۔