فتح باب نبوت پہ بے حد درود
ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام
اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے انبیاء کو مبعوث فرمایا اورحضور پاک کو نبی آخر الزماں بنا کہ بھیجا،حضور پاک کے فرمان کے مطابق ہم آخری امت ہیں اس کے بعد نہ تو کوئی امت ہو گی اور نہ ہی کوئی نبی و رسول۔ مسلمانوں کے دو بنیادی عقائد ہیں ایک عقیدہ توحید اور دوسرا عقیدہ ختم نبوت اور جب تک کوئی بھی مسلمان ان پر ایمان نہیں لائے گا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور یہ تمام مکاتب فکر کا متفقہ فیصلہ ہے اور تقریبا 90آیات قرآن مجید اور210 احادیث طیبہ سے عقیدہ ختم نبوت ثابت ہے اور جو آدمی اس عقیدہ کا انکار کرے گا وہ قرآن و حدیث کا بھی منکر ٹھہرے گا اور کافر ہو جائے گا سب سے پہلے اس کی دلیل قرآن پاک سے ملاحظہ فرمائیے:
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیینمحمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اس آیت کریمہ میں یہ بات بلکل واضح ہے کہ حضور پاک ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا
سب اس بات پہ متفق ہیں کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی نہیں آسکتا اور اگر کوئی یہ کہے کہ حضور پاک کے بعد کوئی نبی آئے گا تو وہ آدمی تمام مسالک کی رو سے کافر و مرتدداور واجب القتل ہے اور اس کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہو جائے گا،احادیث پاک کی روشنی میں اس کو مزید واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں
حدیث۔
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک نے فرمایا میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا اور اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی آپ ﷺ نے فرمایا میں (قصر نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں
(بخاری رقم الحدیث ۳۵۳۵، مسلم، مسند احمد)
حضرت ابن زمل نے ایک خواب دیکھا نبی کریمﷺ نے اس خواب کی تعبیرکرتے ہوئے فرمایا رہی وہ اونٹنی جس کو تم نے خواب میں دیکھا اور یہ دیکھا کہ میں ا س اونٹنی کوچلا رہا ہوں تو اس سے مراد قیامت ہے نہ میرے بعد کوئی نبی ہو گا اور نہ میری امت کے بعد کوئی امت ہوگی۔
(دلائل النبوۃ ج۷ ص۳۸،المعجم الکبیر ، کنزالعمال)
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک نے فرمایا کہ بیشک رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے بس میرے بعد نہ کوئی نبی ہو گا اور نہ کوئی رسول ہو گا (سنن ترمذی،مسند احمد)
ختم نبوت کے حوالے سے آج بھی وہ واقعہ تاریخ کے اوراق پہ محفوظ ہے کہ جب دور صدیق اکبر میں منکرین ختم نبوت کیخلاف جنگ لڑی گئی تو بہت سارے صحابہ نے جنگ میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیااور اس جنگ میں علماء اور حفاظ بھی شامل تھے اور دوسری جنگوں کی بنسبت اس جنگ یمامہ میں بہت سے صحابہ کرام شہید ہوئے،ہمارے اسلاف نے بھی ختم نبوت کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دیں پیر مہر علی شاہ صاحب نے ان قادیانیوں کی ایسی گردن مروڑی کہ آج تک اٹھنے کے قابل نہیں پاکستان میں علامہ شاہ احمد نورانی عبدالستار خان نیازی جیسے دیگرعلماء نے قانون ناموس رسالت پا کرایا اور منکرین ختم نبوت کو قانونی طور پر بھی لگام ڈالی حضور ضیاء الامت نے جنیوا کے مقام پر ختم نبوت کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دیں
بحیثیت مسلمان اور عاشق ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم کہ ہم ہر وقت حضور کی ناموس و ختم نبوت کی خاطر گھر بار مال و جان لٹانے کیلئے تیار رہیں او ختم نبوت کے منکروں کے خلاف علم جہاد بلند کریں
حضور پاک نے فرمایا کہ اگر میرے کسی غلام کو کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کا درد مجھ کو محسوس ہوتا ہے تو کیا ہمارا حق نہیں بنتا کہ ان ہم ان گستاخ رسول قادیانیوں کا بائکاٹ کریں بلا شک و شبہ ہمارا یہ اخلاقی و قانونی فرض بنتا ہے کہ ہم قادیانیوں کی کھلم کھلا مخالفت کریں
منکرین ختم نبوت کو سلام کرنا جائز نہیں جب ان خبیثوں کو سلام کرنا بھی جائز نہیں تو دیگر دنیاوی معاملات کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ پیر مہر علی شاہ صاحب فرماتے تھے کہ اے مسلمان جب تو کسی قادیانی سے ملتا ہے تو حضور پاک کا دل دکھتا ہے اور دوسری طرف فرماتے کہ جو کوئی آدمی عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کام کرے گا تو اس کی پشت پر حضور پاک کا دست رحمت ہو گا اوراگر چاہتے ہیں کہ دنیا وآخرت میں اللہ پاک اور حضور پاک کی رضا و خوشنودی حاصل کریں تو تمام فتنوں سے خصوصا قادیانیوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔