انسان اسی عقل اور ضمیر کی بدولت فرشتوں سے اونچا مقام لے گیا کیونکہ وہ عبادات میں جہاں کوئی ثانی نہیں رکھتے وہیں ان میں نفس نہیں جو انہیں رب کی نافرمانی پر ابھارے اور پھر وہ اسے روند کر اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں جتے رہیں ۔انسان اپنے نفس کی چالبازیوں کو روند کر حقیقی انسان اور بندہ بنتا ہے تو اشرف المخلوقات کا تاج بھی اس کے سر سجتا ہے ورنہ اسی انسان کیلئے رب کا یہ بھی فرمان ہے کہ جب انسان برائی کی گھاٹیوں میں اترتا جاتا ہے اور نفس وشیطان کے پورے جال میں پھنس جاتا ہے تو پھر تو یہ جانوروں سے بھی زیادہ بدتر اور گمراہ ہوجاتا ہے۔
انسان اچانک اور یکلخت جانوروں سے بدتر نہیں ہوجاتا بلکہ بتدریج انسانیت سے درندگی کی طرف سیڑیاں اترتا اترتا “بل ہم اضل “(الآیہ)(جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ) بنتا ہے۔برائی کی جانب سب سے پہلی سیڑی اترتے اس کا احساس کمزور ہونے لگتا ہے۔وہ برائی دیکھتا اور سمجھتا ہے مگر اس پر کبھی خاموش اور کبھی شریک ہوجاتا ہے ۔ اسکااحساس سونے لگتا ہے۔وہ اس احساس کی خاموشی کی کئی دلیلیں گھڑ نےلگتا ہے۔ کبھی کہتا ہے یہ برائی اور غلط اتنا بھی برا نہیں ، کبھی کہتا ہے اتنی آزادی تو ہونی ہی چاہئے، کبھی کہتا ہے میرا اس سے کیا لینا دینا وغیرہ اور اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس میں قوت احساس دم توڑ تی جاتی ہے ۔اسے اب رب کی نافرمانی،انسانی حقوق کی خلاف ورزی، بداخلاقی، تکلیف،دکھ، برائی،دھوکہ ،فریب کچھ بھی برا محسوس نہیں ہوتا وہ بس اپنے تئیں اپنی نفسانی خواہش کے مطابق ایک بے حس اورنام کا انسان رہ جاتا ہے مگر خود کو ایک اچھا ،قابل، سمجھدار اور چالاک انسان کہلانے پر مصر رہتا ہے ۔ دراصل احساس کی موت کے ساتھ اسکا ضمیر بھی مر چکا ہوتا ہے جس کی اسے خبر تک نہیں ہوتی۔وہ ضمیر جو اسے کسی کی نیکی پر تعریف کیلئے ابھارتا اور کسی برائی پر جھنجھوڑتا وہ ضمیر اپنی موت آپ مر چکا ہوتا ہے۔
آج ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو بہت سے مردہ ضمیر دکھ جائیں گے جو کبھی بڑے احساس والے ہوا کرتے تھے۔ جو کبھی کسی کو کڑکتی دھوپ میں جھلستا دیکھ لیں تو آ نکھیں نم ہوجاتی تھیں مگر اب انہیں کسی کے احساسات کا قتل بھی زرہ دلگیر نہیں کرتا۔ جو راہ چلتے کتے کو پانی پلانے کا انتظام کرتے تھے آج وہ کسی بہت اپنے کے احساسات کا گلہ بڑی دیدہ دلیری سے گھونٹ رہے ہیں۔ عموما مردوں کو احساسات سے عاری ، مردہ ضمیر اور ظالم کہا جاتا ہے مگر اس دور میں یقین کیجئے صنف نازک بھی ان صفات میں کچھ کم نہیں ۔کہیں مرد اگر کسی حوا کی بیٹی کا صبر سمیٹ رہا ہے تو یقین کیجئے میں نے بہت سے ایسے مظلوم آہنی مرد بھی دیکھے ہیں جن کی کمر اور سینہ کسی اپنی ہی چہیتی کے واروں سے خون آلود ہیں مگر ان کے چہروں کی مسکراہٹ اور پہاڑوں جیسا صبر انہیں دنیا کے سامنے مظلوم نہیں بننے دیتا بلکہ وہ الٹا سب سہہ کر بھی ظالم اور بےحسی کے طعنے سن رہے ہوتے ہیں ۔
خاموشئی احساس اور مردہ ضمیری کے انگنت واقعات نے ضمیر ہلا کر رکھ دیا ہے ۔اخبارات میں خبر پڑھی تو دل لرز اٹھا کہ ایک شوہر پر بیوی نے دوسری شادی کے صرف مزاق پر تیزاب پھینک دیا جس سے اسکا چہرہ جھلس گیا مگر وہ بیچارہ پھر بھی ساتھ بسنے کیلئے تیار ہے نہ اس نے طلاق دی نہ ہی مقدمہ دائر کیا ۔سائنس کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے ہی وزیر کے خلاف جاکر بدفعلی کے مرتکب افراد کو پھانسی دینے کے قانون کی مخالفت کردی جبکہ یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے اپنی شان میں گستاخی پر اپنے ہی حامی صحافی کر تھپڑ جڑ دیا تھا تاہم بلکتے اور پامال ہوتے بچوں اور بچیوں کیلئے انکا ضمیر مر گیا۔ کئی ماہ اسلام آباد کو لاک ڈاون ، پی ٹی وی پر حملہ، پولیس اہلکاروں کو پھانسی دینے اور امپائر کی انگلی کا نعرہ لگانے والے آج دوسروں کو آرٹیکل 6 کا مستحق بتلارہے ہیں ۔کہیں ایک ماں کو کسی بیٹے نے دھکے مار کر گھر سے نکال دیا تو کہیں کوئی بہن اپنے بھائیوں کا حق کھائے بیٹھی ہے۔ کہیں کوئی شخص بھائی کیلئے اپنا حق چھوڑ آیا تو دوسری طرف وہی بھائی اسی کا جائز حق اور روٹی بھی چھیننے میں لگا ہوا ہے۔ حکمران ہوں یا عوام ہر ایک طبقے میں ایسے بےحس اور مردہ ضمیر افراد کی بہتات ہے جنہیں صرف اپنی مرضی اور خواہش کے آگے کچھ نہیں دکھتا۔حکومتیں عوام کو لوٹ رہی ہیں تو عوام ہی میں سے ہر ایک اپنے ماتحت کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔ جس دین نے ایک کتے کو پانی پلانے والی فاحشہ عورت کی معافی کا واقعہ بیان کیا اس کے پیروکار اپنے ہی ہم مذہبوں کی عزتوں اور زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں ۔ مردہ ضمیری نے اخلاق حمیدہ خصوصا حسن ظن،ایثار و قربانی اور اعلی ظرفی کا تو جنازہ نکال دیا ہے۔گھر وں کا شیرازہ بکھرے جارہا ہے۔جس پر احسان کرو پھر اس کے شر سے بچو کی بات اسی وقت کیلئے کہی گئی ہے کیونکہ احساس کی موت نے ضمیر کو بھی سولی چڑھادیا ہے۔اسی لئے تو کسی بڑے حساس شخص نے کہا ہے کہ : ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے ؛ یہ وہ وفا ت ہے جس کی خبر نہیں ہوتی۔