بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے 5 اگست سے جہاں مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے وہیں 10 اگست کے بعد سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی حب کراچی کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بلکہ واقعتاً دنیا کی سب سے بڑی کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔ کراچی کے بھی بہت سے شہریوں نے شاید مظلوم کشمیریوں کی طرح نماز عید ادا نہیں کی ہوگی، کیونکہ جہاں مقبوضہ وادی میں مودی سرکار نے عوامی مظاہروں اور رد عمل کے خوف سے کرفیو لگا رکھا تھا (اب بھی لگا رکھا ہے) اور انٹرنیٹ سروس، موبائل فون سمیت ہر طرح کا مواصلاتی نظام بند رکھا تھا تو خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس افسوس ناک امر کی تصدیق کی کہ کشمیری غاصبانہ قبضے کے باعث عید کی نماز بھی ادا نہیں کر پائے۔ جبکہ کراچی میں شہری انتظامیہ کی بے حسی، مجرمانہ غفلت اور نا اہلی سمیت کے الیکٹرک کی ’’مہربانی‘‘ کے سبب شہریوں کیلئے سنت ابراہیمی تو کجا عید کی نماز ادا کرنا بھی مشکل اور بعض مقامات پر ناممکن ثابت ہوا۔
کے الیکٹرک نے شہر قائد کے باسیوں کو بھاری بھرکم بل بھیجنے کے علاوہ ان پر یہ ’’مہربانی‘‘ کی یا یوں کہہ لیجئے کہ گناہ کمایا کہ تقریباً پورے شہر کو ہی چاند رات یا عید کے پہلے روز تک بجلی میسر نہیں ہوئی تھی۔ کراچی والوں نے دو راتیں بجلی کے بغیر گزاریں (واللہ اعلم کیسے گزاری ہوں گی)۔ 10 اگست بروز ہفتہ شہر میں اللہ اللہ کرکے موسلا دھار بارش ہوئی تو کے الیکٹرک کے فیڈروں نے بجلی دینا چھوڑ دیا۔ ہفتہ کی رات شہر قائد کے باسیوں نے جیسے تیسے گزاری کہ اگلے دن لائٹ آ جائے گی۔ مگر اس بار بھی کے الیکٹرک بجلی فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری سے بچ گئی، کیوں؟؟ کیونکہ پھر بارش ہوگئی ناں۔
11 اگست کو وقفے وقفے سے کبھی تیز اور کبھی ہلکی بارش ہوتی رہی۔ سڑکیں تالاب بن گئیں اور اسی دوران ایک کھمبے سے کرنٹ لگنے کے باعث تین نوجوانوں کی موت کا انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا، جس پر چند افراد نے اس کی ویڈیو بھی بنا ڈالی۔ نجانے یہ لوگ کیسے ہوتے ہیں، جو کسی کو مرتا تڑپتا دیکھ کر اس کی مدد کرنے کے بجائے ویڈیوز بناتے رہتے ہیں۔ اللہ ہدایت دے۔ بہرحال یہ قصہ یہیں ختم کرتے ہوئے بارش کی طرف بڑھتے ہیں۔ اتوار کے روز بھی بارشوں کے سبب پورا دن بجلی نہیں آئی۔ لوگوں میں بے چینی پھیلنے لگی کہ اگلے روز پیر (12 اگست) عید ہے۔ لائٹ کب آئی گی۔
اتوار کا دن بھی گزر گیا۔ رات ہو گئی۔ گھر والے پریشان۔ ہر ہر محلے والے پریشان۔ پوچھیں تو کس سے پوچھیں۔ شہری انتظامیہ بھی عید کی تیاریوں میں ’’مصروف‘‘ ہے اور کے الیکٹرک کا عملہ بھی کہیں نظر نہیں آرہا۔ اسی کشمکش میں شہری رات کو تھک کر سو گئے کہ صبح اٹھ کر عید کی نماز بھی تو پڑھنی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نماز پڑھنے کیلئے پہلے وضو کرنا ہوتا ہے۔ پانی کہاں سے آئے کہ دو دن سے تو بجلی نہیں آئی۔
میں اپنی ہی بات کر لیتا ہوں کہ رات کو اپنے شہر کی بدحالی پر افسوس کرتے ہوئے سو گیا۔ نیند کچی تھی۔ آدھی رات کو پانی پینے اٹھا۔ پیاس بجھا کر واپس سونے چلا گیا۔ پھر دیکھتا ہوں کہ صبح سوا 4 بجے کے وقت لائٹ آئی۔ میرے گھر کے سامنے واقع مسجد میں نمازِ عید کا وقت پونے 7 بجے مقرر تھا۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ عید کی نماز ہونے سے محض2:30 گھنٹے پہلے ہمیں بجلی کی نعمت نصیب ہوئی۔ میرے کچھ جاننے والوں اور دفتر کے دوستوں نے بتایا کہ ان کی طرف تو عید کے پہلے دن دوپہر ڈھائی بجے لائٹ آئی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ہماری کالونی میں عید کی نماز سے ڈھائی گھنٹے پہلے لائٹ آئی اور اُن کے علاقے میں عید کے دن ڈھائی بجے۔
بدترین انتظامی لاپرواہی کی انتہا دیکھیں کہ بعض مقامات پر عید گاہوں سے پانی بھی نہیں نکالا گیا تھا۔ شہریوں نے پھر مساجد کا رخ کیا جہاں رش بڑھنے کی وجہ سے دو دو بار نماز کرائی گئی۔ شاید کراچی کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہوگا۔
اس طرح پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں نے اس بار عید الاضحیٰ اور یوم آزادی منائی۔ بجلی آنے کے بعد پتا چلا کہ پورا شہر ادھڑا ہوا ہے۔ تالاب بننے والی سڑکوں پر اب گڑھے بن چکے ہیں۔ ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی۔ شہر کیچڑ و غلاظت سے اٹ چکا ہے۔ بہت سے صاحب حیثیت افراد نے تو علاقوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے عید کے پہلے روز قربانی نہیں کی تھی۔ لہٰذا دوسرے اور تیسرے روز ہونے والی قربانی کے بعد سے اب تک شہر میں تعفن اٹھ رہا ہے۔ سلیکٹڈ حکومت کا ایک چھچھورا وزیر صفائی مہم چلا کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا اور نالوں سے گند اٹھا کر سڑکوں پر پھینک رہا ہے۔ یہ اس شہر کے ساتھ بھلا کیا ہو رہا ہے۔ کوئی ہے اس کا والی وارث۔ یہاں 30، 40 سال حکومت کرنے والوں سے سیوریج کا نظام تک ٹھیک نہیں ہوا۔ میئر ہمیشہ روتا رہتا ہے کہ فنڈز نہیں ملتے۔ اس میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ فنڈز کی عدم دستیابی پر مستعفی ہو جائے۔ ہوگا بھی کیوں ان کی تو فطرت ہے حکومتوں میں رہنا۔ ادھر کے الیکٹرک والے ہیں کہ شرم ہی نہیں آتی۔ ہر کوئی اپنا اپنا کھیل رہا ہے۔ اور کراچی مجبوراً انہیں جھیل رہا ہے۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ کراچی والوں کے علاوہ بھارتی مظالم میں پسے ہوئے کشمیری عوام کے دل کس قدر غمزدہ ہوتے ہوں گے جب وہ یہ دیکھتے اور محسوس کرتے ہوں گے کہ جس پاکستان سے وہ والہانہ محبت کرتے ہیں اور پاکستان سے ملنے کیلئے سالہا سال سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، اس پاکستان سے اس کا سب سے بڑا شہر نہیں سنبھل رہا۔